وجود

... loading ...

وجود

جیل بھرو تحریک سے ضمانت کراؤ تحریک تک

پیر 27 فروری 2023 جیل بھرو تحریک سے ضمانت کراؤ تحریک تک

راؤ محمد شاہد اقبال
__________

عمران خان کی کال پر اپنی مرضی اور رضا مندی سے جیل بھرو تحریک میں گرفتاری دینے والے تحریک انصاف کے اہم ترین رہنما شاہ محمود قریشی کے صاحب زادے زین قریشی نے اپنے والد کی ”رضاکارانہ گرفتاری ” سے”ضمانتی رہائی” کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے روبرو پیش ہوکر کہا کہ ”پولیس نے مجھے گرفتار نہیں کیا لیکن میرے والد کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور اَب پولیس والے مجھے اپنے والد سے ملاقات نہیں کرنے دے رہے ہیں’ ‘۔ شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی کے موقف پر معزز جسٹس شہرام نے کہا کہ” جہاں دفعہ 144 نافذہے وہاں چلے جائیں، پولیس والے آپ کو پکڑ کر لے جائیں گے اوریوں آپ کی اپنے والد سے ملاقات بھی ہوجائے گی”۔معزز جج کے ریمارکس پر کمرہ عدالت فلک شگاف قہقہوں سے گونج اُٹھا ۔ یاد رہے دنیا بھر میں کمرہ عدالت کو سب سے زیادہ سنجیدہ جگہ اور مقام تصور کیا جاتاہے اور کمرہ عدالت میں ہونے والی کارروائی کو زیادہ تر سنجیدگی کے ساتھ ہی آگے بڑھایا جایا کرتاہے ۔لیکن اگر کمرہ عدالت میں بھی جیل بھرو تحریک پر قہقہے لگائے جارہے ہیں تو اِس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ملک کے گلی کوچوں میں عام لوگ عمران خان کی جیل بھرو تحریک کی کس کس طرح سے بھد اُڑارہے ہوں گے۔
سوشل میڈیا جس پر کل تک عمران خان کے سیاسی مخالفین طعن و تشنیع، طنز و مزاح اور ٹھٹھے کا نشانہ بنا کرتے تھے ،آج وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کی تمام اعلیٰ قیادت بشمول عمران خان اور اُن کی جیل بھرو تحریک کا سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جی بھر کر مذاق اُڑایا جارہاہے۔ بلاشبہ اِس وقت ٹوئٹر پر جیل بھرو تحریک کا ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ ضرور کر رہا ہے ۔مگر اِس ٹرینڈ کی ذیل میں صرف جیل بھرو تحریک کی مزاحیہ میمز ، طنزیہ پوسٹوں اورپولیس وین سے فرار ہونے والی پی ٹی آئی قیادت کی ویڈیوز ہی موجود ہیں ۔جنہیں ملاحظہ کر کے دیکھنے والے کا بس! عمران خان کی سیاسی بصیرت کا شاہکار جیل بھرو تحریک پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے کا دل کرتاہے۔ معلوم نہیں عمران خان کو جیل بھرو تحریک کا آئیڈیا کس نے دیا تھا؟۔لیکن جس طرح سے جیل بھرو تحریک تاریخی بدترین ناکامی سے دوچار ہوئی ہے ،اُسے دیکھ کر تو صاف لگتاہے کہ جیل بھروتحریک، سراسر عمران خان کے اپنے ذہن رَسا کا نتیجہ ہے۔ ویسے تو پاکستانی سیاست میں کم وبیش تمام سیاست دان ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان شاید، وہ واحد سیاست دان نے جنہوں اپنے پاؤ ں پرکلہاڑی کے بجائے ہمیشہ کلہاڑا ہی چلایا ہے اور اِس بار تو انہوں نے جیل بھرو تحریک کی صورت میں اپنے سیاسی مستقبل پر آرا چلادیا ہے ۔
واضح رہے کہ جیل بھرو تحریک بنیادی طور پر سیاسی احتجاج کا ایک طریقہ ہے جس میں سیاسی کارکنان اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے رضاکارانہ طور پرحکومت کو گرفتاری دیتے ہیں۔بظاہر اس کا سب سے بڑا سیاسی مقصد یہ ہوتا ہے کہ بیک وقت اتنی بڑی تعداد میں سیاسی کارکنان کو جیلوں میں جمع کردیا جائے کہ ریاست کے لیے ان کا انتظام سنبھالنا مشکل ہو جائے اور ریاست انتظامی طور پر مکمل طور پر مفلوج ہوجائے ۔ لیکن جیل بھرو تحریک کی تاریخ یہ ہی بتاتی ہے کہ ماضی میں کہیں بھی کبھی عملی طور پر جیلیں بھرنے کی کوئی کوشش اتنی کامیاب نہیں ہوسکی ہے کہ جس کے نتیجے میں پوری حکومت ہی مفلوج ہوگئی ہو۔چونکہ جیل بھرو تحریک سے بہت زیادہ سیاسی فوائد کے بجائے اُلٹا سیاسی جماعتوں کو سنگین نوعیت کے سیاسی نقصانات ہی ہوتے ہیں ۔لہٰذا، کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں جیل بھرو تحریک کے بڑے مظاہرے دیکھنے میں نہیں آرہے تھے ۔
پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کی عبرت ناک ناکامی کی سب سے بڑی وجہ عمران خان کا گرفتاری نہ دینا ہے ۔وگرنہ دنیا کی تاریخ میں جتنی بھی قابل ذکر جیل بھرو تحریکیں گزری ہیں ،اُن کا آغاز ہی اعلیٰ ترین قیادت کی گرفتاری سے ہوا کرتاتھا ۔ مگر یہاں تو عمران خان لاہور ہائی کورٹ سے اپنی عبوری حفاظتی ضمانت کروا کر زمان پارک لاہور میں بیٹھ کر اپنی آن لائن تقریروں میں کارکنان کو جیل جانے کا سیاسی درس دے رہے ہیں اور تحریک انصاف کے کارکنان بھی پورے ڈیڑھ ہوشیار ہیں کہ قیدیوں کی وین کے سامنے سیلفیاں اور تصویریں کھنچوا نے کو ہی جیل بھرو تحریک میں اپنی بھرپور شمولیت قرار دے رہے ہیں ۔ اِسے کہتے ہیں جیسی روح ،ویسے فرشتے ۔ یعنی اگر تحریک انصاف کے قائد عمران خان جیل بھرو تحریک کا آن لائن حصہ بننے پر اکتفا کیے ہوئے ہیں تو وہیں کارکنان بھی جیل بھرو تحریک میں ڈیجیٹل شمولیت سے ذرا سا بھی آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ۔
مگر مصیبت یہ ہے کہ عمران خان اور اُن کے کارکنان جیل بھرو تحریک کو بھلے ہی ایک سنجیدہ سیاسی سرگرمی سمجھنے کے بجائے ایک ہنسی مذاق سمجھ رہے ہوں لیکن اُن کی حریف حکومت جیل بھروتحریک کو لے کر پوری طرح سے سنجیدہ اور یکسو ہے ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے جتنے بھی گنتی کے رہنماؤں اور کارکنان نے اَب تک اپنی رضاکارانہ گرفتاریاں دی ہیں ۔ حکومت کی جانب سے اُن کے ساتھ بھرپور قانونی انداز میں نمٹا جارہاہے اورسرِ دست دکھائی یہ ہی دے رہا ہے ایک طویل عرصے تک گرفتار شدگان کو جیلوں میں رکھا جائے گا۔ حکومت کا جارحانہ رویہ دیکھ کر جیل بھرو تحریک کی سیاسی صحت پر اتنا بُرا اثر پڑاہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ جہاں تحریک انصاف گزشتہ تقریباً 12 برس سے حکم ران جماعت تھی ، وہاں سے اتنی رضاکارانہ گرفتاریاں بھی ممکن نہ ہوں سکیں ،جتنی کہ جیل بھرو تحریک کے پہلے دن لاہور میں ہو گئی تھیں ۔ حالانکہ سیاسی تجزیہ کاروں کو توقع تھی کم ازکم تحریک انصاف پشاور کی جیلیں تو بھرنے میں کامیاب ہوہی جائے گی۔ مگر افسوس جیل بھرو تحریک کے معاملے میں خیبر پختون خواہ کی کارکردگی سخت مایوس کن رہی ہے ۔
بظاہر ہونا تو یہ چاہیے کہ عمران خان اپنی سیاسی حکمت عملی کے ناکام ہوجانے کے بعد فوری طور پر یوٹرن لیتے ہوئے جیل بھرو تحریک کے خاتمہ بالخیر کا اعلان فرمادیں تاکہ جن شہروں میں ابھی تک جیل بھرو تحریک کا آغاز نہیں ہوا ہے کم ازکم وہاں کے کارکنان سُکھ کا سانس لیں سکیں۔ مگر عمران خان کے سیاسی عزائم بہت بلند ہیں اور لگ یہ ہی رہا ہے کہ وہ ملک بھر کے تمام اضلاع میں اپنے کارکنان کو جیل بھرو تحریک کے ذریعے جیلوں تک پہنچا کر ہی دَم لیں گے اور جب اُن کے سب مخلص کارکنان جیلوں میں دھر لیے جائیں گے تو پھر آخری آسان گرفتاری عمران خان کی ہی ہوگی ۔عین ممکن ہے کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہی اِس لیے کیا ہو کہ حکومت کو اُنہیں گرفتار کرنے میں آسانی اور سہولت میسر آسکے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر