... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل اسمبلی میں یوکرائن پر 11ویں ہنگامی اجلاس کے دوران پاکستانی فرسٹ سیکریٹری جواد اجمل نے ہندوستان کے خلاف جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے کہا کہ آج کی بحث کا محور بحران کے شکار افراد ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ چارٹر کے پہلے آرٹیکل میں درج لوگوں کے اہل حقوق میں سے ایک حق خود ارادیت ہے۔کشمیریوں کے معاملے میں، حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے تسلیم کیا گیا ہے اور ان سے وعدہ کیا گیا ہے، جس نے کشمیریوں کو اس حق کے استعمال سے زبردستی اور دھوکا دہی سے روکا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روکا ہے۔ کشمیریوں کو اپنی تقدیر کا تعین کرنے کے قابل بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے ناگزیر ہے۔
بھارت نے پورے کشمیر میں خواتین اور بچوں سمیت 1000 نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر نظر بند کر رکھا ہے، نوجوان لڑکوں کو سرعام پھانسی دے کر پرتشدد کارروائیاں کیں اور پورے محلوں اور دیہاتوں کو جلا دیا۔ اس طرح کے اقدامات جموں و کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد کو تیز کرنے کے لیے ہی کام کرتے ہیں۔ پاکستان کشمیر پر بھارتی مظالم کے بارے میں عالمی برادری کو لوگوں کی حالت زار سے آگاہ کرے گا۔ غیرقانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے۔مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر برصغیر میں پائیدار امن نا ممکن ہے اور تمام دنیا بھی اس بات پر متفق ہے کہ مسئلہ کشمیر، کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہی حل ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد کی وجہ سے بھارت کو مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا۔
اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے کر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک واضح طریقہ بتایا تھا جس پر پاکستان تاحال زور دیتا رہا ہے لیکن بھارت اس طریقہ سے ہمیشہ پہلو تہی کرتا رہا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے اور انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت اپنے وعدوں سے مکر گیا۔ وہ ریاستی طاقت اور جبر کے زور پر کشمیر کو ہڑپ کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
کشمیر بھارت کا حصہ نہیںہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ریاست جموں وکشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر بھارت کا کبھی اٹوٹ انگ تھا نہ اب ہے۔ بھارتی مندوب نے کشمیر کے بھارت کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کے لیے حق خود ارادیت کا دعویٰ غلط ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت سے مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل حل کرے۔ بھارتی قیادت کا یہ طرزعمل نیا نہیں۔ جب بھی پاکستان نے مذاکرات میں کوئی تجویز پیش کی تو بھارت نے اسے قبول نہیں کیا۔ جب بھارتی لیڈر اٹوٹ انگ کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر کشمیر سمیت تمام مسائل پر جامع مذاکرات بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔
بھارتی سرکار اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے گمراہ کن پروپگنڈے سے یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس اور تشویشناک ہے۔حریت رہنماؤںنے اپیل کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارت کی جانب سے کشمیر پرامن کے ڈرامے کو مسترد کرتے ہوئے عالمی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی خواہشات کے تحت آزادانہ ماحول میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کا انعقاد ہے۔ بصورت دیگر جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا۔ کٹھ پتلی حکومتیں جعلی الیکشن کا ڈرامہ رچا کر قائم کی جاتی ہیں جو جمہوریت کا دعویٰ تو کرتی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں پر کٹھ پتلی حکومت کے رکاوٹ نہ ڈالنے کا یقین تو دلاتی ہیں لیکن وہ ایک لمحے کے لیے بھی کشمیری حریت پسند عوام کو اظہار رائے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ ہم بھارتی حکمرانوں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اور کشمیری عوام کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اور نہ ہی کشمیرکی تقسیم کی بنیاد پر کوئی حل قبول کریں گے۔ مسئلہ کشمیر کا واحداور پائیدار حل صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری سے ہو سکتاہے۔ جو اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونی چاہیے اور اس میں کشمیری جو بھی فیصلہ کریں وہ ہندوستان اور پاکستان کو قبول کرنا ہوگا۔
یورپی ممالک کی دیدہ دانستہ چشم پوشی کی وجہ سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہورہا۔ مغرب کی طرف سے بھارت کی درپردہ اور کھلم کھلا پشت پناہی کے باعث مسلمانوں کے دلوں میں نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی اور کسی نے بھارت سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ دیدہ دلیری سے ان قراردادوں کی خلاف ورزی کیوں کر رہا ہے؟ یورپ اور ترقی یافتہ ملکوں کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کرسوچناچاہیے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ میں خود ان کی ذمہ داری کتنی ہے؟
٭٭٭