... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں بی بی سی کے دہلی وممبئی دفاتر پرمحکمہ انکم ٹیکس کی چھاپہ مار کارروائی کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی ہے ۔ خود برطانوی حکومت نے اس کارروائی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ اس معاملہ پر برطانوی پارلیمنٹ میں وزیرخارجہ فابیان نے کہا ہے کہ بی بی سی عالمی میڈیا کے تناظر میں باوقار اورمعتبر ادارہ مانا جاتا ہے ۔اس ادارے پر ہندوستان میں جس انداز میں چھاپے مارے گئے ہیں اور بی بی سی ملازمین کو جس طرح ہراساں کیا گیا ہے ، اس پر ہم نے سفارتی ذرائع سے احتجاج درج کروایا ہے ۔انھوں نے کہا کہ میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے برطانوی حکومت ہرممکن قدم اٹھائے گی اور دنیا کے جس کونے میں بھی اس پر آنچ آئے گی ہماری حکومت پوری طرح سے اس کی مخالفت کرے گی۔سبھی جانتے ہیں کہ بی بی سی کے خلاف مارے گئے ان چھاپوں نے ان تمام لوگوں کو بے چین کردیا ہے جودنیا بھر میں میڈیا کی آزادی اور خودمختاری کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کارروائی کے خلاف نہ صرف میڈیا سے وابستہ تنظیموں بلکہ خود اپوزیشن پارٹیوں نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور اسے میڈیا کی آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے ۔ ایڈیٹر س گلڈ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ میڈیا کی آزادی پر حملہ ہے ۔ اس سے پہلے بھی ایسے کئی میڈیا اداروں کے خلاف کارروائی ہوچکی ہے ، جو حکومت کو تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں۔ کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے الزام عائد کیا ہے کہ مرکزی حکومت پریس کی آزادی کو کمزور کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ سب تنقیدی آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے ۔خود بی بی سی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ان صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے جو بے خوف ہوکر غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی بی بی سی کی مالی بے ضابطگیوں کے سلسلہ میں عمل میں آئی ہے ۔
حکومت اس معاملے میں کچھ بھی کہے لیکن اس کارروائی کے تار بی بی سی کی اس دستاویزی فلم سے جوڑے جارہے ہیں جو 2002کی گجرات فسادات میں وزیراعظم نریندرمودی کے کردار پر تیار کی گئی ہے اور جس کی نمائش پر ہندوستان میں پابندی عائد کردی گئی ہے ۔بی بی سی کی دستاویزی فلم میں اس وقت کی گجرات حکومت پر فسادات کو روکنے کے لیے صحیح وقت پر مطلوبہ کارروائی نہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس دستاویزی فلم پر ہندوستان میں پابندی کے باوجود یہاں کئی یونیورسٹیوں میں اس کی نمائش کی گئی ہے اور اسے کافی تعداد میں لوگوں نے دیکھا ہے ۔حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہگجرات فسادات کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوچکی ہے اور اس نے اپنی پوری جانچ میں سرکار کو قصوروار نہیں پایا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کانگریس کی حکومتوں کے دوران اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ ہوچکی ہے اور اس میں بھی وزیراعظم مودی کو قصور وار نہیں ٹھہرایا گیاتھا۔ایسے میں ایک غیرملکی میڈیا ادارے کی طرف سے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا درست نہیں ہے ۔
اس دستاویزی فلم کی ریلیز کے بعد حکمراں جماعت اور اس کے حامیوں میں بی بی سی کے خلاف زبردست غم وغصہ ہے ۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں بی بی سی کی نشریات پر پابندی لگوانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے ۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ہندوسینا کی اس عرضی کو خارج کردیا تھا جس میں ہندوستان میں بی بی سی پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔اس درخواست میں الزام عائد کیا گیا تھا کہبی بی سی ہندوستان اور حکومت ہند کے خلاف جانبداری برت رہی ہے اور وزیراعظم نریندر مودی پر اس کی دستاویزی فلم عالمی سطح پر ہندوستان اور اس کے وزیراعظم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے خلاف ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے ۔ عدالت نے اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے واضح طورپر کہا کہ یہ عرضی مکمل طورپر غلط تصور پر مبنی ہے اور میرٹ سے عاری ہے ، اسی لیے اسے خارج کیا جاتا ہے ۔
