... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسرائیلی فورسز کی کارروائی میں ایک نوجوان سمیت 11 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ایسی ظالمانہ کارروائیاں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی یہودی بستیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مغربی کنارے میں ایک نئی خونی کشیدگی کے بعد مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت کو یکطرفہ اقدامات سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ سیکریٹری جنرل نے فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی کو بتایا کہ ہر نئی آباد کاری امن کی راہ میں ایک اضافی رکاوٹ بن رہی ہے۔ ہر نئی بستی کی سرگرمی بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے اور اسے روکنا چاہیے۔ تشدد کے لیے اُکسانا ختم ہونا چاہیے۔ کوئی ایسی چیز جو دہشت گردی کو جواز بناتی ہو، اسے سب کو مسترد کر دینا چاہیے۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی موجودہ صورتحال برسوں میں سب سے زیادہ کشیدہ ہے۔ اسرائیل فلسطین امن عمل تعطل کا شکار ہے اور تناؤاپنے عروج کو پہنچ رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی متنازع توسیع امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جو دو ریاستی حل کو کمزور کرتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے مغربی کنارے میں اسرائیلی قابض افواج کی حالیہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ قبضہ کو ختم کرنے، بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے اور اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور شہریوں کو ضروری تحفظ فراہم کرے۔ امریکا، برطانیہ اور اسرائیل نے خطے کا امن تباہ و برباد کر رکھا ہے۔ فلسطینی آئے روز اپنے عزیزوں اور معصوم بچوں کے لاشے اٹھاتے ہیں۔ ان کے گھر مسمار اور کاروباری مراکز تباہ کر دیے جاتے ہیں جبکہ عالمی طاقتیں اسرائیل کو روکنے کے بجائے درپردہ اور کھل کر حمایت کرتی ہیں ۔ اسرائیل کو امریکہ اور یورپی ممالک سے جدید اسلحے کی ترسیل بھی جاری ہے۔ اسرئیلیوں نے کچھ عرصے سے فلسطینیوں کی بستیوں کو تہہ و بالا کرنا شروع کر دیا اور زمینی کے ساتھ ساتھ فضائی کاروائیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم نے اسرائیل کے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے انگریزوں کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔ اسرائیل کی صیہونی حکومت مسجد اقصیٰ اور قبلتہ الصخرہ کو گرا کر اپنا تیسرا ٹیمپل بنانا چاہتی ہے ۔ مسلمانوں کے نزدیک سب سے بابرکت اوراہم جگہ مسجد ہے جس میں روزانہ پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ مسجد کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہودیوں نے بیت المقدس اور فلسطین سے سینکڑوں مساجدکونہ صرف شہید کیا بلکہ ان میں سے بعض کو شراب خانوں اور ہوٹلوں میں تبدیل کر دیا۔ یہ صرف اس لیے کیا گیا کہ آئندہ آنے والی یہودیوں کی نسلیں بیت المقدس کو ایک اسلامی شہر کی حیثیت سے شناخت نہ کر سکیں ۔ بلکہ وہ یہ محسوس کریں کہ یہ شروع سے ہی یہودی شہر ہے۔ فلسطین کی سر زمین پر یہودیوں کا ناجائز قبضہ ہے اور دنیا کی بڑی طاقت امریکا اور دیگر رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائی ممالک کی ساری عسکری قوت یہودیوں کی پشت پر ہے۔
امریکاکے سوا دنیا کے سارے ممالک کی اکثریت نے اسرائیل کی خون آشام کاروائیوں کی مذمت کی ہے۔ اس وقت اسرائیل کو امریکاکی مکمل حمایت اس لیے حاصل ہے کہ اسرائیل اس خطے میں امریکی مفادات کا سب سے بڑا محافظ ہے اور وہ مسلم دنیا کا دشمن ہے۔ اس کا ہدف عرب دنیا ہے۔ بد قسمتی سے عرب لیگ اور اسلامی سربراہی کونسل ایسی تنظیمیں بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ امریکا تمام اخلاقی اور قانونی تقاضوں کو نظر انداز کر کے اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکا کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ساری دنیا کی مرضی کے خلاف یہودی ریاست کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے اور اسے ایک نہ ایک دن اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ انصاف پسند شہری امریکی انتظامیہ کی اس غلط پالیسی پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں لیکن امریکی انتظامیہ بڑی بے شرمی کے ساتھ یہودیوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
١٨٤٨ء سے قبل اسرائیل نام کی کوئی ریاست دنیا کے نقشے پر موجود نہ تھی بلکہ انگریزوں نے اپنے مفادات کی خاطر یہودیوں سے ساز باز کر کے انبیا ئے کرام کی سرزمین فلسطین پر ناجائز ریاست قائم کی۔ ١٨٠٠ء میں یورپ میں ایک سیاسی تحریک کا صہیونیت کے نام سے شروع ہوئی۔ اس تحریک کا مقصد ارض فلسطین پر یہودیوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست کا قیام تھا۔ اس وقت صیہونیوں کا عرب فلسطین پر قبضے میں کچھ مشکلات درپیش تھیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسطین اس وقت خلافت عثمانیہ میں ہونے کی وجہ سے ترکوں کے زیر نگیں تھا اور عرب کسی قیمت پر فلسطین کی سرزمین یہودیوں کے سپرد کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس وقت فلسطین میں صرف چند یہودی بستے تھے۔ فلسطین کو خلافت عثمانیہ سے نکال کر وہاں پر یہودیوں کیلئے ایک علیحدہ خود مختار ریاست کے قیام کی خاطر یورپ میں بسنے والے صیہونیوں نے تحریک شروع کی۔ ١٩١٤ء کی جنگ عظیم اول کے شروع ہونے پر صیہونیوں کو یہ تحریک چلانے کیلئے بہترین موقع ہاتھ آگیا۔ یہودیوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران جرمنی اور برطانیہ کا بیک وقت پیش کش کی کہ اگر وہ فلسطین میں اسرائیل کی ریاست کے قیام میں مدد کریں تو وہ جنگ میں جرمنی یا برطانیہ کو فتح دلا سکتے ہیں۔ ہٹلر نے تو یہودیوں کی یہ پیش کش ٹھکرادی لیکن برطانیہ نے یہودیوں کو یقین دلایا کہ وہ فلسطین میں ہر قیمت پر اسرائیلی ریاست قائم کریں گے۔ دنیا بھر کے یہودیوں نے برطانیہ اور اتحادیوں کی مدد کی اور انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اسرائیل کے قیام کا فیصلہ کرلیااور یوں اسرائیل وجود میں آگیا۔
٭٭٭