... loading ...
سیاسی زائچہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدرِ مملکت پاکستان ،جناب عارف علوی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دے دی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مذکورہ انتخابات میں لاہور سے حصہ لینے والے پی ٹی آئی اُمیدواروں کے نام فائل کرکے اپنے تئیں انتخابی مہم کا آغاز بھی کردیا ہے۔جبکہ عین ممکن ہے کہ اگلے دو،چار ،دنوں میں الیکشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیئے باضابطہ طور پر انتخابی شیڈول بھی جاری کردیا جائے ۔ لیکن یہ سب اقدمات ہونے کے بعد بھی یہ سوال بدستور اپنی جگہ قائم رہے گا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات صدر مملکت کی دی گئی مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے یا پھر کسی ناگزیر وجہ کے باعث عین آخری لمحات میں ملتوی ہوجائیں گے؟یہ تذبذب اور اندیشہ ہائے سود و زیاں اِس لیے جاں کا آزار بنا ہوا کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا ایک الگ بات ہے اور مقررہ تاریخ پر واقعی انتخابات کا انعقاد ہوجانا، بالکل ہی دوسری بات ہے۔ عموماً پاکستان میں دوسری قسم کی بات اکثر ناگفتہ ہی رہ جاتی ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک بھر میں انتخابات کروانے کا واحد ذمہ دار ،ریاستی ادارہ ضرور ہے لیکن انتخابات کروانے کے لیے جس قدر مالی وسائل اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے ۔اُس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہمیشہ ہی سے یکسر محروم اور بے آسرا رکھا گیا ہے۔ لہٰذا،زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں انتخابات کروانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تمام تر تیار ی اُس وقت تک قطعی بے معنی اور غیر مؤثر ہوگی ،جب تک حکومت وقت، انتخابات کروانے کے لیئے خلوص نیت کے ساتھ پوری طرح سے تیار نہ ہوجائے۔ فی الحال نظر بھی یہ ہی آرہا ہے کہ حکومتی اتحادی صرف دو ،صوبوں میں انتخابات کروانے کے لیئے کسی صورت میں بھی راضی نہیں ہیں۔ اَب یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آجانے اور صدرِ پاکستان کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیے جانے کے بعد بھی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت یہ قوت اور صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد میں اتنی بڑی تیکنیکی ، انتظامی یا پھر قانونی رکاؤٹ کھڑی کردے کہ انتخابات کچھ عرصہ کے لیئے سہی التوا کا شکار ہوجائیں ؟ اِس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کے پاس ایسے ایک نہیں بلکہ کئی آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں ،جن کا سہارا لے کر وہ بہت آسانی کے ساتھ اعلان کردہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو وقتی طور پر ملتوی کرواسکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی اتحاد ی مذکورہ انتخابات کو غیر معینہ مدت تک التوا میں ڈالنے کے لیے نہ صرف پوری طرح سے یکسو ہیں بلکہ وہ اپنے ہدف کے حصول کے لیے ہر آئینی ،قانونی اور انتظامی ہنر آزمانے کی حکمت عملی بھی طے کرچکے ہیں ۔ جس کا بخوبی ادراک پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں عمران خان اپنے ایک ویڈیو لنک خطاب میں التجائیہ انداز میں یہ تک کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’میں اَب سب سے بات کرنے ، سمجھوتا کرنے اور خود پر قاتلانہ حملہ میں ملوث افراد کو معاف کرنے پر بھی تیار ہوں ‘‘۔یقینا عمران خان کا یہ مفاہمانہ بیان حالیہ سیاسی منظرنامہ میں ایک بڑی پیش رفت ہے ۔کیونکہ اِس سے پہلے موصوف کو بات چیت کے لیے بھی صرف اپنی ٹکر کے لوگوں کی تلاش ہوتی تھی ۔ مگر جب ہر طرح کے احتجاجی گُر آزمانے اور اِدھر اُدھر ٹکریں مارنے کے بعد بھی ٹکر کے لوگ بات چیت کے لیئے سامنے نہیں آئے اور تو بالآخر تھکے ہارے ،مایوس عمران خان کو ہی کئی قدم پیچھے ہٹ کر سب کے ساتھ سمجھوتا کرنے کا پیغام ِ عام دینا پڑرہاہے۔
دراصل عمران خان جلد ازجلد ایک بار پھر سے وزیراعظم پاکستان بننا چاہتے ہیں اور وزیراعظم بننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد ہو۔لہٰذا ، عمران خان جیسے تیسے کرکے بھی حکومت سے قومی اسمبلی کے انتخابات کروانے کی کوئی ایک حتمی تاریخ لینا چاہتے ہیں اور سچ پوچھئے تو عمران خان کو پنجاب اور خیبر پختون خواہ اسمبلیوں کے انتخابات سے ذرہ برابر بھی دل چسپی نہیں ہے ۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی بار بار ملک بھر میں عام انتخابات کروانے کا ہی مطالبہ پر مطالبہ کیے جارہے ہیں ۔کیونکہ عمران خان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا نتیجہ اگر اُن کی جماعت کے حق میں بھی آجائے ،تب بھی وزیراعلیٰ تو عثمان بزدار یا پھر پرویز الٰہی میں سے ہی کسی ایک نے بننا ہے ۔جبکہ وہ زمان پارک سے بنی گالہ کے درمیان ہی احتجاجی جلسوں اور لانگ مارچوں میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں گے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگرپرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کی کرسی پر بیٹھا دیکھ کر ہی عمران خان کی آنکھیں اتنی ہی ٹھنڈی ہورہی ہوتیں تو وہ بھلا پنجاب اسمبلی توڑتے ہی کیوں ؟ عمران خان نے تو پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں فقط، توڑی ہی اس لیے تھیں کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت آئینی دباؤ میں آکر ملک بھر میں عام انتخابات کروانے پر مجبور ہوجائے گی ۔ اَب جب کہ حکومت نے عام انتخابات کروانے کے لیئے ہر قسم کے سیاسی، آئینی اور قانونی دباؤ کو مسترد کرنے کا واضح اور، واشگاف الفاظ میں عندیہ دے دیا ہے تو ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پاس بس! اَب ایک یہ ہی سیاسی راستہ باقی بچتا ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ اسمبلیوں کے انتخابات کے التوا کی قیمت پر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت سے مذاکرات کرکے قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے اِسی برس کی کوئی بھی قریبی تاریخ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ عمران خان کا اصل مطمح نظر وزیراعظم پاکستان بنناہے ناکہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانا ۔
٭٭٭٭٭٭٭