... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
__________
عمران خان کی کال پر اپنی مرضی اور رضا مندی سے جیل بھرو تحریک میں گرفتاری دینے والے تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما شاہ محمود قریشی کے صاحب زادے زین قریشی نے اپنے والد کی ”رضاکارانہ گرفتاری ” سے”ضمانتی رہائی” کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے روبرو پیش ہوکر کہا کہ ”پولیس نے مجھے گرفتار نہیں کیا لیکن میرے والد کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اَب پولیس والے مجھے اپنے والد سے ملاقات نہیں کرنے دے رہے ہیں’ ‘۔ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کے موقف پر معزز جسٹس شہرام نے کہا کہ” جہاں دفعہ 144 نافذہے وہاں چلے جائیں، پولیس والے آپ کو پکڑ کر لے جائیں گے اوریوں آپ کی اپنے والد سے ملاقات بھی ہوجائے گی”۔معزز جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت فلک شگاف قہقہوں سے گونج اُٹھا ۔ یاد رہے دنیا بھر میں کمرہ عدالت کو سب سے زیادہ سنجیدہ جگہ اور مقام تصور کیا جاتاہے اور کمرہ عدالت میں ہونے والی کارروائی کو زیادہ تر سنجیدگی کے ساتھ ہی آگے بڑھایا جایا کرتاہے ۔لیکن اگر کمرہ عدالت میں بھی جیل بھرو تحریک پر قہقہے لگائے جارہے ہیں تو اِس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ملک کے گلی کوچوں میں عام لوگ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کی کس کس طرح سے بھد اُڑارہے ہوں گے۔
سوشل میڈیا جس پر کل تک عمران خان کے سیاسی مخالفین طعن و تشنیع، طنز و مزاح اور ٹھٹھے کا نشانہ بنا کرتے تھے ،آج وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی تمام اعلیٰ قیادت بشمول عمران خان اور اُن کی جیل بھرو تحریک کا سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جی بھر کر مذاق اُڑایا جارہاہے۔ بلاشبہ اِس وقت ٹوئٹر پر جیل بھرو تحریک کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ ضرور کر رہا ہے ۔مگر اِس ٹرینڈ کی ذیل میں صرف جیل بھرو تحریک کی مزاحیہ میمز ، طنزیہ پوسٹوں اورپولیس وین سے فرار ہونے والی پی ٹی آئی قیادت کی ویڈیوز ہی موجود ہیں ۔جنہیں ملاحظہ کر کے دیکھنے والے کا بس! عمران خان کی سیاسی بصیرت کا شاہکار جیل بھرو تحریک پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے کا دل کرتاہے۔ معلوم نہیں عمران خان کو جیل بھرو تحریک کا آئیڈیا کس نے دیا تھا؟۔لیکن جس طرح سے جیل بھرو تحریک تاریخی بدترین ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ،اُسے دیکھ کر تو صاف لگتاہے کہ جیل بھروتحریک، سراسر عمران خان کے اپنے ذہن رَسا کا نتیجہ ہے۔ ویسے تو پاکستانی سیاست میں کم وبیش تمام سیاست دان ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان شاید، وہ واحد سیاست دان نے جنہوں اپنے پاؤ ں پرکلہاڑی کے بجائے ہمیشہ کلہاڑا ہی چلایا ہے اور اِس بار تو انہوں نے جیل بھرو تحریک کی صورت میں اپنے سیاسی مستقبل پر آرا چلادیا ہے ۔
واضح رہے کہ جیل بھرو تحریک بنیادی طور پر سیاسی احتجاج کا ایک طریقہ ہے جس میں سیاسی کارکنان اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے رضاکارانہ طور پرحکومت کو گرفتاری دیتے ہیں۔بظاہر اس کا سب سے بڑا سیاسی مقصد یہ ہوتا ہے کہ بیک وقت اتنی بڑی تعداد میں سیاسی کارکنان کو جیلوں میں جمع کردیا جائے کہ ریاست کے لیے ان کا انتظام سنبھالنا مشکل ہو جائے اور ریاست انتظامی طور پر مکمل طور پر مفلوج ہوجائے ۔ لیکن جیل بھرو تحریک کی تاریخ یہ ہی بتاتی ہے کہ ماضی میں کہیں بھی کبھی عملی طور پر جیلیں بھرنے کی کوئی کوشش اتنی کامیاب نہیں ہوسکی ہے کہ جس کے نتیجے میں پوری حکومت ہی مفلوج ہوگئی ہو۔چونکہ جیل بھرو تحریک سے بہت زیادہ سیاسی فوائد کے بجائے اُلٹا سیاسی جماعتوں کو سنگین نوعیت کے سیاسی نقصانات ہی ہوتے ہیں ۔لہٰذا، کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں جیل بھرو تحریک کے بڑے مظاہرے دیکھنے میں نہیں آرہے تھے ۔
پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کی عبرت ناک ناکامی کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کا گرفتاری نہ دینا ہے ۔وگرنہ دنیا کی تاریخ میں جتنی بھی قابل ذکر جیل بھرو تحریکیں گزری ہیں ،اُن کا آغاز ہی اعلیٰ ترین قیادت کی گرفتاری سے ہوا کرتاتھا ۔ مگر یہاں تو عمران خان لاہور ہائی کورٹ سے اپنی عبوری حفاظتی ضمانت کروا کر زمان پارک لاہور میں بیٹھ کر اپنی آن لائن تقریروں میں کارکنان کو جیل جانے کا سیاسی درس دے رہے ہیں اور تحریک انصاف کے کارکنان بھی پورے ڈیڑھ ہوشیار ہیں کہ قیدیوں کی وین کے سامنے سیلفیاں اور تصویریں کھنچوا نے کو ہی جیل بھرو تحریک میں اپنی بھرپور شمولیت قرار دے رہے ہیں ۔ اِسے کہتے ہیں جیسی روح ،ویسے فرشتے ۔ یعنی اگر تحریک انصاف کے قائد عمران خان جیل بھرو تحریک کا آن لائن حصہ بننے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں تو وہیں کارکنان بھی جیل بھرو تحریک میں ڈیجیٹل شمولیت سے ذرا سا بھی آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ۔
مگر مصیبت یہ ہے کہ عمران خان اور اُن کے کارکنان جیل بھرو تحریک کو بھلے ہی ایک سنجیدہ سیاسی سرگرمی سمجھنے کے بجائے ایک ہنسی مذاق سمجھ رہے ہوں لیکن اُن کی حریف حکومت جیل بھروتحریک کو لے کر پوری طرح سے سنجیدہ اور یکسو ہے ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے جتنے بھی گنتی کے رہنماؤں اور کارکنان نے اَب تک اپنی رضاکارانہ گرفتاریاں دی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے اُن کے ساتھ بھرپور قانونی انداز میں نمٹا جارہاہے اورسرِ دست دکھائی یہ ہی دے رہا ہے ایک طویل عرصے تک گرفتار شدگان کو جیلوں میں رکھا جائے گا۔ حکومت کا جارحانہ رویہ دیکھ کر جیل بھرو تحریک کی سیاسی صحت پر اتنا بُرا اثر پڑاہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ جہاں تحریک انصاف گزشتہ تقریباً 12 برس سے حکم ران جماعت تھی ، وہاں سے اتنی رضاکارانہ گرفتاریاں بھی ممکن نہ ہوں سکیں ،جتنی کہ جیل بھرو تحریک کے پہلے دن لاہور میں ہو گئی تھیں ۔ حالانکہ سیاسی تجزیہ کاروں کو توقع تھی کم ازکم تحریک انصاف پشاور کی جیلیں تو بھرنے میں کامیاب ہوہی جائے گی۔ مگر افسوس جیل بھرو تحریک کے معاملے میں خیبر پختون خواہ کی کارکردگی سخت مایوس کن رہی ہے ۔
بظاہر ہونا تو یہ چاہیے کہ عمران خان اپنی سیاسی حکمت عملی کے ناکام ہوجانے کے بعد فوری طور پر یوٹرن لیتے ہوئے جیل بھرو تحریک کے خاتمہ بالخیر کا اعلان فرمادیں تاکہ جن شہروں میں ابھی تک جیل بھرو تحریک کا آغاز نہیں ہوا ہے کم ازکم وہاں کے کارکنان سُکھ کا سانس لیں سکیں۔ مگر عمران خان کے سیاسی عزائم بہت بلند ہیں اور لگ یہ ہی رہا ہے کہ وہ ملک بھر کے تمام اضلاع میں اپنے کارکنان کو جیل بھرو تحریک کے ذریعے جیلوں تک پہنچا کر ہی دَم لیں گے اور جب اُن کے سب مخلص کارکنان جیلوں میں دھر لیے جائیں گے تو پھر آخری آسان گرفتاری عمران خان کی ہی ہوگی ۔عین ممکن ہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہی اِس لیے کیا ہو کہ حکومت کو اُنہیں گرفتار کرنے میں آسانی اور سہولت میسر آسکے۔
٭٭٭