... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال میں اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے کہ کس کو کیا حق چاہئے؟سیاستدان اپنے حقوق مانگ رہے ہیں ،خواتین اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلی ہوئی ہیں،غریب عوام جینے کا حق مانگ رہی ہے جہاں بھی نظر اٹھا کر دیکھ لیں ہر کوئی اپنے حقوق مانگنے میں لگا ہوا ہے لیکن کوئی کسی دوسرے کو اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہے اگر ہر فرد اپنے حقوق مانگنے کے بجائے دوسروں کوان کے حقوق کے لیے کوشاں ہوجائے تو شائد ہمارے ملک کے مسائل ختم ہوجائیں۔گزشتہ روز صارفین کے حقوق کا عالمی دن بڑی خاموشی کے ساتھ گزر گیاکیونکہ صارفین کے حقوق پر سیاست دانوں کے حقوق غالب آگئے تھے۔عوام سکتہ میں آچکی ہے اور یہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ملکی سیاست کابنیادی مقصد آخر ہے کیا؟غریب عوام کی فلاح و بہبود یا صرف اقتدار کی جنگ ؟
15مارچ 1963میں امریکا کے سابق صدر جان ایف کینڈی نے امریکی کانگریس میںصارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسی متاثر کن تقریرکی کہ دنیا کو معلوم ہوا کہ صارفین کے حقوق کتنے اہم ہیں۔یہ پہلا موقع تھا جب کسی عالمی لیڈر نے صارفین کے حقوق کی بات کی تھی، چنانچہ اسی بنیاد پر 15مارچ1983کو پہلی مرتبہ عالمی یوم صارفین منایا گیاتب سے لے کر آج تک دنیا بھر میں 15مارچ کو صارفین کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ جن صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ دن منایا جاتاہے وہ صارف خودہی نہیں جانتاکہ آخر اس کے حقوق ہیں کیا؟پاکستان میں روزانہ لاکھوں ،کروڑوں افراد خریداری کے عمل سے گزرتے ہیں،روزمرہ کی اشیائے خورونوش ہوں یادیگر مصنوعات کی خریداری،ناقص اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت ایک ٹرینڈ بن چکا ہے جس کے متعلق صارفین کو اس وقت اندازہ ہوتا ہے جب ان کے ساتھ ہاتھ ہوچکا ہوتا ہے۔اقوام متحدہ نے 9 اپریل 1958میں صارفین کے حقوق کے حوالے سے جو قرارداد منظور کی اس میںصارفین کے آٹھ بنیادی حقوق شامل ہیں۔تحفظ کا حق،معلومات کا حق،انتخاب کا حق،شنوائی کا حق،بنیادی ضروریات کا حق،تلافی کا حق،علم کا حق اور صحت مند ماحول کا حق۔یہ وہ بنیادی حقوق ہیں جو صارفین کو عالمی بنیاد پر حاصل ہیںیعنی صارف دنیا کے کسی بھی ملک میں خریداری کرے گا تو اسے یہ بنیادی حقوق حاصل ہوں گے۔
اب بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار داد جس پر پاکستان کی رضامندی کے بھی دستخط ہیں ان پر کوئی ملک کیسے عملدرآمد کرتا ہے؟صارفین کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں حکومت پاکستان نے کئی موثر اقدامات کیے ہیں اس کے باوجود ایک مخصوص مافیا عرصہ سے لوگوں کی زندگیوں سے سرعام کھیل رہا ہے ۔اگر ہم روز مرہ اشیائے خورونوش کا جائزہ لیں توشاید ہی کوئی خالص چیز مل جائے وگرنہ ہر ایک میں ملاوٹ ،مضر صحت اورغیر معیاری اجزاء ملیں گے ۔مردہ جانوروں کے خون سے تیارکردہ کیچپ،اینٹوں کے برادہ سے بنی سرخ مرچ،گندے پھلوں اور مضر صحت کیمیکل سے تیار کردہ جوسز، رنگ کردہ پتی،پلاسٹک کے چاول، ملاوٹ شدہ دالیں ،چینی،آٹا یہ سب مافیا کی بدولت کھلے عام فروخت ہورہاہے اگرچہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے موثر اقدامات کی بدولت ملاوٹ شدہ اشیاء کی فروخت میں کافی کمی آچکی ہے تاہم ان اقدامات کے باوجود بھی آج کے دور کا صارف اپنے حقوق سے ناآشنا ہے ،اسی طرح الیکٹرانکس کی خریدوفروخت حتیٰ کہ خدمات کی فراہمی میں بھی اگر کوئی صارف کو دھوکا دیتا ہے تو اس کے ازالہ کے لیے صوبوں میں کنزیومر کونسلز اور کنزیومر کورٹس قائم کی گئی ہیں ۔صارفین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے اور تجارت و تجارت سے ناقص مصنوعات اور ناقص خدمات کو دور کر کے صوبے میں اشیا اور خدمات کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کنزیومرپروٹیکشن ایکٹ 2005نافذ کررکھاہے۔اس ایکٹ کے تحت لاہور ، بھکر، بھاولنگر، بہاولپور، ڈی جی خان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، لیہ، منڈی بہاؤالدین راولپنڈی، رحیم یار خان ، ساہیوال، سرگودھا اور سیالکو ٹ سمیت سترہ اضلاع میں ڈسٹرکٹ کنزیومر کورٹس اور ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسلز قائم کی گئی ہیں۔صارفین کو دکانداروں یا خدمات فراہم کرنے والوں سے اگر کسی بھی دھوکہ ،فراڈکا سامنا ہو تو وہ کنزیومر کورٹس سے رابطہ کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