... loading ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عبد اللہ یوسف علی موجودہ دور کے مسلم ممالک کے علماء میں قرآن مجیدکے عالمانہ انگریزی ترجمہ اور اس کی دانشمندانہ تفسیر کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ عالم اسلام کے لاکھوں مسلمانوں نے ان کی انگریزی زبان پر غیر معمولی مہارت، مرقع و مسجع جملوں کی بناوٹ، سائنسی اور عقلی معیار پر پورا اترنے والے تجزیے، فکر و نظر کی وہ ہمہ جہت گہرائی جس کے ذریعہ مختلف بیانات کے درمیان تعلق کو اجاگر کرنا اور ان کی اعلیٰ درجہ کی ذہانت و فطانت کو بے اندازہ سراہا۔بہت سے غیر مسلموں نے ان کی دو ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر کو پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
عبد اللہ یوسف علی 4 اپریل، 1872ء کو سورت، میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پولیس انسپکٹر تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے بمبئی کے انجمن حمایت اسلام اسکول میں حاصل کی اور بعد میں مشنری، ولسن کالج سے بی اے کیا۔ اس دوران انہوں نے قران پاک حفظ کیا۔ عبداللہ یوسف علی نے 19 سال کی عمر میں ممبئی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں فرسٹ ڈویژن میں سند حاصل کی جس کے بعد وہ اسکالر شپ پر اعلی تعلیم کے لیے کیمبرج یونیورسٹی گئے۔ جہاں انہوں نے ایم اے اور ایل ایل ایم کی ڈگریاں سینٹ جانز کالج کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ 1906ء میں انہوں نے لنکنز ان سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور انڈین سول سروس کے امتحان میں ہندوستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
وہ مختلف انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی حمایت میں تقریر و تحریر کی صورت میں تعاون پر 1917ء میں سر کا خطاب ملا۔ہندوستان میں قیام کے دوران علامہ اقبال نے عبداللہ یوسف علی کو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ اس عہدہ پر وہ 1925ء سے 1927ء تک فائز رہے۔ 1928ء میں عبداللہ یوسف علی اس متنازع مسلم وفد میں شامل تھے جو سر آغا خان کی قیادت میں لیگ آف نیشنز گیا تھا۔ اس وفد میں سر ملک فیروز خان نون بھی شامل تھے۔ اس وفد کا مقصد، لیگ آف نیشنز میں اسرائیل کے قیام کے لیے قرارداد کی حمایت تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اس وفد کی سخت مخالفت کی تھی۔ عبد اللہ یوسف علی اس کے بعد 1935ء سے 1937ء تک اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل کی خدمات انجام دیتے رہے۔
علامہ عبد اللہ یوسف علی نہایت عمدہ علمی ذوق رکھتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ مکمل کیا اور اس کے عمدہ حواشی لکھے۔وہ لاہور سے نکلنے والے انگریزی روزنامہ ایسٹرن ٹائمز کے کچھ عرصہ مدیر بھی رہے۔انہوں نے 1900 میں بورنیموت کے سینٹ پیٹرس چرچ میں ٹریسا مریم شیلڈرز سے شادی کی، اور اس کے ساتھ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی: ان کی اہلیہ اور بچے ٹنبرج ویلز، سینٹ البانس اور نورویچ میں مختلف طور پر آباد ہوئے جبکہ علی ہندوستان میں اپنے عہدے پر واپس آ گئے۔ہندوستان اور برطانیہ کے مابین ان کے مستقل سفر نے ان کی شادی کو متاثر کیا اور ان کی اہلیہ ٹریسا مریم شیلڈرز ان کے ساتھ بے وفائی کی جو کہ 1912 میں اسے طلاق دینے کا سبب بنی۔ اور اپنے چار بچوں کی تحویل حاصل کرنا، جنہیں وہ انگلینڈ میں گورننس کے ساتھ چھوڑ گئے تھے۔تاہم، ان کے بچوں نے انہیں مسترد کردیا اور 1920 اور 1930 کی دہائی کے دوران لندن کے مستقبل کے دوروں پر وہ نیشنل لبرل کلب میں رہے۔ 1914 میں علی نے آئی سی ایس سے استعفیٰ دے دیا اور برطانیہ میں سکونت اختیار کی جہاں وہ ووکنگ میں شاہ جہاں مسجد کے ٹرسٹی بن گئے اور 1921 میں مشرقی لندن مسجد کی تعمیر کے لئے فنڈ کے ٹرسٹی بن گئے۔ انہوںنے 1920 میں گیرٹروڈ این ماؤبی سے شادی کی تھی، اور اس نے مسلمان نام معصومہ لے کر علی کے ساتھ ہندوستان واپس آنا مناسب سمجھا کیونکہ علی کے بچوں نے ان کو اور ان کی دوسری اہلیہ کو قبول نہیں کیا تھا۔ماؤبی کے ساتھ ان کا ایک بیٹا تھا، راشد جس کی (پیدائش 1922 میں ہوئی، لیکن یہ شادی بھی ناکامی پر ختم ہوگئی۔
