... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب حکومت نے محکمہ جیل خانہ جات کے سب سے سینئر اور تجربہ کار افسر میاں فاروق نذیر کو تیسری بار آئی جی تعینات کردیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی کا اداروں کی بحالی کی طرف یہ پہلا قدم ہے کیونکہ جب تک کسی ادارے کا سربراہ قابل ،سمجھدار اور دیانت دار نہیں ہوگا اس وقت تک ادارہ مضبوط ہوگا نہ ہی اسکے ملازم اپنے آپ کو طاقتور سمجھیں گے۔ میاں فاروق نذیر کا بطور آئی جی جیل خانہ جات شاندار کیریئر رہا ۔ انہوں نے اپنے دور میں جیل کے اندر بند قیدیوں،حوالاتیوں اور جیل ملازمین کے لیے بہت سے کام کیے ان سے پہلے اور بعد میں جیلوں کا نظام اتنا خراب تھا کہ انہیں بلاشبہ جرائم کی یونیورسٹی سمجھا جاتا تھا ۔یہاں پر آنے کے بعد شریف انسان بھی جب باہر نکلتا تھا تو وہ بھی جرائم کے اسرارورموز سے بخوبی واقفیت حاصل کرلیتا تھا اور تو اور جیل کے اندر جو مافیا ہوتا تھا وہ پیسے اکٹھے کرنے اور لوٹ مار میں مصروف رہتا تھا۔ جیلوں میںکرپشن عام تھی بلکہ بیرکیں ٹھیکے پر دیدی جاتی اور کھانے پینے سے لیکر وردیوں تک کرپشن ہی کرپشن تھی۔ میاں فاروق نذیر کا پہلا دور بطور آئی جی شروع ہوا تو انہوں نے اس گلے سڑے اور بوسیدہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کام شروع کردیا جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے مگر اپنے ہی گراتے ہیںنشمین پہ بجلیاں ۔میاں صاحب کوہٹا کر ایک جونیئر کو آئی جی لگا دیا گیا جو زیادہ عرصہ تو نہ چل سکا لیکن جاتے جاتے جیلوں میں پرانا ماحول ضرور بحال کرگیا۔
خیر میں بات کررہا ہوں میاں فاروق نذیر کی جنہوں نے پنجاب کی جیلوں میں بے انتہا کام کروائے میاں صاحب سے پہلے جیلوں میں موبائل فون کا استعمال عام تھا ۔جیل اندر سے بیٹھ کر باہر وارداتیںڈالی جاتی تھیںجبکہ منشیات کا استعمال بھی عام تھا اورقیدیوں کی جانب سے موبائل فونز کا غیر قانونی استعمال جیل حکام کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا ۔انتظامیہ قیدیوں کے موبائل فون استعمال کرنے سمیت ممنوعہ سرگرمیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پریشان تو تھی مگر اس سے چھٹکارے کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہا تھا۔میاں فاروق نذیر نے جیلوں میں جیمر لگائے ویجی لینس سیل قائم کیا اور خود بھی 40جیلوں کے اچانک دورے کرکے 12281 سے زائد موبائل فونز، سمز، چارجز اور ممنوعہ اشیاء برآمد کی اسی طرح جیل میں بند قیدیوں اور حوالاتیوں کے لواحقین کو ملاقات کے وقت سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ رشوت کا کلچر عام تھا جس پر میاں صاحب نے عوام کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک شکایت سیل قائم کردیا۔ عوام کی شکایت براہ راست آئی جی آفس سنتا اور موقع پر ہدایات جاری ہوتی۔ اس کے علاوہ تمام سپرنٹنڈنٹ جیلوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ جیل کے باہرلوگوں کی شکایت سنیں اور ملاقات کے لیے آنے والوں کے لیے جیلوں کے باہر پینے کے ٹھنڈے پانی اور الیکٹرک واٹر کولر کا انتظام کیا۔ پنجاب کی جیلوں میں سکیورٹی کے بہتر انتظامات کوبہتر اور یقینی بنایاملازمین کو جدید اسلحہ لیکر دیا جیلوں میں بند افراد کی طبی سہولتوں کو بہتر کیا اور 33.885 ملین روپے کی ایمبولینسیں خریدی اورجیل ہسپتالوں کے لیے جدید سرجری مشینیں لیکر دی جبکہ ڈسٹرکٹ جیل نارووال، ڈسٹرکٹ جیل راجن پور کے لیے ہسپتال کے آلات کی خریداری، ڈسٹرکٹ جیل حافظ آباد، ڈسٹرکٹ جیل خانیوال، ڈسٹرکٹ جیل لودھراں، ہائی سکیورٹی جیل، میانوالی اورسب جیل شجاع آباد سمیت پنجاب کی سبھی جیلوں میں صحت کی سہولیات اس حد تک بڑھا دی کہ اب قیدیوں کا بہتر علاج ان جیلوں میں ہی ہورہا ہے۔ کسی کو باہر جانے کی ضرورت نہیں رہی ۔ ان کے دور میں سب سے اچھا کام یہ بھی ہوا کہ جیلوں میں بند افراد کو اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع فراہم کیا گیا سیکیورٹی جیل ساہیوال، ڈسٹرکٹ جیل، اوکاڑہ، پاکپتن، لیہ ،بھکر، سینٹرل جیل لاہور اور پنجاب کی دیگر جیلوں میں فیملی رومزبنواکردیے ڈسٹرکٹ جیل ملتان اور ویمن جیل ملتان میں مخیر حضرات کے تعاون سے واتر ٹربائنز لگواکردیے جو عرصہ دراز سے پڑے خراب ہو رہے تھے ۔ جیلوں میں ٹوٹے اور گندے کھانے کے برتن تبدیل کروائے سردیوں میں نئے گرم کمبل مخیر حضرات سے لیکر دلوائے۔ قرشی فاؤنڈیشن اور مدینہ گروپ انڈسٹری کی جانب سے 500 واٹر کولر عطیہ کروائے۔ سینٹرل جیل فیصل آباد میں جمعیت تعلیم القرآن لاہور کی طرف سے عطیہ کردہ کوٹ کی سلائی کے لیے سلائی یونٹ نصب کیا پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کے کھانے پینے کا مینو خود ترتیب دیکر تمام جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کو سرکلر جاری کیے کہ گائے کے گوشت/چکن کے معیار/مقدار کو یقینی بنایا جائے اور ساتھ ہی جیل کے احاطے میں مرغی، گائے/بھینس کو ذبح کرنے کا بھی انتظام کروایا۔ غیر معیاری خوراک فراہم کرنے والے 6 ٹھیکیداروں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے 23 سٹور کیپرز کو ناکامی کی وجہ سے معطل کر دیا گیا ہے۔ قیدیوں کا ہنر مند بنانے کے لیے TEVTA کے تعاون سے مختلف کورسسز شروع کروائے اور زیر سماعت قیدیوں کے لیے ٹریڈ ٹیسٹنگ بورڈ کی رجسٹریشن اور امتحانی فیس کو استثنیٰ دلوایا جیل میں بند قیدیوں کو اپنے گھر والوں سے بات چیت کے لیے پی سی او کا نظام متعارف کروایا پنجاب کی تمام جیلوں میں ٹول فری نمبر 1124 (ہیلپ لائن) کی سہولت قائم کردی جہاں قیدی اور حوالاتی اپنی شکایت درج کرواسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ میاں فاروق نذیر نے اپنے دور میں جیلوں کے حوالہ سے لاتعدا د کام کیے ایسے افراد اگر ہر ادارے میںموجود ہوں تو یقین جانیں ہمارا ملک بھی ٹھیک ہو جائیگا اور عوام بھی لیکن بدقسمتی سے یہاں پر پیکج لگوا کرآنے والوںکی بہتات ہے جو اپنے اپنے پیکج کے مطابق ہی کام کرتے ہیں جیسے ہی مک مکا کا وقت ختم ہوتا ہے، ویسے ہی وہ واپس چلے جاتے ہیں مگر جاتے جاتے ادارے کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو بھی کرپٹ اور کام چور بنا جاتے ہیں۔ میاں فاروق نذیر اس وقت محکمہ جیل خانہ جات میںسب سے سینئر ہیں۔ تجربے میں ،رتبے میں اور گریڈ میں بھی اس لیے انہیں ریٹائرمنٹ تک اسی سیٹ پر کام کرتے رہنا چاہیے اسی میں 40جیلوں کے اندر رہنے والوں کی بہتر تربیت ہو گی اور باہر والوں کی پریشانیاں ختم ہو سکیں گی۔ امید ہے اب جیلیں جرائم کی یونیورسٹیاں نہیں بلکہ اصلاح کا گھر بننے میں وقت نہیں لگائیں گی ۔