... loading ...
نامور داغستانی ادیب رسول حمزہ توف بارِ دگر یاد آتے ہیں: اگر تم ماضی کو پستول کا نشانہ بناؤ گے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانہ بنائے گا”۔ ماضی دونوں کے تعاقب میں ہیں، یہ پستول سے نجات پانے کے آرزو مند ہیں !!مگر کہاں ، نجات کہاں؟ سچ مستقبل کی توپ بن کر سامنے آجاتا ہے۔ افسوس ان لوگوں کا تکیہ کن پر ہیں؟ چند صحافی، کچھ روٹھے روٹھے دوست! جنرل باجوہ کے بعد ثاقب نثار بھی تاریخ کے جبر تلے آ گئے۔ مگر ایک اور طبقہ بھی ہے، جن کا گزر بسر الفاظ کی خراچی اور دیانت کی قلاشی پر ہے۔ ادھورے الفاظ سے ماضی کو اپنے معانی پہناتے ہیں، اور حال کی بخیہ گری کو رفوگری باور کراتے ہیں۔ دو ایک جیسے واقعات کو الگ الگ دکھاتے ہیں۔ ایک انتخاب سے دو حکومتوں کے ” تجربے” میں ایک پر سپہ سالاران مہم جو اور منصفانِ مصلحت خو کی سرپرستی کی تہمت دھری ہے ۔ جبکہ دوسرے اور جاری ” تجربے” پر عزت کی ”استرکاری ” ہے۔ ایک صفحے کی گردان والے ایک تجربہ سے ”ہائبرد” یعنی دونسلے کی معنوی لذت کشید کی جاتی ہے مگر دوسرے تجربے کے باب میں ایک صفحے پر کثیر النسلی تیرہ جماعتی پچکاری کے ساتھ خاکی گچکاری کو جمہوریت کی رسید دی جاتی ہے۔ دونوں تجربے جادوئی چھڑی سے اچھالے گئے مگر ایک پر دل بیٹھا جاتا ہے اور دوسرے پر دل بلیوں اُچھلتا ہے۔ ایک المیہ ہے، دوسرا طربیہ۔ مصطفی زیدی کے ہاں شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ لُٹنے کا ماتم تھا ، مگر شہر نفاق میں متاعِ الفاظ لُٹانا کاروبارہے۔ خوب پھل پھول رہا ہے۔
عمران خان کوئی پہلا تجربہ تھا نہ آخری۔ پھر بھی عمران خان وہ نہیں تھا جسے جنرل جیلانی کی گود ملی ہو، جنرل ضیاء کی عمر کی دعا ملی ہو۔ جسے جنرل کیانی کی ماڈل ٹاؤن میں ملاقات اور اقتدار کی یقین دہانی ملی ہو۔ متاعِ الفاظ لُٹانا اگر کاروبار نہیں تو سچ پورا بولنا چاہئے۔ وہ کیا ماحول تھا، جب باری باری چنے جانے والے ساقی لالہ فاموں میں سے اچانک ایک کھردے کپتان کا انتخاب ہوا۔ وہ ماحول آج کی کتھا کہانیوں سے غائب کیوں ہے؟ نواز شریف پر الزامات کیا تھے؟ وہ نسیان کی نذر کیوں ہیں؟ کیا نوازشریف کو چلتا، عمران خان نے کیا تھا؟ کیا چیف جسٹس ثاقب نثار پر اثرانداز ہونے والے عمران خان تھے؟ اگر نہیں تو توپوں کا رخ ”توپ” کی جانب کیوں نہیں؟ کم ازکم الفاظ میں تو ایماندار رہنا چاہئے۔ عمران خان اُن حالات کا ذمہ دار تو ہر گز نہیں تھا، جن میں نوازشریف نکالے گئے۔ پھر اُن حالات کا مقدمہ اصغر خان کے مقدمے کی طرح کِرم خوردہ کیوں چھوڑ دیا گیا؟ چلیں پاناما لیکس الزام باری اور سزا غلط کاری تھی، ڈان لیکس تہمت کاری تھی۔ مگر کن معجز نما ہاتھوں نے یہ کرتب بازی کی تھی؟ وہ ”ہاتھ” کھیل سے ”غائب” کیوں؟ وہ ”غائب” اب معتوب نہیں ، کیوں؟
چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار کے الفاظ سے کیا کشیدا جا سکتا ہے؟ اگر کسی سابق چیف جسٹس کے الفاظ کسی کے لیے کوئی معنی رکھتے ہیں تو یہاں ایک چیف جسٹس سجاد علی شاہ بھی گزرے ہیں۔ اُن کے الفاظ جناب نواز شریف کے لیے جو تھے، ماند یادداشتوں میں تازہ کیجیے! وہ دن پاکستان کی تاریخ سے کیسے کھرچے جائیں گے جب سپریم کورٹ میں عدالت نمبر ایک کی تختی ایک نہیں دو کمروں میں لگی تھیں۔ جب ایک ہی عدالت میں ایک نہیں دو دو چیف جسٹسز جلوہ آرا تھے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی موجودگی میں سعید الزماں صدیقی بھی ”چیف جسٹس” کا چغہ اوڑھے اپنی دوائے دل کی دُکاں بڑھائے بیٹھے تھے۔ وہ دن بھی کیا دن تھے؟ عدالتوں پر حملے ہو جاتے تھے، مگر ایوان عدل کے تقدس کا وہ شور نہ اُٹھتا تھا جس کا اب غلغلہ ہے۔ خیر سے اُن ہی ماہ وایام میں جسٹس (ر) رفیق تارڑ بھی حرکت میں آئے تھے، کوئی جہاز کوئٹہ لے گئے تھے، جس میں ایسے بریف کیس بھی تھے، جو چند گھنٹوں کے سفر میں درکار سامان سے زیادہ بڑے اور گنتی میں بیش تھے۔ تب کسی کو یاد نہ تھا کہ عدلیہ کا تقدس کیا ہوتا ہے؟ من مرضی کے فیصلے پانے کی خواہش نے اُس ”عدلیہ ” کے پاس اپنی ”عزت” کے متعلق سوچنے کے لیے کچھ چھوڑا ہی نہیں جو ہمیشہ کسی نہ کسی کی مرہونِ منت رہی۔ اس عدلیہ سے کوئی ایک ثاقب نثار تو نہیں نکلا۔ متعدد رفیق تارڑ اور سعید الزماں صدیقی بھی نکلے ہیں۔ بھول گئے، بھول گئے، ایک جسٹس ملک قیوم بھی ہوتے تھے۔ ان کا شمار نوشیروانوں کی فہرست میں نہ ہوتا تھا، یہ وہی منصفانِ مصلحت خو تھے، جن کے اقدامات اور رویوں نے پاکستان کے ہمہ پہلو المیوں کو مسلسل جنم دیا۔ کوئی مذاق نہیں تھا، جب ان نگینوں کو نوازتے ہوئے کسی کے لیے ایوان صدر کھول دیا گیا اور کسی کو گورنر سندھ کے منصب پر بٹھا دیا گیا۔ جسٹس رفیق تارڑ کو صدر اور چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ کیوں بنایا گیا؟ درحقیقت انصاف کا خون کرنے والوں سے اپنی مرضی کے فیصلے پانے والوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم بے اجر کسی کو نہیں چھوڑتے!! ایوان صدر اور گورنر ہاؤس کو اپنی بخشش کا اشتہار بنانے والوں کی ذہنیت کیا ہوگی؟ یہ اندازا لگانا دشوار نہیں۔ ایک جسٹس ثاقب نثار کچھ بولے ہیں تو شور بپا ہے،مگر وہ سمعی فیتہ کسی کو یاد نہیں رہا، جس میں جسٹس ملک قیوم ، احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمان سے گفتگو کرتے ہوئے پائے گئے تھے، سزائیں کتنی ہونگیں، کیا کیا ہونگیں؟ کس کس کو ہونگیں؟ سب کا تب ”ججز” کو حکم دیا جاتا تھا۔ تب کسی عمران خان کا سیاست میں کوئی وجود بھی نہ تھا!! ہاں تب نثر میں موتی رولنے والوں کو منصفانِ مصلحت خو کی کوئی ترکیب نہ سوجھتی تھی ۔ تب بھی عدالتیں، فوجی و سول بیورو وکریسی، اشرافیہ اور مقتدرہ کے کھیل یوں ہی جاری رہتے تھے، مگر یہ کھیل چونکہ اپنے حق میں استواری کے لیے استعمال ہوتے، اس لیے نظام پر بے چہرگی کا طعنہ تھا اور نہ چہرے پر ماسک کی پھبتی تھی۔ وہ جرنیل اچھے تھے جو وزیراعظم کو کھانے کے بعد لسی پیتے ہوئے شادکام رکھتے تھے۔ مگر وہ نہیں جو مرسیڈیز کی چابی پکڑنے سے انکار کر دیتے تھے۔ ہاں وہ سازگار تھے جو مارکیٹ سے خریدے گئے پلاسٹک کے بیجز لگا کراپنے تئیں آرمی چیف بن جاتے تھے۔ اُن کی حرکتیں مہم جوئی میں نہیں آتیں مگر بادشاہ سلامت کی جبینوں پر شکنیں پید اکرنے والے ”سپہ سالاران مہم جو” کی پھبتی سنتے ہیں۔
تاریخ کے ساتھ کیا کیا تماشے جاری ہیں، وقت کے ساتھ یہ کیسا کھلواڑ ہے کہ اپنی مرضی کے کسی دور کو چن کر اُس پر انقلابی الفاظ کی چاند ماری شروع کر دیں۔ مگر کسی دور کو اُس کی پوری ترتیب میں دیکھنے سے انکار کر دیا جائے۔ حیرت ہے، حیرت ہے، تنقید کے نشتر برساتے ہوئے کوئی اس پر غور بھی نہیں کرتا کہ یہ کن کے لیے اور کیوں بولا جارہا ہے۔ ہر وہ عمل جو آج نواز لیگ کے طبلچیوں اور بغلچیوں کی تنقید کے زد پر ہے، ماضی میں خود اُن سے سرزد ہو چکا۔ آج جن انتخابات سے یہ گریزاں ہیں، ماضی میں وہ ایسے انتخابات میں بھاری مینڈیٹ پاتے رہے۔ آج کے عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتے ہوئے مارچ 2022 کے صدر مملکت عارف علوی کا عدالت عظمیٰ میں دائر کیا گیا ایک ریفرنس بھی تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے۔ پھر اسی بہاؤ میں نوے روز کے جائز آئینی مطالبے کے برحق فیصلے پر بھی الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ اپنی مرضی کے برخلاف عدالتی فیصلوں کو مصنوعی بحران کی زد میں لاتے ہوئے، تنازع میں دکھانا ہنر مند ہاتھوں کی خوب کاریگری ہے۔ مگر خواہشات کا کوئی حافظہ نہیں ہوتا۔ رہن ذہنوں کا منطق سے علاقہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کی موجودہ بے چہرگی میں صرف جسٹس منیر کا ”نظریہ ضرورت” نہیں ، بلکہ سیاست کا نظریہ ضرورت اور صحافت کا نظریہ دستر خوان بھی شامل ہے۔ اگر خواہشات کے غلبے سے ذہن کچھ آزاد ہو تو فروری 1997 کے عام انتخابات کو تھوڑی دیر کے لیے یاد کیجیے! یہ کیسے قبل از وقت ہوئے تھے؟ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کو 5 نومبر 1996 کو گھر بھیج دیا تھا۔ یہ فیصلہ تب کے اسپیکر یوسف رضا گیلانی نے عدالت میں چیلینج کیا تھا۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ایوان صدر نے اس سے قبل ”مدعو” کیا تھا، پھر فیصلہ بے نظیر کے خلاف اور نوازشریف کی خواہشات کے مطابق قبل از وقت انتخابات کا آیا۔ تب عدل کے ایوان عوام کے چوپال نہ بنے تھے۔ قبل ازوقت انتخابات کے خلاف کوئی خامہ فرسائی نہ ہوئی۔ یہ سب قومی مفادات کا آئینہ دار تھا۔ تب عدالتوں میں موجود جسٹس منیر کی روح پر کوئی اعتراض وارد نہ ہوا۔ کیونکہ یہ سیاست کے نظریہ ضرورت اور صحافت کے نظریہ دسترخوان پر پورا اُترتا تھا۔ یاد کر لیجیے، اسی فیصلے کے نتیجے میں فروری 1997ء کے وہ عام انتخابات ہوئے جس سے نوازشریف بھارتی مینڈیٹ کا وہ بھوت لے کر برآمد ہوئے جس نے آج تک پاکستانی سیاست کو جکڑے رکھا ہے۔ رہن ذہن کچھ وقت کے لیے رہائی پائیں تو یہ وہی پارلیمنٹ تھی جس میں بالترتیب تیرہویں اور چودہویں ترامیم منظور کی گئیں۔ نواز شریف نے تیرہویں ترمیم سے صدر کے ذریعے پارلیمنٹ کو ختم کرنے کا اختیار (58ٹو۔بی) چھینا اور چودھویں ترمیم کے ذریعے ارکان کی وفاداریوں کو خرید کر وزیر اعظم کو تبدیل کر نے کا اختیا ر بھی سلب کیا۔ اگر پنجاب اسمبلی کے متعلق صدر مملکت کے عدالت میں وفاداریاں بدلنے پر دائر کیے گئے ریفرنس پر اعتراض ہے اور پنجاب میں ہونے والی تبدیلی کے خلاف دل کا درد جاتا نہیں تو فروری کی قومی اسمبلی میں نوازشریف کی اس آئینی اچھل کود کو بھی کسی نظریہ دستر خوان سے کوئی سند عطا کیجیے۔ سیاسی نظریہ ٔ ضرورت کی کوئی تاویل دیجیے! تب تک ہم فروری 1997ء کی بھاری مینڈیٹ والی جماعت کے عوام سے بچنے اور انتخابات سے بھاگنے کی پینترے بازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور سیاست کی اس کسمپرسی کا مشاہدہ کرتے ہیں جس میں اب بھاری مینڈیٹ والے وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز اور جماعت نون لیگ کی ساری گزر بسر بس کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں اور کچھ ججوں کے پامال الفاظ پر ہے۔ سپہ سالارانِ مہم جو کو کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں، وہ کہاں بھاگے جا رہے ہیں۔
٭٭٭