وجود

... loading ...

وجود

کیا اپوزیشن ہی بدعنوان ہے ؟

پیر 13 مارچ 2023 کیا اپوزیشن ہی بدعنوان ہے ؟

معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کے نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن میں ایک نئی ہلچل دیکھنے کو ملی ہے ۔سرکاری ایجنسیاں جس انداز میں اپوزیشن لیڈران کو نشانہ بنا رہی ہیں، اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں صرف اپوزیشن ہی بدعنوان ہے جبکہ حکمراں طبقے کے سبھی لوگ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گودی میڈیا بھی سوال صرف اپوزیشن سے ہی پوچھتا ہے اور اس کی توپوں کا رخ ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکومت کی کارکردگی پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ جبکہ میڈیا کا اصل کام حکومت سے سوال کرنا ہے اور اسے عوامی بہبود کے کاموں پر مجبور کرنا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایک نئی ریت چلی ہے کہ سارے سوال صرف اپوزیشن سے پوچھے جاتے ہیں اور حکومت کو ہر معاملے میں کلین چٹ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر اب پانی سرسے اونچا بہنے لگاہے ۔سرکاری ایجنسیاں آئے دن جس انداز میں اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنارہی ہیں، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسراقتدار طبقہ ملک کو‘اپوزیشن فری’بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ من مانی کرسکے ۔یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن اپنی ناکہ بندی خلاف متحد ہوکر سامنے آگیا ہے ۔اپنے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی کی غیرمعمولی سرگرمی کے پیش نظر اپوزیشن جماعتوں نے مورچہ کھول دیا ہے ۔
اپوزیشن نے مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی کو ایک مکتوب روانہ کیا ہے ۔آبکاری پالیسی معاملے میں منیش سسودیا کی گرفتاری کا ذکرکرتے ہوئے اپوزیشن لیڈران نے خط میں لکھا ہے کہ ‘آپ’ لیڈر کے خلاف عائد کیے گئے الزامات پوری طرح بے بنیاد اور سیاسی سازش کا حصہ ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن ممبران سے انتخابی میدان کے باہر انتقام لینے کے لیے مرکزی ایجنسیوں اور گورنر جیسے آئینی عہدوں کا غلط استعمال قابل مذمت ہے اور یہ جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے ۔دہلی سرکارکے ایک وزیر ستیندر جین پہلے سے ہی تہاڑجیل میں ہیں اور اب نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کی گرفتاری نے عام آدمی پارٹی کو سراپا احتجاج بنادیا ہے ۔ اس سے قبل عام آدمی سرکار کے وزیر ستیندر جین کو منی لانڈرنگ معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ تقریباً دس ماہ سے تہاڑجیل میں بند ہیں۔اب نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے ۔اس کارروائی کے بعد عام آدمی سرکار کے دونوں وزیر مستعفی ہوچکے ہیں۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں،ای ڈی نے جیل میں ہی منیش سسودیا کو گرفتار کرلیا۔ اس سے پہلے ان کی گرفتاری سی بی آئی نے کی تھی۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی گرفتار شدہ شخص کو دوبارہ گرفتار کیا جائے ، مگر اس وقت ہم جس سیاسی ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہاں سی بی آئی اور ای ڈی کو اتنے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ غیراپوزیشن کے کسی بھی لیڈر کو کئی کئی بار گرفتار کرسکتے ہیں۔ یعنی اگر ایک بارکسی کی گرفتاری سے تشفی نہ ہوئی ہو تو اسے دوبار، تین یا چار بار بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس کے برعکس اگر بی جے پی کا کوئی لیڈر بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اسے فوری ضمانت مل سکتی ہے اور کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کا اندازہ گزشتہ ہفتہ اس وقت ہوا جب کرناٹک میں ایک بی جے پی ممبر اسمبلی کے بیٹے کے گھر سے آٹھ کروڑ روپے کی نقدی برآمدہوئی۔ اس کے بعد سبھی کو یہ توقع تھی کہ ممبر اسمبلی کے خلاف کارروائی عمل میں آئے گی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔واضح رہے کہ ممبراسمبلی مدل ویروپکشپا کے بیٹے پرشانت کمار کو ایک ٹھیکیدار سے چالیس لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیاتھا۔