... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
عصر حاضر کی سیاست میں کام نہیں کیا جاتا بلکہ تاثرسازی کی جاتی ہے ۔ عوام کے طرز فکر کو اپنے قابو میں کرنے کی سعی اس طرح کی جاتی ہے کہ لوگ پکار اٹھیں کچھ بھی ہوجائے ’آئے گا تو مودی ہی‘۔ یہ عوام کو مرعوب کرکے خود کو ناقابلِ تسخیر کی حیثیت سے پیش کرنے کی حکمت عملی ہے ۔ انگریزی زبان میں اس کو ( TINA یعنی THERE IS NO ALTERNATIVE کوئی متبادل ہے ہی نہیں ) کہتے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے ۔ اس کے لیے میڈیا کو آلۂ کار بناکر بڑی محنت کرنی پڑتی ہے ۔ یہ کام کیسے کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال ابھی حال میں تمل ناڈو کے اندر سامنے آئی ۔ یکم مارچ کوچنئی میں وزیر اعلی ایم کے اسٹالن کی 70ویں سالگرہ کے جشن کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ اس تقریب میں بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو اور اترپردیش سے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو موجود تھے ۔ کانگریس کی نمائندگی ملک ارجن کھڑگے نے کی ۔ یہ تینوں اور خود اسٹالن پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اس موقع پر اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے ایم کے اسٹالن نے ایک ایسا اعلان کردیا جس نے بی جے پی کی نیند اڑادی ۔ انہوں نے کہا کہ تیسرے محاذ کا قیام ایک بے ایمانی ہے یعنی اس سے اپوزیشن اتحاد پارہ پارہ ہوجائے گا۔ غیر بی جے پی ووٹ تقسیم ہوجائیں گے اور کمل کے بلے ّ بلے ہوجائیں گے ۔
کانگریس کے نئے صدر ملکارجن کھرگے نے اس موقع پر 2024کے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن اتحاد کو لے کر ایک بڑا بیان دے کر بی جے پی کی جان نکال دی ۔ دراصل ان سے ایک ایسا سوال کیا گیا تھا کہ جس کے سبب حزب اختلاف میں پھوٹ پڑ جائے یعنی متحدہ اپوزیشن میں وزیر اعظم کا امیدوار کون ہوگا؟ انہوں نے جواب دیاکہ ہم خیال اپوزیشن جماعتوں کو تقسیم کرنے والی طاقتوں کے خلاف اکٹھا ہونا چاہیے ۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ کون قیادت کرے گا یا وزیر اعظم کا چہرہ کون ہوگا؟ ہم متحد ہو کر لڑنا چاہتے ہیں، یہ ہماری خواہش ہے ۔ کھڑگے کا بیان قومی سطح پر سیاسی اتحاد کی جانب یہ اہم پیش رفت تھی ۔ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدوار کی بابت فاروق عبداللہ کا بھی کہنا تھا کہ جب ہم سب متحد ہو کر جیت جائیں گے تو پھر اس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ اس ملک کی قیادت کرنے والا بہترین شخص کون ہے؟ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایم کے اسٹالن وزیر اعظم کے امیدوار ہو سکتے ہیں؟ اس پر عبداللہ نے کہا وہ وزیراعظم کیوں نہیں بن سکتے؟ اس میں غلط کیا ہے ؟
