وجود

... loading ...

وجود

ماں چلی گئی!

هفته 25 فروری 2023 ماں چلی گئی!

ایم سرورصدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتفاق ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ میں ایک معمرخاتون بیڈپر بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی لواحقین کی درخواست پر ایک کے بعد ایک ڈاکٹرنے اسے چیک کیا ٹیسٹ لیے گئے ،بی پی ،شوگر بھی نارمل۔مختلف ٹیسٹوں میں بھی کسی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا۔
ڈاکٹر صاحب !ایک بیٹے نے کہا ماں جی نے دودن سے کھاناپینا چھوڑ دیاہے ۔اس کے لہجے میں تشویش تھی !
دیکھیے ! ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا ماں جی کو کوئی بیماری توہے نہیں۔ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہے، اب ان کی خدمت کریں دوا کیلئے تو آپ ترددتوکررہے ہیں، اب دعا بھی کریں !
”پھر بھی !دوسرا بیٹے نے لرزتے ہونٹوں سے کہا،جو کچھ ہو سکتاہے، وہ تو ٹریٹمنٹ کریں ۔
ان کی موجودہ حالت میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔ڈاکٹر نے صاف صاف کہہ ڈالا ہاں انہیں ڈرپ لگائی جا سکتی ہے ۔ انجکشن بھی ساتھ ملاکر! شاید کچھ ریلیف مل جائے۔ بیٹوںنے اثبات میںسرہلائے تو ڈاکٹر صاحب نے پیڈپر کچھ ادویات تحریر کردیں۔ ایک پوتا دوڑتا ہوا گیا، دوائیاں لے کر واپس آیا، سسٹرنے ڈرپ لگانے کیلئے بازو میں سوئی چبھوئی معمرخاتون کے چہرے کے کوئی تاثرات بدلے نہ بازو میں کوئی جنبش ہوئی۔ ایک بیٹے کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل آئے ۔ ماں شاید ہر قسم کے احساس سے عاری ہوچکی تھی۔وہ سوچنے لگا یہ کتنی بے بسی ،کتنی بے کسی کا عالم ہے ، جب ایک زندہ انسان اپنا ہاتھ بھی اٹھانے پرقادر نہ رہے یا اپنے جسم کو کسی قسم کی حرکت بھی نہ دے سکے۔یہ بڑھایا ،بیماری اور لاچاری بھی کیا چیزہے۔ شاید دنیا میں اس سے زیادہ کوئی اور چیز خوفناک نہ ہو۔انسان اپنے احساسات کھو بیٹھے یا احساس بھی ہو۔ دولت کے انبار بھی اس کے پاس ہوں۔ ہر خوشی ،ہر آسائش ،ہر سہولت میسرہو لیکن جب وہ لمحہ لمحہ موت کی جانب بڑھ رہاہو ۔ وہ خود یا ا س کے لواحقین ،قیمتی سے قیمتی ادویات یا مہنگے سے مہنگے ڈاکٹر اس کے لیے کچھ نہ کرسکتے ہوں ،کتنی بے بسی ہے سوچنے کا مقام ہے۔
انسان کتنا مجبورہے لحظہ لحظہ موت کی جانب گامزن۔ اپنے پیاروںکو بچانے سے قاصرہے ۔پھرانسان کیاہے ؟ دنیا میں فتنہ و فساد ،مارا ماری،جھوٹ ،فریب،لالچ کیوں؟ ضمیر کاسودا ، مفادات کیلئے ایمان تک بیچ دینا۔دوسروںکا حق کھاناکیونکرزیب دیتاہے سوچتے سوچتے ہم کانپ کانپ گئے۔ماںجی کی حالت دیکھ کر تمام عمر کسی پر ظلم ،زیادتی نہ کرنے کا عہدکیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا آپ ماںجی کو گھرلے جائیں ان کے لیے دعا کریں ۔اللہ اللہ کرنے سے مشکلات کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ ماں جی اب آپ کے پاس چند دن کی مہمان ہیں۔ اللہ کی امانت ہے، اس سچائی کو تسلیم کرنا چاہیے، اب میرے خیال میں انہیں دوا نہیں دعا کی ضرورت ہے۔ بڑھاپے نے ماں کی صحت، جسمانی قوت اور توانائی چھین لی تھی، چہرہ بھی آڑی ترچھی لکیروںکی اماج گاہ بن کررہ گیا تھا۔ ان کی عمر80سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ماں جی گزشتہ دو ماہ سے بیڈ پر تھیں ان کی نگہداشت اور دن رات کی ضروریات کیلئے ایک خاتون کو مامورکیا گیا تھا۔بہوئوں ، پوتے ،پوتیاں سب ان کی خدمت کررہے تھے۔ ماشاء اللہ! خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کیونکہ ہماری فیملی کا اس بات پر ایمان کی حد تک اعتقاد ہے ۔ ہم اپنے والدین کی جیسی خدمت کریں گے، ویسی ہی خدمت ہماری اولاد کرے گی ۔ اس بات کو دو دن گزرے ابھی ماحول میں رات کا سحر باقی تھا ،ابھی پو بھی نہیں پھوٹی کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی اس کی آواز کرخت کرخت لگی، دل دھک دھک کرنے لگا کہ رات کے اس پہر فون۔الہی خیر ماڈل ٹائون سے برادرم نسیم کا فون تھا۔انہوںنے کہا ماں جی کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔رونا نہیں۔ محسوس ہوا ان کے اپنے ہونٹ لرز اور کانپ رہے تھے۔ اس عالم میں بھی ان کا لہجہ بڑا شفیق سا تھا شاید بڑا ہونے کا حق ایسے ہی ادا کیا جاتاہے ۔ دل سے بے ساختہ نکلا انا للہ وانا الیہ راجعون اور آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ماں چلی گئیں۔ہم سب کو چھوڑ کر اپنے خالق ّ حقیقی سے جا ملیں ۔ ماں چلی گئیں بلاشبہ ہم سب نے بھی چلے جاناہے۔ موت زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے والدین ۔وفاق کی علامت ہوتے ہیں ،بہن بھائیوں اور خاندان کو متحد رکھنے میں ان کا بڑا کردار ہوتاہے۔ سخت گیر شخص بھی والدین بالخصوص ماں کا چہرہ دیکھ کر موم ہوجاتاہے۔اسی لیے توشاہ حسین جیسا ولی بھی کہنے پر مجبورہوگیا۔
مائیں نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
زندگی میں قدم قدم پرماںیاد آتی ہے۔ خاص طورپر مشکل حالات،دکھ اور درد میں بے ساختہ منہ سے ” ہائے ماں” نکل نکل جاتاہے ۔ تدفین کے بعد گھر ایسے لگا جیسے قبرستان ہو، پہلے شفیق والد ماجد اب ہم مہربان والدہ کی چھائوں سے محروم ہوگئے۔ یہ محرومی عمر بھر کا روگ ہے۔ہم سوچ میں گم تھے ایک واقعہ دل و دماغ پر حاوی ہوتا چلا گیا۔ جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام اکثر اللہ تبارک تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے کوہ ِ طور جایا کرتے تھے۔ وہیں سے انہیں ہدیات اور احکام ملتے تھے ،اسی دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا انتقال ہوگیا، وہ کئی دن مغموم رہے ،آخرکار ایک دنموسیٰ علیہ السلام جب کوہ ِ طورپر پہنچے تو ندا آئی اے موسیٰ اب جوتے اتار کر کوہ ِ طور پر آنا۔
موسیٰ علیہ السلام نے حیرانی سے کہا :اے میرے رب میں تو روزانہ جوتوں سمیت یہاںآتا رہتاہوں ،یہی میرا معمول ہے ۔
پھر آواز آئی موسیٰ! جوتے اتار کر آنا ،اب تمہارے لیے دعا کرنے والی ماں زندہ نہیں ۔یہ ہے ماں کا رتبہ ! ہم دنیا داروں کو اس ہستی کی فضیلت بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ۖ کو ماںکی شان سے آگاہ کردیا۔ ماں باپ کی شان میں آخری الہامی کتاب میں کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ ہیں ۔ سچ ہے والدین کا حق کبھی کوئی ادانہیں کر سکتا۔ میاں محمد بخش نے کیا خوب کہا ہے
بھراں بھائیاں دے دردی ہندے
بھراں بھائیاں دیاں بھاواں
پیو سردا تاج ۔۔۔۔۔ محمد
ماواں ٹھنڈیاں ۔چھاواں ۔یہ مشاہدہ تو اکثر لوگوں کو ہوا ہوگا ۔گھر میں انتظار صرف ماں کرتی ہے ،بیوی بچوں میں محبت کی اتنی تپش نہیں ہوتی جتنی ایک ماں کے دل میں ہوتی ہے ۔ جن کے والدین ماشاء اللہ حیات ہیں وہ ان کی تابعداری کریں ان کی خوب خدمت کر کے اپنا حق ادا کرنے کی کوشش کریں ،کیونکہ والدین کی طرف محبت سے دیکھنا بھی عبادت ہے، ہم نے جوکچھ پایاہے وہ ماں باپ کے جوتوں کے صدقے پایاہے ۔اللہ تعالیٰ کاحکم ہے میری عبادت کرو اورماں باپ کی اطاعت کی جائے ۔ اور جن سے والدین جیسی نعمت چھن گئی ہے وہ ان کی درجات کی بلندی ، مغفرت اور بخشش کے لیے روزانہ دعاکیاکریں کوئی نہ کوئی قرآنی آیات پڑھ کر ان کے ایصال ِ ثواب کے لیے دعا کرتے رہیں ۔ آئیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں کہ وہ ہماری والدہ ماجدہ کی مغفرت کرکے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،اور ان کوآقائے نامدار ۖ کی شفاعت نصیب فرمائے۔(آمین)
(والدہ ماجدہ کی برسی پر ماں کے حضور آنسوئوں بھر انذانہ)
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر