... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بڑی شدت سے یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ سی پیک پرکام غیر ملکی دبائو کے باعث روک کر سی پیک منصوبے کو بند کردیا گیا ہے، حالانکہ یہ سراسر غلط اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ اس منصوبے کے تحت اب تک ملک میں بہت سے منصوبے پایہ تکمیل تک نہ صرف پہنچ چکے ہیں بلکہ ان منصوبوں سے غریب اور مجبور عوام لطف اندوز بھی ہور ہے ہیں۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)ہی اب وہ واحد منصوبہ ہے جو مستقبل میں ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور جو لوگ اس منصوبے کے خلاف ہیں اصل میں وہ پاکستان کے خلاف ہیں۔ سی پیک پاکستان میں شروع کیا گیا 3000 کلومیٹر طویل چینی انفراسٹرکچر نیٹ ورک منصوبہ ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری علاقائی رابطے کا فریم ورک ہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف چین اور پاکستان کو فائدہ پہنچے گا بلکہ ایران، افغانستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک اور خطے پر مثبت اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے سے جغرافیائی روابط بڑھیں گے ۔ سڑک، ریل اور ہوائی نقل و حمل کے نظام میں بہتری کے ساتھ مسلسل اور آزادانہ تبادلے اور لوگوں سے لوگوں کے رابطے، علمی، ثقافتی اور علاقائی علم و ثقافت کے ذریعے افہام و تفہیم کو بڑھانا، تجارت اور کاروبار کے بہاؤ کے زیادہ حجم کی سرگرمی، زیادہ سے زیادہ بہترین کاروبار کے لیے توانائی کی پیداوار اور منتقلی کے ذریعے آپس میں تعاون کو بڑھانے کے نتیجے میں ہم آہنگی اور ترقی کے ساتھ مربوط خطہ بھی ہوگا۔ اس منصوبہ میں سمندری اور زمینی راہداری کے باعث کم وقت میں زیادہ تجارت ہو سکے گی۔ سی پیک سے پاکستان میں بجلی کی کمی پر قابو پایا جائے گا جبکہ سی پیک کے نتیجے میں تقریبا ڈھائی ملین ملازمتیں پیدا ہوں گی جس سے ملک کی سالانہ اقتصادی ترقی میں 2 سے 2.5 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہو گا۔ 2022 تک اس منصوبے نے پاکستان کی برآمدات اور ترقی کی صلاحیت کو بڑھایا بھی ہے جو اس وقت بجلی کا 1/4 حصہ فراہم کر رہا ہے۔
2013 میں چینی صدر لی کی چیانگ کی تجویز کے بعد اس منصوبے پر ابتدائی کام 2014 میں شروع کیا گیا تھا جس میں مخالف ماحول اور پیچیدہ جغرافیائی حالات کو بھی مد نظر رکھا گیا تھا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری گلوبلائزڈ دنیا میں اقتصادی علاقائی ترقی کی طرف سفرکا آغاز ہے۔ جس کے بعدچین پاکستان اقتصادی راہداری امن، ترقی اور معیشت کی نمو کے ساتھ مستقبل کے بہتر خطے کی امیدبھی بن چکا ہے اس راہداری کے فعال ہونے کے بعد چین تک تیل کی نقل و حمل کا موجودہ 12,000 کلومیٹر کا سفر کم ہو کر صرف 2,395 کلومیٹر رہ جائے گا ۔ اس سے چین کو سالانہ 2 بلین ڈالر کی بچت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ $46 بلین ڈالر سے شروع ہوتھا جو 2020 تک $62 بلین پہنچ گیا اور پھر 2022 میں پاکستان میں چینی سرمایہ کاری بڑھ کر 65 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ سی پیک پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو تیزی سے اپ گریڈ کرنے اور جدید نقل و حمل کے نیٹ ورکس، توانائی کے متعدد منصوبوں، اور خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر کے ذریعے معیشت کو ایک حد تک مضبوط کرنے کا تصور بھی ہے۔ سی پیک کے خصوصی اقتصادی زونز میں جو ممکنہ صنعتیں لگائی جا رہی ہیں، ان میں فوڈ پروسیسنگ، کوکنگ آئل، سیرامکس، جواہرات اور زیورات، ماربل، معدنیات، زرعی مشینری، لوہا اور سٹیل، موٹر بائیک اسمبلنگ، برقی آلات اور آٹوموبائل شامل ہیں۔ اس منصوبے پر چین اور پاکستان نے 2015 میں باضابطہ مفاہمت ناموں پر دستخط کیے تھے لیکن تحت طویل مدتی منصوبے کی پہلی تفصیلات 2017 میں منظر عام پر آئیں سی پیک میں پاکستان کے لیے بے پناہ مواقع ہیں۔ اس منصوبے نے پاکستان کو اپنے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ اس منصوبہ کے حوالے سے پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چینی قرضوں کی ادائیگی 20/25 سال کی مدت میں 2 فیصد سود پر کی جائے گی اورقرض کی ادائیگی میں مشکلات کی وجہ سے پاکستان نے چین سے قرضوں میں ریلیف کے لیے بات چیت شروع کر دی ہے اور وہ سی پیک کے تحت منصوبوں کے لیے قرض اور اس کے سود کی ادائیگی میں آسانی چاہتا ہے، 2022 تک پاکستان چین کا تقریباً 30 بلین ڈالر کا مقروض ہے جو اس کے غیر ملکی قرضوں کا تقریباً 30 فیصد بنتا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت گزشتہ 10 برس کے دوران 200,000 براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرنے والے 30 سے زائد منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور مزید منصوبے بھی تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔ اس منصوبے کے تحت 6000 میگاواٹ سے زائد بجلی نیشنل گرڈ میں ڈالی جا چکی ہے 809 کلومیٹر ہائی وے بنائی گئی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 886 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائنیں لگائی گئی ہیں۔
ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کے ساتھ 60بلین ڈالر کا چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) منصوبہ پاکستان کے لیے اپنی معیشت کو فروغ دینے، غربت میں کمی، وسیع پیمانے پر فوائد پھیلانے اور نئے تجارتی راستے سے متاثر ہونے والوں کی مدد کرنے کے لیے بے پناہ امکانات فراہم کررہا ہے جبکہ اس منصوبے کو عذاب کہنے وا لوں کو ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سی پیک گورننس کی کمزوریوں، غلط نظام ، سیاسی عدم استحکام، بیوروکریٹک ریڈ ٹیپزم اور بدعنوانی کا علاج نہیں ہے بلکہ دس سال قبل شروع ہونے والے سی پیک نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے۔ اکتوبر 2022 تک 6,370 میگاواٹ سے زیادہ کی مجموعی صلاحیت کے 11 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں تقریباً 1,200 میگاواٹ کی گنجائش والے مزید تین منصوبے-24 2023 کے اندر مکمل ہونے کی امید ہے اور ابھی حال ہی میں 1,320 میگاواٹ تھر کول بلاک ون نے کمرشل آپریشن شروع کیا ہے ۔ خیبرپختونخوا میں 884 میگاواٹ کے سکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ نے پہلے ہی 70 فیصد کام مکمل کر لیا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جس کی صلاحیت 1,124 میگاواٹ جبکہ 700.7 میگاواٹ کی صلاحیت والا آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور 50 میگاواٹ چیچوونڈ پاور پراجیکٹ بھی زیر عمل ہیں۔ ویسٹرن انرجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ ونڈ پاور پروجیکٹ ایک اور پراجیکٹ ہے جس کی صلاحیت 50 میگاواٹ ہے ۔ ان منصوبوں سے ملک کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو بڑھانے اور لوگوں کو صاف اور سستی توانائی فراہم کرنے میں مدد ملے گی، مکمل ہونے کے بعد یہ منصوبے قومی گرڈ میں بجلی کی ایک قابل ذکر مقدار شامل کریں گے جس سے درآمدی ایندھن پر ملک کا انحصار کم ہو جائے گا۔ سی پیک نے پاکستان کو اپنے ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ پشاور کراچی موٹروے (ملتان سکھر سیکشن)، ہکلہ ڈی آئی خان موٹروے اور لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین سی پیک کے تحت مکمل ہونے
والے بنیادی ڈھانچے کے ہی منصوبے ہیں۔ کے کے ایچ فیز II (حویلیاں تھاکوٹ سیکشن) بھی مکمل ہو چکا ہے، جسے بین الاقوامی سطح پر پزیرائی ملی ہے۔ حقیقت میں سی پیک پاکستان کے لیے ایک رحمت ثابت ہوگا نہ کہ زحمت۔ اس لیے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہم سب کو ایک ہونا پڑے گا۔ اسی میںاب ہماری بقا بھی ہے اور سلامتی بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