علامہ عبداللہ یوسف علی نے ”مسلم ایجوکیشنل آیڈیلز”، ”فنڈامنٹلزآف اسلام”، ”مورل ایجوکیشن ؛ ایمز اینڈ میتھڈز”، ”پرسنیلٹی آف مین ان اسلام” اور ”میسیج آف اسلام” کی تصنیفات کے عالم اسلام کو تحائف دیے۔ لیکن سب سے اہم اور شہرہ آفاق کارنامہ ان کا، قران پاک کا انگریزی میں ترجمہ اور تفسیر ہے جو 1934 میں شائع ہوئی۔
انہوں نے قرآن مجید کا جو ترجمہ کیا ہے وہ انگریزی زبان میں سب سے بہترین اور عمدہ ترجمہ ہے۔ ان کا ترجمہ پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ انگریزی زبان میں کی گئی شاعری ہے۔ اس میں عمدہ انگریزی استعمال کی گئی ہے ۔ ان کی انگریزی بہت معیاری ہے۔ اگرچہ یہ انگریزوں کی مادری زبان ہے مگر وہاں بھی شیکسپیئر کے علاوہ انگریزی زبان و ادب کا کوئی ایساا سکالر پیدا نہیں ہوا ۔
علامہ عبداللہ یوسف علی نے لاہورمیں قیام کے دوران یہ ترجمہ مکمل کیا تھا۔ سب سے پہلے یہ ترجمہ شیخ محمد اشرف نے دو جلدوں میں شائع کیا۔ اس کی طباعت اتنی اچھی نہیں تھی۔ علامہ نے بھی ان کی طباعت کو پسند نہ کیا۔ بعد ازاں علامہ انگلینڈ چلے گئے۔ ترجمے کا ترمیم شدہ ایڈیشن 1939-40 میں شائع ہوا۔
1947 میںعلامہ ان بہت سے ہندوستانیوں میں شامل تھے جو سیاسی عہدوں پر فائز ہونے کے لئے آزادی کے بعد ہندوستان واپس آئے تھے۔ تاہم، ان کے لیے یہ اقدام کامیاب نہیں ہوا اور وہ لندن واپس آگئے جہاں وہ اپنے گھر والوں اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ دونوں کی طرف سے نظرانداز کیے گئے۔ تنہائی میں رہتے ہوئے، ذہن اور جسم، تیزی سے کمزور ہو گئے۔ کسی مقررہ رہائش گاہ میں سے، علی نے اپنی زندگی کی آخری دہائی کا بیشتر حصہ یا تو نیشنل لبرل کلب میں، رائل دولت مشترکہ سوسائٹی میں گزارا یا لندن کی سڑکوں پر گھوم کر اور اتنے عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود غربت میں گزارا۔
9 دسمبر 1953 کوعبداللہ یوسف علی کو پولیس نے ویسٹ منسٹر کے ایک دروازے میں بے سہارا اور پریشان کن حالت میں پایا جو انہیں ویسٹ منسٹر ہسپتال لے گئے۔ اگلے دن انھیں فارغ کردیا گیا اور چیلسی کے ڈو ہاؤس اسٹریٹ میں بزرگوں کے لئے لندن کاؤنٹی کونسل کے گھرمیں بھیج دیا گیا۔ یہاں انہیں 10 دسمبر 1953 کو دل کا دورہ پڑا اور اسے فولہم کے سینٹ اسٹیفن اسپتال پہنچایا گیا جہاں اسی دن وہ تنہا انتقال کر گئے۔کسی بھی رشتہ دار نے میت کا دعوی نہیں کیا۔ پولیس نے جب پاکستان ہائی کمیشن سے شناخت کے لیے استفسار کیا تو انکشاف ہوا کہ یہ مفلس، ممتاز مسلم دانشور، مشہور تاریخ دان، ماہر تعلیم او ر قران پاک کے انگریزی مترجم اور مفسر، عبداللہ یوسف علی تھے۔
ازدواجی زندگی کے مصائب کے ستائے ہوئے، عبداللہ یوسف علی، ایک طرف اپنے بیوی بچوں کے اذیت ناک رویہ کا شکار تھے، دوسری جانب برطانوی حکومت نے بھی اپنے اس محسن سے جو ظالمانہ بے رخی برتی، اس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے۔ برطانوی حکومت ساری عمر انہیں اعزازات اور انعامات سے نوازتی رہی لیکن جب یہ لند ن کی سڑکوں پر مفلس کی طرح بے یار و مدد گار پھر تے تھے تو انہیں یوں نظر انداز کردیا کہ اب ان کی افادیت باقی نہیں رہی۔
٭٭٭