اس تقریب سے تین دن پہلے بہار کے پسماندہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل اپوزیشن اتحاد کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کو کہا تھا کہ اگر کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں آئندہ لوک سبھا انتخابات ایک ساتھ لڑیں تو پھر بھارتیہ جنتا پارٹی 100 فیصدہار جائے گی۔ پورنیہ میں گرینڈ الائنس کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کمار نے کہا تھا کہ متحدہ حزب اختلاف کے سامنے بی جے پی 100 سے بھی کم سیٹوں پر سمٹ جائے گی۔ قومی سطح پر غیر معمولی پیش رفت کی خبر سے توجہ ہٹانے کے لیے جو افواہ اڑائی گئی اس میں ایکشن پٹھان فلم سے بھی زیادہ خطرناک تھا ۔ اس ڈامہ کا منظرنامہ ملاحظہ فرمائیں:’’تمل ناڈو میں بہاری مزدوروں کو طالبانی سزا دی جارہی ہے ۔ ان کے لیے ہندی بولنا گناہ ہوگیا ہے ۔مزدوروں کے تنازع پر اب ہندی بولنے والوں کو چن چن کر کاٹا جارہا ہے ۔ ان لوگوں نے 12 مزدوروں کو ایک کمرے میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا‘‘۔ اپنی ناقابلِ تسخیر شبیہ کو قائم و دائم رکھنے کے لیے اتنا بھیانک جھوٹ گھڑا گیا۔ پہلے یہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے کیا جاتا تھا اب بہار کی صوبائی سرکار کو نشانہ بنایا گیا۔
کوئمبٹور سے کسی نامعلوم ارمان نے بھاسکر کے نمائندے کو فون پر بتایا کہ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تم ہندی بولنے والے ہو اور ہاں کہنے پر کاٹ دیا جاتا ہے ۔اس خبر میں 15 سے زیادہ مزدوروں کے قتل کا دعویٰ کیا گیا تھا ۔ اس ارمان نے بتایا تھا کہ وہ جہاں پھنسا ہواہے وہاں ایک ہزار مزدور ہیں ۔ایک دن قبل اس کے سامنے ایک دوست کی چار انگلیاں کاٹ دی گئیں ۔ وہ کسی طرح جان بچا کر بھاگا۔ انتظامیہ سے شکایت کی تو اس نے کہا کہ تم بھی انہیں مارو۔ ارمان نے اپنے گاوں جمئی کے انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بہار آکر شکایت کرنے کی صلاح دی ۔ مزدوروں کے کئی ایسے ویڈیوز سامنے آئے کہ جن میں انہیں دوڑا دوڑا کر مارا جارہا تھا۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اسپتال میں علاج تک نہیں مل رہاہے ۔ ان ویڈیوز کو وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو بھی بھیجا گیا تاکہ وہ اس تشدد کو روکنے کے لیے کچھ کریں۔یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا ۔ اس کے بعد بھاسکر کا نامہ نگار بہار پہنچ گیا اور وہاں سے دکھ بھری داستانیں پیش کرنے لگا۔ نام نہاد بھاگ کر آنے والے اور ان کے اہل خانہ تمل ناڈو سے زیادہ اپنی حکومت سے ناراض تھے ۔ انہیں شکایت تھی کہ تیجسوی یادو نے اسٹالن کی سالگرہ میں شرکت تو کی مگر ان کے تحفظ کی بابت ایک لفظ نہیں کہا۔ ٹوئٹر پر بی جے پی ٹرول آرمی تیجسوی یادو کے پیچھے پڑگئی اور ان کی بے حسی کو کوسنے لگی۔ یہاں تک کہ بی جے پی رکن اسمبلی نے تیجسوی یادو کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ۔ ایوانِ اسمبلی کے اندر ہنگامہ ہوگیا ۔ یہ سارا ناٹک اپوزیشن اتحاد کی خبر سے توجہ ہٹانے اور اپنے سیای حریف کو بدنام کرنے کے لیے کیا جارہا تھا ۔ تمل ناڈو سے حقیقت کا پتہ لگانے کے بعد مہاگٹھ بندھن میں شامل پارٹیوں نے اس ڈرامہ کو بی جے پی کی سازش قراردے دیا۔ بہار کے نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو نے تمل ناڈو میں بہار کے مزدوروں پر مبینہ حملے کے معاملے میں مرکزی حکومت کی خاموشی پر سوال اٹھایا ۔ انہوں نے پوچھا کہ مرکزی وزارت داخلہ اس کی فکر کیوں نہیں کر رہی ہے ؟ مودی حکومت اس معاملے پر خاموش کیوں ہے ؟۲؍ ریاستوں میں تنازعہ ہوتومرکز کو اس کا حل نکالنا چاہیے لیکن جو بیماری موجود ہی نہ ہوتواس کا علاج کیسے کیا جائے ؟
تیجسوی یادو نے الزام لگایا کہ اپوزیشن کی کامیاب ریلی سے گھبراکریہ حرکت کی گئی تھی ۔ جے ڈی یوکے پرنسپل جنرل سکریٹری کے سی تیاگی نے بھی کہاکہ جو کچھ بی جے پی دکھانے کی کوشش کررہی ہے ویسے واقعات رونما نہیں ہوئے ۔ وہ بولے تمل ناڈو میں اپوزیشن جماعتوں کی بہت کامیاب ریلی ہوئی ۔اس سے ڈر کر قومی سطح پرایسے کسی بھی بڑے اتحاد کو روکنے کے لیے جس میں نتیش کمار اور ایم کے اسٹالین کا اہم کردار ہو، شمالی ہنداور جنوبی ہند کے درمیان بٹوارہ دکھایا جارہا ہے ۔ اس دوران آرجے ڈی کے قومی ترجمان اور راجیہ سبھا رکن پروفیسرمنوج جھا نے الزام لگا دیا کہ فرضی ویڈیوکی بنیاد پر۲؍خطوں کو لڑانے کے لیے کی جانے والی کوشش کا پردہ فاش ہوگیاہے ۔ انہوں نے
کہا کہ بی جے پی اور اس کی ٹرول آرمی جس کام میں لگی ہوئی تھی لیکن بہت جلد اس کا نقاب اتر گیا۔ منوج جھا نے تصدیق کی کہ فرضی ویڈیو وائرل کرنے اور جھوٹی خبر پھیلانے والے میڈیا اداروں اور صحافیوں پر مقدمہ بھی درج ہوگیاہے ۔
یہ عجیب صورتحال تھی کہ بہار بی جے پی شور مچارہی تھی جبکہ مرکز اور تمل ناڈو میں اس کی شاخ بالکل خاموش تھی۔اس دوران تمل ناڈو میں تارکین وطن مزدوروں پر حملے کے الزامات کو لے کر اسٹالن حکومت حرکت میں آگئی ۔ ریاستی سرکار نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے ۔ جس میں ایک بی جے پی رہنما اور دینک بھاسکر کے ایڈیٹر سمیت دو صحافیوں کے خلاف پولیس نے جھوٹی اور بے بنیاد خبریں پھیلانے کا کا الزام لگایا ہے ۔ ملزمین کی فہرست میں بی جے پی کا ترجمان پرشانت امراؤ بھی شامل تھا ۔ اس کے علاوہ دائیں بازو کی ویب سائٹ OpIndia کے سی ای او راہول روشن اور اس کی ایڈیٹر نوپور جے شرما کے خلاف فیک نیوز پھیلانے اور تمل ناڈو میں تارکین وطن مزدوروں میں خوف و ڈرکا احساس پیدا کرنے کی خاطر “جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلانے کے الزام میں تعزیرات ہند کی چار دفعہ 153، 153A(1)(a)، 505(1)(b) اور 505(1)(c) کے تحت مختلف گروہوں کے درمیان مذہب، ذات اور زبان کی بنیاد پربدامنی، دشمنی یا نفرت کو فروغ دینے کا مقدمہ درج کیا گیا۔
افواہ پھیلانے کے اس سنگین معاملے میں بہار پولیس نے راکیش رنجن، امن کمار، منیش کشیپ اور یووراج سنگھ کو ایف آئی آر میں نامزد کیا ۔ آگے چل کر پتہ چلا کہ وہ ویڈیو 6 مارچ کو گوپال گنج کے رہنے والے مرکزی ملزم راکیش رنجن نے دو آدمیوں کی مدد سے پٹنہ کی بنگالی کالونی میں شوٹ کی تھی۔ پولیس کے مطابق ملزم نے اعتراف جرم میں تسلیم کیا کہ اس کا مقصد بہار اور تمل ناڈو پولیس کو گمراہ کرنا تھا۔ راکیش کے مالک مکان نے تصدیق کی کہ یہ ویڈیو کواس کے اپنے گھر پر شوٹ کیا گیا تھا۔ پولیس نے راکیش رنجن اور امان کمار کو توگرفتار کرلیا مگر منیش کشیپ اور یووراج سنگھ فرار ہوگئے ۔یہ کارنامہ بھی فیکٹ چیک کرنے والے معروف صحافی محمد زبیر کا ہے جنہوں نے پھر ایک بار فرقہ پرستوں کو بے نقاب کردیا ۔ محمد زبیر کو ڈرانے دھمکانے کے لیے شاہ اور یوگی کی پولیس نے کیا نہیں کیا مگر وہ نہیں ڈرا بلکہ ڈرانے والے خود بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں ۔انہوں نے ثابت کردیا کہ سرکس میں رِنگ ماسٹر کے کوڑے پر ناچنے والے نہیں بلکہ مودی کے جنگل راج کو بے نقاب کرنے والا اصلی شیر ہوتاہے ۔ علامہ اقبال کا شعر تو زبیر کے لیے ہے
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