وجود

... loading ...

وجود

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

اتوار 12 مارچ 2023 پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کے ملکی حالات نے انقلابی شاعر حبیب جالب کی یادیں تازہ کردی ہیں اور آج تو ویسے بھی انکی30ویں برسی ہے جو ہر سال 12مارچ کو منائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری پڑھ پڑھ کر میاں شہباز شریف آج وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن قوم کی حالت نہیں بدلی۔ آج بھی لوگ بھوک سے خودکشیاں کررہے ہیں جبکہ حبیب جالب کا جو پیغام ہے اس کے برعکس ہے۔ وہ خود مرنے کے قائل نہیں بلکہ جوافراد ایسے حالات پیدا کررہے ہیں کہ غریب انسان موت کو گلے لگا لے وہ ان کو غرق کرنے کے قائل ہیں۔ غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے حبیب جالب نے اپنی آنکھوں سے جو دیکھا ،اسے من و عن شاعری کے قالب میں ڈھال دیا۔ نتائج سے بے پروا ہ ہو کر حبیب جالب نے ہر دور میں جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔
حبیب جالب کے سرکش قلم نے محکوم اور مجبور انسانوں کوظلم کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کیا۔ حبیب جالب بنیادی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیونزم کے حامی تھے اور وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن بھی تھے۔ حبیب جالب کی انقلابی شاعری کے پانچ مجموعے منظر عام پر آئے جن میں بر گ آور، سر مقتل،عہد ستم،ذکر بہتے لہو کااور گوشے میں قفس کے قابل ذکر ہیں۔ انہیں پاکستانی فلم ” زرقا ” کے ایک مشہور گانے ” رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ” سے شہرت حاصل ہوئی۔ حبیب جالب 12مارچ 1993ء کو علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے۔حبیب جالب کی وفات کے 16برس بعد انہیںان کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے نشان امتیاز سے نوازا۔ فیض احمد فیض نے کہا تھاکہ حبیب جالب عوام کے شاعر تھے۔ انہوں نے فوجی بغاوتوں اور منتظمین کی مخالفت کی اور کئی بار جیل بھی گئے۔
حبیب جالب برطانوی ہندوستان میں 24 مارچ 1928 کو ہوشیار پور کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اُن کا نام حبیب احمد رکھا گیا ۔ اُنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر لی پھر کراچی کے روزنامہ امروز میں بطور پروف ریڈر کام کیا۔ وہ ایک ترقی پسند مصنف تھے اور جلد ہی اپنی پرجوش شاعری سے سامعین کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا۔ انہوں نے سادہ زبان میں لکھا سادہ انداز اپنایا اور عام لوگوں اور مسائل کو حل کیا لیکن ان کے الفاظ کے پیچھے یقین اس کی آواز کی موسیقی اور اس کی جذباتی توانائی کے ساتھ سماجی و سیاسی تناظر کی حساسیت نے سامعین کو ہلا کر رکھ دیا۔ جالب ایوب خان کی آمریت سے کبھی مفاہمت نہیں کر سکے اور جب ایوب خان نے 1962 میں ملک میں اپنا تیار کردہ آئین نافذ کیا جسے ایک سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی نے لائل پور کے کلاک ٹاور سے تشبیہ دی اس پر حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم لکھی:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
ایک اور واقعہ جو کہ ملک کی مزاحمتی لوک داستانوں کا حصہ بن چکا ہے مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالاباغ نے فلمسٹار نیلو کو ایران کے شاہ رضا پہلوی کے سامنے رقص کرنے کی دعوت دی جس پراس نے انکار کر دیا اور پھر پولیس کو زبردستی اسے لانے کے لیے بھیجا گیا جس کی وجہ سے اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ اس واقعے نے جالب کی ایک نظم کو متاثر کیا، جسے بعد میں نیلو کے شوہر ریاض شاہد نے فلم زرقا (1969) میں شامل کیا نظم کا عنوان تھا رقصِ زنجیر (زنجیروں کا رقص) ۔
تو کہ ناواقفِ آدبِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
بے نظیر بھٹوجب اقتدار میں آئیں تو حبیب جالب سے پوچھا گیا کہ کیا آپ جمہوریت کے بعد کوئی تبدیلی محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ۔
حال اب تک وہی ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
حبیب جالب نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں پیغام دیا ہے کہ کبھی کسی ظلم کے سامنے سر نہیں جھکانا بلکہ اپنا حق بھی چھیننا ہے اور دوسروں کا حق بھی لیکر دینا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر