... loading ...
کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ کشمیری خواتین بزدل بھارتی افواج کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ سانحہ کنن پوش پورہ بھارتی حکام کی طرف سے کشمیری خواتین کو جدوجہد آزادی سے دور رکھنے کے لیے ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔مقبوضہ وادی میں بھارتی فورسز نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران 11ہزار245 خواتین کی بے حرمتی کی ہے کیونکہ وہ جنسی ہراسانی اور خواتین کی بے حرمتی کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ بھارتی فورسز کی جارحیت کے نتیجے میں 1989سے آج تک 22 ہزار923 خواتین بیوہ ہوچکی ہیں۔ 23 فروری 1991 کی رات کنن اور پوشپورہ علاقوں میں تقریباً 100 خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ثبوتوں کے باوجود ایک بھی بھارتی فوجی کو عصمت دری پر سزانہیں دی گئی ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کرنے والے بھارتی فورسز اہلکار انسانیت پر بدنما دھبہ ہیں اور عالمی برادری کو جنسی تشدد کو روکنے کے لئے آگے آنا چاہیے۔
کشمیرکی مائیں اب بھی 1991 میں کشمیری خواتین سے ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات کا سوچتی ہیں تو خوف سے کانپ جاتی ہیں۔ کشمیر کی نوجوان لڑکیوں کو بھی ان دیکھی آفت کا سوچ کر ہول اٹھتے ہیں جو یہ سنتے سنتے بڑی ہوئی ہیں کہ آزادی کشمیر کی اگر جنگ ہوئی تو جانیں جائیں گی اور اموات کی گنتی ہو جائے گی مگر کتنی کشمیری عورتوں کی عزتیں پامال ہوں گی، قابض فوج کے ہاتھوں کتنوں کے جسم نوچے جائیں گے، ان دردوں کا شمار ممکن نہ ہوگا۔ اس وقت دنیا میں خواتین کے حقوق کے لیے بڑے پیمانے پر آواز بلند کی جارہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا انتہائی شکار ہیں۔ قابض بھارتی فورسز کشمیری خواتین کی آبروریزی کے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ آبروریزی کے واقعات کے مجرم بھارتی فوجی آزادانہ گھوم رہے ہیں۔کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی مجموعی صحت پر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیری عورتوں میں اولاد پیدا کرنیکی صلاحیت میں کمی ہوئی ہے اور انہیں پیچیدہ نسوانی امراض لاحق ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہزاروں مظلوم و بے بس کشمیری خواتین و نوجوان لڑکیاں انہیں شدید حالات سے دوچار ہیں۔
بھارتی قابض فوجیوں نے کشمیریوں کو آزادی کی جنگ سے روکنے کیلئے ایسے بھیانک مظالم ڈھائے ہیں کہ ان کے انسان ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ بھارتی فوجی رات کے سناٹے میں کسی بھی ایسے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں جہاں انہیں علم ہو کہ کوئی جوان مرد نہیں ہے۔ دروازہ کھلتے ہی گھر میںموجود بوڑھے مرد کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کا الزام لگا کر چند سپاہی گھسیٹتے ہوئے باہر لے جاتے ہیں اور باقی لوگ گھر کی عورتوں کے ساتھ جنسی وحشت و بربریت کا وہ خوفناک کھیلتے ہیں کہ اسے لفظوں میںبیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اکثر عورتیں اس عمل کا نشانہ بننے کے بعد اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹ لیتی ہیں۔
بیشتر کشمیری عورتیں اپنے بچوں کی ہلاکت کی وجہ سے ذہنی مریض بن گئی تاہم علاج معالجہ ملنے کی وجہ سے اب ان کی حالت بہتر ہے۔ ان 30 سالوں میں جو نوجوان پیدا ہوئے ان کے دماغ مفلوج ہو چکے ہیں اور یہ کہ ان پر نفسیاتی دباؤ بھی بہت حد تک بڑھ چکا ہے۔ 60 فیصد سے زائد کشمیر کی آبادی نفسیاتی مریض بن گئی ہے۔کیونکہ نوجوانوں کو اپنا مستقبل غیر واضح دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی درندہ صفت افواج کے ظلم و ستم سے 50 فیصد بالغ آبادی کے ساتھ ساتھ 40 فیصد نوعمر اور بچے کسی نہ کسی طور پر اپنی زندگی کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں جن کے سبب ان کے ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد بھارتی فوج کی بربریت و درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے اسی وجہ سے دس لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے۔ بھارتی حکومت کے جبر، انتقامی کاروائی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتےـ مزید برآں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ سیاہ قوانین قابض افواج کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے کشمیریوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہوا ہے –بیوہ خواتین اپنے مقتول شوہروں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں ان کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے روزگار کمانا ناممکن بن گیا ہے – ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کشمیر میں یہ حالات حادثاتی نہیں بلکہ انہیں فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی ، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
بھارتی فوج اور پولیس غیر کشمیری بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر مقبوضہ جموں و کشمیر پر غیر جمہوری طریقے سے حکمرانی کر رہے ہیں جبکہ مقبوضہ علاقے کے عوام کو حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے پر دبایا جا رہا ہے۔جبکہ سابق وزیر اعلی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب کوبگاڑنے کیلئے غیر کشمیری ہندوئوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد کیاجارہا ہے اور انہیں ووٹر لسٹوں میں بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ انہوں نے مودی کی فسطائی بھارتی حکومت سے سوال کیا ہے کہ اگر کشمیر کا تنازع ختم ہوچکا ہے تو پھر ہزاروں کشمیری غیر قانونی طورپر بھارت کی جیلوں میں کیوں قید ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے مقبوضہ کشمیر میں پراپرٹی ٹیکس کے نفاذ کوعوام دشمن اقدام اور سنگین ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری عوام پراپرٹی ٹیکس کابوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں اور ان فیصلوں سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ایک ٹویٹ میں عمر عبداللہ نے قابض بھارتی انتظامیہ سے سوال کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام مجوزہ پراپرٹی ٹیکس سمیت دیگر تمام ٹیکس کیوں ادا کریں؟
٭٭٭