... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت غیرقانونی طورپراپنے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں طلبا ء کو تعلیم کے حق سے محروم کررہا ہے۔ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 7 دہائیوں سے زائد عرصے تک بھارت کے زیر قبضہ جموںوکشمیر میںنظام تعلیم مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔5 اگست 2019 کوبھارت کی طرف سے مسلط کردہ غیر انسانی فوجی محاصرے سے تعلیمی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پہلے اسکول غیر معمولی فوجی محاصرے کی وجہ سے کئی مہینوں تک بند رہے اور پھر والدین اپنے بچوں کو اس خوف سے کہ بھارتی فورسز انہیں اٹھاکر نہ لے جائیں، اسکول بھیجنے سے کتراتے رہے جس سے مقبوضہ علاقے کے طلبہ کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔ جب کشمیری طلبا روزانہ کی بنیاد پربھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے پیاروںکو قتل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں تو وہ تعلیم پر کس طرح توجہ دے سکتے ہیں۔ علاقے میں بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے طلباء کو نفسیاتی طور پر متاثر کیاہے جبکہ متعدد طلباء بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوںکے دوران شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔
بھارتی یونیورسٹیز کشمیری طلباء کیلئے جہنم بن گئیں۔ ہریانہ یونیورسٹی کے بعد راجستھان یونیورسٹی میں کشمیری طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طالب علموں پر بھارتی انتہا پسند ہندوؤں نے حملہ کر کے تشدد کیا۔ اس واقعہ کے بعد دیگر کشمیری طلبہ نے جمع ہو کر احتجاج کیا۔ واقعہ میں 8 کشمیری طالب علم زخمی ہوئے۔ بھارتی جامعات میں رواں ہفتے میں کشمیری طالب علموں پر تشدد کا یہ دوسرا واقعہ ہے اس سے قبل ہریانہ یونیورسٹی میں کشمیری طالب علم کو زدوکوب کیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر وزیر چندراپرکاش گنگا نے ہرزہ سرائی کی ہے کہ کشمیری نوجوانوں کے ساتھ صرف گولیوں سے ہی نمٹنا چاہیے۔ کشمیری نوجوان غدار ہیں اور ان کا صرف گولیوں سے ہی علاج ممکن ہے۔ کشمیری طلبہ بھی امن سے تعلیم حاصل کریں ورنہ ان کے ساتھ بھی برا سلوک کیا جائے گا۔ کشمیری قیادت نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طلباء قوم کا مستقبل ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ضمنی انتخابی ڈرامے میں کشمیری عوام کے ردعمل نے بھارتی حکمرانوں اور کٹھ پتلی انتظامیہ پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء پر تشدد اور مارپیٹ اسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔
بھارتی سرکاری تعلیمی اداروں نے کشمیری طلبا کو داخلے دینے پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی ۔ کشمیری طلبا کے لیے مختص کوٹہ پر بھی داخلے نہیں دیے جا رہے ہیں۔ بھارتی وزیر تعلیم نے اعتراف کیا ہے کہ جموں وکشمیر کے طالبعلموں کوداخلہ نہ دیے جانے بارے 20 شکایتیں وصول ہوئی ہیں۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے فاضل کوٹہ کے تحت ملک کے تسلیم شدہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جموں وکشمیر کے طالبعلموں کے داخلے سے متعلق یونیورسٹی گرانٹس کمشن (یو جی سی)اسکیم کی موثر عمل آوری کے لیے ترقی انسانی وسائل کی بھارتی وزیر سے مداخلت کا مطالبہ کیا۔ مائیگریٹ کوٹہ کے علاوہ یونیورسٹی گرانٹس کمشن کے رہنما خطوط کے مطابق ملک کی تسلیم شدہ یونیورسٹیوں کو عمومی زمرے میں جموں و کشمیر کے طالبعلموں کو دو فاضل نشستوں پر داخلہ دینا ہے۔کچھ اطلاعات کے مطابق بیشتر یونیورسٹیوں نے جموں و کشمیر کے طالبعلموں کو اس کوٹہ کے تحت داخلہ دینے سے انکار کیا ہے۔اس سے قبل ترقی انسانی وسائل کی وزیر نے محبوبہ مفتی کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کے تحریری جواب میں بتایا کہ اس قسم کی شکایتیں ملنے کے بعد یونیورسٹیوں کو تازہ ہدایات جاری کی گئی ہیںتاکہ جموں وکشمیر کے مستحق طالب علموں کو فاضل کوٹا کے تحت داخلے دیے جاسکیں۔
کچھ عرصہ قبل اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیرتعلیم مقبوضہ کشمیر کے طلبہ کو پاکستان مخالف نعرے نہ لگانے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعہ پر تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم سینکڑوں کشمیریوں نے احتجاج کرتے ہوئے بتایا کشمیری طلبہ ہوسٹل میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھے۔ دوسری یونیورسٹیوں کے 5 ہندو طلبہ آئے اور ایک کمرے میں زبردستی داخل ہو گئے، وہ نشے کی حالت میں تھے۔ انہوں نے کشمیریوں سے بھارت ماتا کی جے اور ہندوستان زندہ باد کہنے کو کہا۔ پھر انہوں نے ہم سے پاکستان مخالف نعرے لگانے کو کہا۔ اس پر کچھ کشمیریوں نے اعتراض کیا تو وہ کشمیری طلبہ پر ٹوٹ پڑے۔ جب وارڈن سے شکایت کی گئی تو جواب ملا کہ تم کشمیری ہو، تم ہی شرارت کرتے ہو۔ کشمیریوں کو بھارتی وطن پرستی کا سبق تشدد کے ذریعے پڑھانے والے یہ نہیں جانتے کہ ایسی حرکتوں سے بھارت اور کشمیر کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
ادھر متاثرہ طلبہ کا کہنا تھا کہ ہم کسی صورت میں بھی پاکستان مخالف نعرے نہیں لگائیں گے۔ پاکستان ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے، اگر بھارتی حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں سے پاکستان کی محبت ہمارے دلوں سے نکال دیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 100سے زائد کشمیری طلبہ کو دوسرے ہاسٹل منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر پولیس، یونیورسٹی اور ہاسٹل انتظامیہ کھڑی تماشہ دیکھتی رہی اور ہندو انتہا پسندوں کو نہیں روکا۔اسی طرح کچھ عرصہ قبل بھارتی ریاست اتر پردیش کے مغربی شہر میرٹھ میں واقع ایک نجی یونیورسٹی سوامی وویک آنند سبھارتی یونیورسٹی کے 67 طلبہ کو ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں بھارت اور پاکستان کے میچ کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کی جیت کا جشن منانے، پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے، دیگر طلبہ سے بحث کرنے اور ہاسٹل کی املاک کو نقصان پہنچانے پر بغاوت کا مقدمہ درج کرتے ہوئے انہیں یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا۔
٭٭٭