ہمیں نہیں معلوم کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم عالمی سطح پر ہندوستان کی امیج خراب کرنے کا سبب بنی ہے یا پھر اس فلم پر پابندی اور بی بی سی کے دفاتر پر انکم ٹیکس کے چھاپوں سے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ داغدار ہوئی ہے ، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس فلم کو روکنے اور بی بی سی کے خلاف انتقامی کارروائی سے دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے کہ حکومت ہند اظہاررائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کررہی ہے ۔یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو سرکاری عتاب کا نشانہ بننا پڑا ہے ۔ اس سے پہلے بھی کئی میڈیا ہاؤس مختلف سرکاری ایجنسیوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ ایسے کئی صحافیوں کو بھی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ہے جنھوں نے دیانت داری کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں ملک کے اندر میڈیا کی آزادی پر سوالیہ نشان قایم ہوگیا ہے ۔ اس قسم کی کارروائیوں کا اثر عالمی پیمانے پر بھی ہوا ہے اور دنیا ہندوستان میں پریس کی آزادی کے لیے سنگین خطروں کا احساس کررہی ہے ۔
ایک فطری اصول یہ ہے کہ جس شے کو جتنا دبانے اور کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے ، وہ اتنی ہی زیادہ طاقت کے ساتھ ابھرتی ہے ۔ایسا ہی گجرات فسادات پر بی بی سی کی اس دستاویزی فلم کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ حکومت نے نہ صرف اس پر پابندی لگائی بلکہ جن لوگوں نے اسے دیگر ذرائع سے دیکھنے کی کوشش کی، ان پر بھی کارروائی عمل میں آئی۔ بی بی سی کی اس دستاویزی فلم پر پابندی کا معاملہ ہنوز عدالت میں زیرسماعت ہے ۔اس معاملے میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پرمرکز سے جواب طلب کئے تھے جس میں اس دستاویزی فلم کو مسدود کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ حکومت نے کئی یوٹیوب ویڈیوزاور ٹوئٹر پوسٹ کو مسدود کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں جن کے ذریعہ اس فلم کے لنکس شیئر کئے گئے تھے ۔اس فیصلے کو صحافی این رام اور وکیل پرشانت بھوشن وغیرہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔بی بی سی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ ایک قطعی خودمختار اور آزاد میڈیا ہاؤس ہے جس نے اپنی شفاف صحافت کے ذریعہ عالمی پیمانے پر اپنی شناخت قایم کی ہے ۔بی بی سی اپنی نشریات میں غیرجانبداری کے ساتھ حقائق کو پیش کرتا ہے اور اپنا کام کرتے وقت صحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو ہی اوّلیت دیتا رہا ہے ۔ ایسے میں اس پر جانبداری اور کسی ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام ناقابل فہم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تیار کردہ دستاویزی فلم پر پابندی کے خلاف پوری دنیا میں تنقید کی گئی ہے ۔ امریکی اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ نے حال ہی میں اپنے ایک اداریہ میں ہندوستان میں میڈیا کی آزادی کو خطرے میں بتایا ہے ۔اس اداریے میں بھی بی بی سی کی دستاویزی فلم کا تفصیلی ذکر ہے ۔اخبار کے ادارتی بورڈ نے اس حوالے سے تمام حقائق کے ساتھ جو اداریہ شائع کیا ہے ، اس میں آزاد نیوز میڈیا کو ڈرانے ،سینسر کرنے ، خاموش کرنے اور سزا دینے کے لیے طاقت کا غلط استعمال لیڈروں کی ایک خطرناک پہچان قرار دیا ہے ۔
اداریہ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی اعلیٰ قیادت اس خیمے میں شامل ہے جو پریس کی آزادی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کررہاہے اوردنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طورپر ہندوستان کے قابل فخر مقام کو کمزور کررہا ہے ۔ 2014میں مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صحافیوں نے اپنے کیریر اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ان چیزوں کو رپورٹ کیا، جو حکومت روکنا چاہتی تھی۔صحافیوں کے تحفظ سے متعلق انڈیکس میں ہندوستان گیارہویں مقام پر ہے ۔ کئی صحافیوں کی موت کا معمہ اب بھی حل طلب ہے ۔سالانہ ‘پریس فریڈم انڈیکس’ میں ہندوستان 150ویں مقام پر ہے ۔ تنقیدی رپورٹنگ کے حوالے سے حکومت کی عدم برداشت کا تازہ ترین اظہار گذشتہ ماہ بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم کو روکنے کے لیے ہنگامی قوانین کا نفاذ تھا ۔
٭٭٭