اس کے بعد جب لوک آیکت افسران نے ممبراسمبلی کے بیٹے کے گھر پر چھاپہ مارا تو بے حساب نقدی برآمد ہوئی۔اپنے خلاف کارروائی کے خدشے کے پیش نظر ممبراسمبلی نے اپنی پیشگی ضمانت کے لیے کرناٹک ہائی کورٹ میں جو عرضی دائر کی وہ اگلے ہی روز سماعت کے لیے منظورہوگئی اور عدالت نے پیشگی ضمانت بھی منظورکرلی۔ اس واقعہ پر کرناٹک ہائی کورٹ کے خلاف بنگلور کے وکیلوں کی ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک شکایتی مکتوب روانہ کیا ہے ۔اس میں کہا گیا ہے عام شہریوں کی اپیل کو سماعت پرآتے آتے کم از کم ایک ہفتہ لگ جاتا ہے جبکہ بی جے پی ممبراسمبلی کی اپیل کو اگلے ہی دن سن بھی لیا گیا۔ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، لیکن یہاں امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک جانب حکمراں جماعت سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بدعنوانی کے معاملے میں پورے نظام کا ایک ہی رویہ ہے جبکہ اپوزیشن لیڈران کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جارہی ہے ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگاسکتے ہیں کہ راشٹریہ جنتادل کے رہنما اور بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو ان دنوں سخت بیمار ہیں۔ پچھلے دنوں سنگاپور میں ان کاگردہ بھی بدلا گیا ہے ، لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جارہی ہے ۔ یہاں تک کہ ان کی بیوی رابڑی دیوی اور بیٹی راگنی یادو کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔لالو یادو اور ان کے خاندان کو نشانہ بنانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کبھی فرقہ پرست طاقتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔اپوزیشن کے خلاف تابڑتوڑ کارروائیوں سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نے مرکزی ایجنسیوں کو سیاسی مخالفین کا خاتمہ کرنے کے کام میں لگادیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کے خلاف تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر آواز بلند کررہی ہیں اور انھوں نے براہ راست وزیراعظم سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے ۔
اپوزیشن لیڈران نے اپنے مکتوب میں آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اور دیگر لیڈروں پر بھی نشانہ سادھا ہے ۔الزام لگایا گیا ہے کہ اپوزیشن کے جو لیڈران بی جے پی میں شامل ہوجاتے ہیں، ان کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کی جانچ کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے ۔ جن اپوزیشن لیڈران نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے ان میں تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندرشیکھر راؤ،دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان، راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو، این سی پی صدر شرد پوار، نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ، شیوسینا لیڈر ادھو ٹھاکرے ، اور سماجوادی پارٹی صدر اکھلیش یادو شامل ہیں۔
اس صورتحال پر حال ہی میں سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے بھی آواز بلند کی ہے ۔ انھوں نے ان حالات سے
نمٹنے کے لیے ’انصاف ‘ کے نام سے ایک غیرسیاسی پلیٹ فارم قایم کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی سرکار سے سوال پوچھنے کی ہمت کرتا ہے ، اس کے پیچھے مرکزی ایجنسیاں پڑجاتی ہیں۔اپوزیشن کے رہنماؤں، صحافیوں، اداکاروں اور طلباء کو ایجنسیاں نشانہ بنارہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ای ڈی کی 95فیصدی تحقیقات اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ہے ۔سرکار کہتی ہے کہ یہ لوگ غلط کام کررہے تھے تب ہی ایجنسیاں انھیں نشانہ بنارہی ہیں، لیکن تصویر کا دوسرا پہلویہ ہے کہ سرکار اپنے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کو دبانے کی مہم چلارہی ہے ۔کپل سبل کا سوال تھا کہ کیا بی جے پی کے کسی ایک لیڈر کے خلاف ای ڈی نے جانچ شروع کی ہے ؟کوئی بھی مرکزی ایجنسی برسراقتدار لوگوں کے پاس گئی؟کیا بی جے پی کے سارے لوگ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ٹارگٹ صرف اپوزیشن کی حکومتیں ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر