وجود

... loading ...

وجود

عالمی لیڈر کی متاثر کن تقریرسے صارفین کو حقوق مل گئے

جمعه 17 مارچ 2023 عالمی لیڈر کی متاثر کن تقریرسے صارفین کو حقوق مل گئے

ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال میں اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے کہ کس کو کیا حق چاہئے؟سیاستدان اپنے حقوق مانگ رہے ہیں ،خواتین اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہیں،غریب عوام جینے کا حق مانگ رہی ہے جہاں بھی نظر اٹھا کر دیکھ لیں ہر کوئی اپنے حقوق مانگنے میں لگا ہوا ہے لیکن کوئی کسی دوسرے کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے اگر ہر فرد اپنے حقوق مانگنے کے بجائے دوسروں کوان کے حقوق کے لیے کوشاں ہوجائے تو شائد ہمارے ملک کے مسائل ختم ہوجائیں۔گزشتہ روز صارفین کے حقوق کا عالمی دن بڑی خاموشی کے ساتھ گزر گیاکیونکہ صارفین کے حقوق پر سیاست دانوں کے حقوق غالب آگئے تھے۔عوام سکتہ میں آچکی ہے اور یہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ملکی سیاست کابنیادی مقصد آخر ہے کیا؟غریب عوام کی فلاح و بہبود یا صرف اقتدار کی جنگ ؟
15مارچ 1963میں امریکا کے سابق صدر جان ایف کینڈی نے امریکی کانگریس میںصارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسی متاثر کن تقریرکی کہ دنیا کو معلوم ہوا کہ صارفین کے حقوق کتنے اہم ہیں۔یہ پہلا موقع تھا جب کسی عالمی لیڈر نے صارفین کے حقوق کی بات کی تھی، چنانچہ اسی بنیاد پر 15مارچ1983کو پہلی مرتبہ عالمی یوم صارفین منایا گیاتب سے لے کر آج تک دنیا بھر میں 15مارچ کو صارفین کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ جن صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ دن منایا جاتاہے وہ صارف خودہی نہیں جانتاکہ آخر اس کے حقوق ہیں کیا؟پاکستان میں روزانہ لاکھوں ،کروڑوں افراد خریداری کے عمل سے گزرتے ہیں،روزمرہ کی اشیائے خورونوش ہوں یادیگر مصنوعات کی خریداری،ناقص اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت ایک ٹرینڈ بن چکا ہے جس کے متعلق صارفین کو اس وقت اندازہ ہوتا ہے جب ان کے ساتھ ہاتھ ہوچکا ہوتا ہے۔اقوام متحدہ نے 9 اپریل 1958میں صارفین کے حقوق کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی اس میںصارفین کے آٹھ بنیادی حقوق شامل ہیں۔تحفظ کا حق،معلومات کا حق،انتخاب کا حق،شنوائی کا حق،بنیادی ضروریات کا حق،تلافی کا حق،علم کا حق اور صحت مند ماحول کا حق۔یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جو صارفین کو عالمی بنیاد پر حاصل ہیںیعنی صارف دنیا کے کسی بھی ملک میں خریداری کرے گا تو اسے یہ بنیادی حقوق حاصل ہوں گے۔
اب بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار داد جس پر پاکستان کی رضامندی کے بھی دستخط ہیں ان پر کوئی ملک کیسے عملدرآمد کرتا ہے؟صارفین کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں حکومت پاکستان نے کئی موثر اقدامات کیے ہیں اس کے باوجود ایک مخصوص مافیا عرصہ سے لوگوں کی زندگیوں سے سرعام کھیل رہا ہے ۔اگر ہم روز مرہ اشیائے خورونوش کا جائزہ لیں توشاید ہی کوئی خالص چیز مل جائے وگرنہ ہر ایک میں ملاوٹ ،مضر صحت اورغیر معیاری اجزاء ملیں گے ۔مردہ جانوروں کے خون سے تیارکردہ کیچپ،اینٹوں کے برادہ سے بنی سرخ مرچ،گندے پھلوں اور مضر صحت کیمیکل سے تیار کردہ جوسز، رنگ کردہ پتی،پلاسٹک کے چاول، ملاوٹ شدہ دالیں ،چینی،آٹا یہ سب مافیا کی بدولت کھلے عام فروخت ہورہاہے اگرچہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے موثر اقدامات کی بدولت ملاوٹ شدہ اشیاء کی فروخت میں کافی کمی آچکی ہے تاہم ان اقدامات کے باوجود بھی آج کے دور کا صارف اپنے حقوق سے ناآشنا ہے ،اسی طرح الیکٹرانکس کی خریدوفروخت حتیٰ کہ خدمات کی فراہمی میں بھی اگر کوئی صارف کو دھوکا دیتا ہے تو اس کے ازالہ کے لیے صوبوں میں کنزیومر کونسلز اور کنزیومر کورٹس قائم کی گئی ہیں ۔صارفین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے اور تجارت و تجارت سے ناقص مصنوعات اور ناقص خدمات کو دور کر کے صوبے میں اشیا اور خدمات کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کنزیومرپروٹیکشن ایکٹ 2005نافذ کررکھاہے۔اس ایکٹ کے تحت لاہور ، بھکر، بھاولنگر، بہاولپور، ڈی جی خان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، لیہ، منڈی بہاؤالدین راولپنڈی، رحیم یار خان ، ساہیوال، سرگودھا اور سیالکو ٹ سمیت سترہ اضلاع میں ڈسٹرکٹ کنزیومر کورٹس اور ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسلز قائم کی گئی ہیں۔صارفین کو دکانداروں یا خدمات فراہم کرنے والوں سے اگر کسی بھی دھوکہ ،فراڈکا سامنا ہو تو وہ کنزیومر کورٹس سے رابطہ کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر