وجود

... loading ...

وجود

اقتدار کی جنگ جاری رہے گی؟

جمعرات 09 مارچ 2023 اقتدار کی جنگ جاری رہے گی؟

راؤ محمد شاہد اقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین سماجیات ،سیاست کو Game of Possibles یعنی ممکنات کا کھیل بھی کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ سیاست کو ممکنات کا کھیل صرف اِس لیے کہا جاتاہے کہ جمہوری روایات کی امین اقوام سیاست کی بدولت ہی معاشرے کے بکھرے ہوئے تاروپود کویکجا کرتی ہیں اور پھر سیاسی روادار ی کوبروئے کار لا کر اپنے بڑے سے بڑے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسئلہ کی اُلجھی گتھی کو بہت آسانی کے ساتھ سلجھالیا کرتی ہیں ۔ مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک طویل عرصہ سے وطن عزیز پاکستان میں سیاسی جماعتیں نہ جانے کس ڈھب سے اور کون سی سیاست کا کھیل، کھیلنے میں مصروف ہیں کہ اِن سے تمام تر کوششوں کے باوجود کچھ بھی تو ٹھیک سے ممکن نہیں ہوپارہا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک کو معاشی ابتری ،سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کے نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک معاشی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،قانون نافذ کرنے والے ادارے شب و روز دہشت گردوں کی بہیمانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر مرے جارہے ہیں ۔ لیکن سیاسی قائدین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے ۔
بظاہر ایک بات پر سب کا کامل اتفاق ہے کہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا حل سیاسی استحکام میں پوشیدہ ہے ۔مگر سیاسی استحکام کے لیے جس قدر مناسب اور سازگار سیاسی ماحول کی ضرورت ہے ۔وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا مطمح نظر نہیں ہے۔ خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ انہوں نے تو کسی بھی صورت میں انتشار کی سیاست کو ترک نہیں کرنا ۔ یعنی ملک کے وسیع تر مفاد میں کوئی ایک بھی ایسا مرکزی نکتہ نہیں ہے ، جس پر گفت و شنید کے لیے عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہوں ۔ کیونکہ عمران خان کا ماننا ہے کہ اُ ن کے سوا ،ہر سیاسی جماعت کا رہنما چور اور ڈاکو ہے ۔لہٰذا، وہ کسی بھی چور اور ڈاکو کے ساتھ بھلا کیسے بات چیت کرسکتے ہیں ؟آج کی سیاست میں پارسائی کا جتنا بڑا دعوی عمران خان کو ہے ،شاید ہی انسانی تاریخ میں کوئی سیاسی رہنما پارسائی کا اتنا بڑا دعوے دار رہا ہو۔
خود فریبی اور خوش فہمی کی اِس خودساختہ دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے عمران خان باہر نکلیں تو انہیں اندازہ ہوکہ وطن عزیز پاکستان کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جاسکتاہے ؟سرِدست تو عمران خان کے نزدیک سب بڑا ملکی مسئلہ معاشی نہیں بلکہ ذاتی یعنی اُن کا دوبارہ، وزیراعظم پاکستان بننا ہے اور وہ مذکورہ مسئلہ کو جلد ازجلد حل کرنے کے لیے پوری تندہی کے ساتھ شبانہ روز احتجاجی اور تخریبی سیاست میں مصروف ہیں ۔مگر یہاں مصیبت یہ درپیش ہے کہ عمران خان کی نفرت اور انتشار پر مبنی سیاست صرف حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ خود اُن کے لیے بھی مستقل قانونی مسائل اور سیاسی پریشانیوں کاپیش خیمہ بنتی جارہی ہے ۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے افراد بھی اَب تو عمران خان کے طرز سیاست سے بہت زیادہ مایوس اور بیزار ہوتے جا رہے ہیں ۔ دراصل سوشل میڈیا پر ہر روز تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ہمدردوں کو یہ خوش کن خواب دکھایا جاتا ہے کہ ”سب بڑے بڑوں کے درمیان تمام معاملات طے پاگئے ہیں اور آج رات کو ہی حکومت کو گھر بھیج کر انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا”۔ لیکن جب صبح ہوتی ہے تو وہی شہباز شریف کی حکومت ہوتی ہے اور پی ٹی آئی کارکنان کو احتجاجی جلسے ، ریلی یا دھرنے کے لیے بنی گالا یا پھر زمان پارک پہنچنے کا پیغام آجاتاہے۔ گزشتہ گیارہ ماہ سے یہ ہی سب کچھ پوری یکسانیت کے ساتھ ہورہا ہے۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ عمران خان کی تخریبی سیاست کے بداثرات اَب تو حکمران اتحاد پر بھی پڑنا شرو ع ہوگئے ہیں اور کثیر الجماعتی اتحاد،المعروف پی ڈی ایم حکومتی اتحاد میں سیاسی اختلافات کی دراڑیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا ،اور ناقابل تردید ثبوت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وفاقی وزارتیں چھوڑنے کی دھمکی ہے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے رواں ہفتہ ، ڈیجیٹل مردم شماری پرتحفظات ظاہر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر غلط طریقے سے کسی کی”خاص ہدایات” پر ڈیجیٹل مردم شماری ہونی ہے تو پیپلز پارٹی اس کو قبول نہیں کرے گی اور اگر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے سندھ کے سیلاب متاثرین سے کیے گئے وعدے کے مطابق 4.7 بلین ادا نہیں کیے تو ہمارے لیے اپنی وزارتیں باقی رکھنا مشکل ہوجائے گا ”۔ جبکہ اِسی حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے بھی وزیر اعظم کو انتہائی سخت الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ ”ہماری جانب سے آخری بار یاددلایا جا رہا ہے کہ آپ پر ہماری تنظیم کا بھی کچھ قرض ہے لہٰذا کراچی آکر ہماری داد رسی کیجیے”۔بظاہر کہنے کو یہ دونوں بڑی جماعتیں حکمراں اتحاد کا حصہ ہیں لیکن مردم شماری، انتخابی حلقہ بندی اور انتخابی فہرستوں پر ان کے شدید باہمی اختلافات ہیں اور خاکم بدہن، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اِن مسئلوں کو سلجھاتے سلجھاتے ،خدانخواستہ اُلجھ کر اقتدار کی کرسی سے گر بھی سکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ قومی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ناگزیر ہے ۔لیکن یہ ایک ایسی مشکل بات ہے جسے ہم اپنے سیاسی اکابرین کو نہیں سمجھا سکتے ۔دراصل سیاسی اکابرین سیاسی استحکام کو اپنی سیاست کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاؤٹ خیال کرتے ہیں ۔ مثال کے طورپر اگر پی ڈی ایم اتحاد کی موجودہ حکومت قومی معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اِس کا سب سے زیادہ براہ راست نقصان پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کوہی پہنچے گا۔کیونکہ اگلے انتخابات میں عمران خان کی انتخابی کامیابی کا تمام تر دارمدار ہی حکومت کی بدترین ناکامی پر ہے۔اِس لیے خاطر جمع رکھیئے کہ ملکی سیاست کے حالات جس غلط سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ،بدستور ویسے ہی بڑھتے رہیں گے اور سیاسی خلفشار میں ہرگزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ بھی ہوتارہے گا۔کیونکہ عمران خان اقتدار کے لیے جنگ لڑرہے ہیں اور اِس جنگ میں وہ جیت یا پھر ہار تو سکتے ہیں لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی استحکام کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ۔

٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر