... loading ...
روہیل اکبر
__________
لاہور میں الاحسان ویلفیئر ٹرسٹ نے آنکھوں کے حوالے سے انمول کام کیا ہوا ہے جہاں غریب ،نادار اور کمزور افراد کا مفت آپریشن ہوتا ہے اور انہیں آنکھوں کی بیماریوں سے نجات دلائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز لاہور کے مقامی ہوٹل میں اس پراجیکٹ کے روح رواں جناب ثناء اللہ خان کاکڑ نے ایک چیرٹی ڈنر کا اہتمام کیا تو بہت سے مخیر حضرات نے دل کھول کر اس نیک کام میںانکی مدد کی۔ پاکستان میںایسی شخصیات ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں جو اپنا پیسہ اور وقت غریب لوگوں کی خدمت میں لاتے ہوں اگر دیکھا جائے تو انسانی جسم اللہ تعالی کی قدرت اور کاریگری کا بہترین شاہکار ہے۔ اربوں خلیوں پر مشتمل یہ جسم اپنے پیچیدہ نظام کے ساتھ معاملات کی انجام دہی کرتا یہ جسم مشین کی مانند ہے اور جب تک درست حالت میں ہو چلتی رہتی ہے ۔جونہی کسی پرزے میں کوئی نقص یا خرابی پیدا ہوئی تو مشین اپنا کام چھوڑ دیتی ہے اور پھر خرابی دور کرنے تک مشین بے کار رہتی ہے۔
انسانی جسم اور ہمارے معاشرے کی بھی یہی صورتحال ہے۔ انسانی جسم میں سب سے اہم عضو آنکھ ہے جس سے ہم معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں ظلم کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر برداشت بھی کرتے ہیں۔ خاص کر غریب اور کمزور لوگوں پر ہونے والے مظالم کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ بارکھان میں صوبائی وزیر اور سردار عبدالرحمن کھیتران نے غریب کے خاندان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے بہت زیادہ ہے۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ،یہ تو سوشل میڈیا کا کمال ہے کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے مجبوری کے طور پر اپنے سردار بھائی کے خلاف ایکشن لے لیا ورنہ تو سیاسی طور پر اندھے لوگوں کا یہ ظلم بھی کسی کھاتے میں نہ آتا اور پورا خاندان موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ ان سرداروں کی نجی جیلوں میں ایسا ہونا معمول کی واردات ہے ۔ اسی لیے تو ان سرداروں کے خوف اور ظلم سے وہاں کے مقامی لوگ ڈرتے ہیں اور انکی غلامی میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی بلوچستان میں سیاسی سردار کے ہاتھوں اغوا ،زنا اور پھر قتل کی واردات ہو گئی اور ہمارا قانون منہ دیکھتا رہ گیا ۔ اگر سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ نہ آتا تو شاید ان سرداروں کے کالے کرتوت ہمارے سامنے نہ آتے۔ 21 فروری 2023 کو بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک کنویں سے گولیوں سے چھلنی ایک کمسن لڑکی کی لاش کے پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ معصوم لڑکی کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس کے سر میں تین گولیاں مار کر قتل کردیا اور پھر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اسکی شناخت چھپانے کے لیے
چہرے اور گردن پر تیزاب پھینک دیا۔ اسی کنویں سے اس لڑکی کے دو جوان بھائیوں کی لاشیں بھی گولیوں سے چھلنی برآمد ہوئی، یہ ظلم نہیں بلکہ ظلم کی انتہا ہے۔ ایسے واقعات ان سرداروں کا معمول ہیں۔ پولیس ان کی غلام ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ہر سرکاری محکموں میں یہ اپنے خاص کارندوں کو بھرتی کرواتے ہیں۔ خاص کر محکمہ پولیس میں ان کے علاقوں میں انکے ذاتی نوکر قسم کے لوگ ہوتے ہیںجو تنخواہ تو سرکار سے لیتے ہیں اور نوکری ان سرداروں کی کرتے ہیں۔ مقتول کے رشتہ دار وں کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والی لڑکی اور اس کے دونوں بھائی مبینہ طور پر صوبائی وزیر کی نجی جیل میں قید تھے اور ابھی بھی اسکی نجی جیل میں مزید 5 افرادقیدہیں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے حال ہی میں بازیاب کروائی گئی خان محمد مری کی بیوی گراں ناز کی کے مطابق وہ 8 سال سے عبدالرحمان کھیتران کی قید میں تھی اور قید کے دوران اس پر تشدد کیا گیا ۔ کوہلو میں آپریشن کے بعد بازیاب کرائی گئی خان محمد مری کی 17 سالہ بیٹی سے بھی جنسی زیادتی کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ لڑکی کے پائوں پر سیگریٹ سے جلنے کے نشانات بھی ہیں۔
کوہلو میں خاتون سمیت 3 افراد کی لاشیں ملنے کے بعد پولیس آپریشن میں ایک شہری خان محمد مری کی اہلیہ، بیٹی اور 4 بیٹوں کو مبینہ طور پر صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل سے بازیاب کرایا گیا تھا۔ سردار کی قید سے برآمد ہونے والے خان محمد مری کے 2 بیٹوں نے بھی جنسی زیادتی کی شکایت کی ہے متاثرہ بچوں کے والد خان محمد مری کی مدعیت میں 18 جنوری 2023 کو مقتولین سمیت خاندان کے دیگر افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھاجس میں کوہلو بارکھان سے رکن صوبائی اسمبلی، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)کے ترجمان اور صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کو نامزد کیا گیا مگرمقامی پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی اگر پولیس فورا کارروائی کرتی تو تینوں مقتولین کی جان بچائی جاسکتی تھی مگر ایسا نہ ہو ا۔ مقدمہ کے مدعی خان محمد مری کے مطابق 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران اور ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے درمیان تنازع میں گواہی نہ دینے پر اس کی بیوی اور جواں سالہ بیٹی سمیت 7 بچوں کو سردار نے نجی جیل میں قید کرلیا تھا اور تب سے لیکر اب تک ان سرداروں نے ظلم کی انتہا کررکھی تھی۔ بات آنکھوں سے شروع ہوئی تو کہاں تک جا پہنچی ۔
میں بات کررہا تھا ثناء اللہ کاکڑ کے الاحسان کی جو واقعی پاکستانیوں پر ایک احسان ہے جہاں جدید مشینری کے ذریعے آنکھوں کا آپریشن کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت آنکھوں کے تقریباً 20 لاکھ مریض ہیں اور بروقت مداخلت سے آنکھوں سے متعلق ہر قسم کی بیماریوں سے 80 فیصد بچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں 2.2 بلین لوگ بصارت کی کمزوری یا نابینا پن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پاکستان میں اندھے پن کا زیادہ تر تعلق آبادی میں اضافے اور مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے ڈاکٹر سے رجوع کرنے میں تاخیر سے ہے اگر کوئی بچہ سر درد اور آنکھوں میں پانی آنے کی شکایت کرتا ہے تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اس کی بینائی خراب ہورہی ہے ۔ 8 اکتوبر 1993 کو الاحسان ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے قائم ہونے والی اس چھوٹی سی تنظیم نے آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ابھی اس کو پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی جانے کی ضرورت ہے، خاص کر بلوچستان کے بارکھان میں جہاں سرداروں کے وحشیانہ ظلم پر لوگوں کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں ۔
٭٭٭