... loading ...
کراچی پولیس آفس میں دہشت گردوں کے خودکش دستے کا حملہ غماز ی کرتا ہے پاکستان میں دہشت گرد ی کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوچکا ہے اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد ی کی اِس نئی لہر میں دہشت گردوں کا اصل نشانہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوس پولیس ہے۔ دو ہفتے قبل پشاور کی پولیس لائن مسجد میں ہونے والے خودکش حملہ کے واقعے کے بعد ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں ہائی سیکورٹی الرٹ علاقہ میں واقع کراچی پولیس آفس کی عمارت میں داخل ہوجانا یقینا سیکورٹی کی سنگین خامی ہے ۔جس پر اگر بعض حلقوں کی جانب سے سخت سوالات اُٹھائے جارہے ہیں تو سندھ حکومت کو مذکورہ سوالوں کے تسلی بخش جوابات دے کر لوگوں کو مطمئن بھی کرنا ہوگا۔ بہرکیف کراچی پولیس آفس کے ناقص حفاظتی انتظامات کا فائدہ اُٹھا کر دہشت گردوں کے خودکش دستے کو عمارت میں داخل ہونے کا موقع تو مل گیا ،لیکن بعد ازں دہشت گرد حملے کی اطلاع ملتے ہی ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے جس سرعت ،تیز رفتاری اور موثر حکمت عملی کے ساتھ حرکت میں آئے اور صرف چند گھنٹوں میں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرکے کراچی پولیس آفس کی عمارت واگزار کروانے میں کامیاب رہے، وہ بھی یقینا قابل تعریف ہے۔
یا درہے کہ کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے خودکش دستے کا حملہ ہونے کے بعد پوری عمارت کئی گھنٹے تک میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہی ،حملہ آوروں اورقانون نافذکرنے والے اہلکاروں کے درمیان دوبدولڑائی بھی ہوئی ‘بلڈنگ کی بالائی منزل پر کئی زوردار دھماکے ہوئے، چوتھی منزل پر واقع کراچی پولیس چیف کا دفتربھی مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔حملے کے نتیجے میں رینجرز اور پولیس اہلکاروں سمیت4افرادشہید اور19زخمی ہو گئے اور 3 دہشت گرد واصل جہنم ہوئے۔یاد رہے کہ شہید ہونے والوں میں ہیڈ کانسٹیبل 30 سالہ غلام عباس، کے پی او کا سینٹری ورکر 37 سالہ اجمل،رینجرز اہلکار تیمور اور کے پی اوکا لفٹ آپریٹر سعید شامل ہے۔دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بہادر جوانوں کی یہ کامیاب کارروائی لائق تحسین ہے ۔ خاص طور پر رینجرز ، پولیس اور مذکورہ آپریشن میں شامل تمام متعلقہ اداروں کی بہادری اور قابلیت کی ہمیں بھرپور ستائش کرنی چاہیے اور اس آپریشن میں شہادت کا عظیم الشان رتبہ پانے والے سیکورٹی اہلکار، پوری قوم کے محسن اور دعاؤں کے حقدار ہیں۔ کیونکہ دہشت گردوں خودکش دستے کے حملے سے صاف پتا چلتاہے کہ اُن کامقصد کراچی پولیس آفس کی عمارت میںداخل ہوکر ممکنہ طور پر کچھ بہت بڑا کرنا تھا ۔ لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی بروقت کارروائی نے ملک دشمنوں کے مذموم عزائم خاک میں ملادیے۔
واضح ر ہے کہ کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد سرکاری عمارتوں اور تنصیبات پر سیکورٹی انتظامات کی موجودہ صورتحال کا انتظامیہ اور صوبائی حکومت نے ”سیکورٹی آڈٹ’ ‘کروانے کا فیصلہ کیا ہے، جو کہ ایک اطمینان بخش خبر اور بالکل راست اقدام ہے ۔کیونکہ دہشت گردوں کا بغیر کسی مزاحمت کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہیڈکوارٹر میں داخل ہوجانا ، انتہائی خطرناک بات ہے ۔ جسے پیشگی حفاظتی انتظامات کے نقطہ نگاہ سے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ حالیہ پشاور حملہ ملک بھر میں قانون نافذ اداروں کے لیئے حفاظتی انتظامات کے حوالے ایک سخت تنبیہ تھی۔مگر افسوس ! کراچی پولیس نے پشاور حملہ کو اُس طرح سنجیدگی سے نہ لیا،جس طرح کے اُسے لینا چاہئے تھا ۔جس کی وجہ سے حفاظتی انتظامات بروقت بہتر نہ بنائے جاسکے اور دہشت گردوں کے خودکش دستے کو آسانی کے ساتھ کراچی پولیس آفس کی عمارت میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔
دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کراچی پولیس آفس پر دہشت گرد حملہ کی ذمہ داری کا قبول کرلیا جانا،جہاں اس عسکریت پسند جماعت کے خلاف بھرپور عسکری آپریشن کرنے کا خاطر خواہ جواز مہیا کرتاہے وہیں تحریک طالبان پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو محفوظ پناہ گا ہ فراہم کرنے والی طالبان حکومت سے بھی دو ٹوک انداز میں یہ بات کرنے کا وقت آگیا ہے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یاپھر معصوم پاکستانیوں پر خودکش حملہ کرنے والوں کے ساتھ ؟قرین قیاس یہ ہی ہے کہ طالبان حکومت پر سخت سفارتی دباؤ ڈالے بغیر تحریک طالبان پاکستان کو دہشت گرداانہ کارروائیوں سے باز رکھنا بہت مشکل ہوگا۔ کیونکہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان کی سرزمین کو اپنی دہشت گردکارروائیوں کے لیئے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کررہی ہیں ۔بظاہر طالبان نے کابل کا اقتدار لیتے ہوئے عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیئے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ مگر افسوس! جہاں طالبان قیادت نے عالمی برادری کے ساتھ کیئے گئے اپنے دیگر وعدوں کو پورا نہیں کیا ،وہیں انہوں نے بیرون ِ دنیا دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے کی اپنی برسوں پرانی روایت برقرار رکھی ہے ۔
علاوہ ازیں دہشت گردی کے عفریت کو شکست دینے کے لیئے ہمیں اپنی پولیس کو بھی سیاسی و معاشی تفکرات سے آزاد کرنا ہوگا۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی حکومت چاہے وہ نئے پاکستان کی نام لیوا ہو، یا پھر پرانے پاکستان کی پولیس کو اپنے سیاسی قبضہ قدرت سے آزاد نہیں کرنا چاہتی ۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم پولیس سے جتنی توقعات اور اُمیدیں وابستہ رکھتے ہیں ، اُسے پورا کرنے کے لیے پولیس کو جس قدر وسائل کی ضرورت ہے ، وہ اُسے مہیا نہیں کیے جاتے۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ کراچی پولیس آفس پر حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں کے پاس جس قدر جدید اورخودکار اسلحہ تھا ، شاید ایسا اسلحہ بیشتر پولیس اہلکاروں نے اپنی ساری زندگی میں دیکھا بھی نہ ہو۔ پھر بھی بڑی بات ہے کہ کراچی پولیس نے اپنی تمام تر بے سروسامانی کے باجود دہشت گردوں کا ڈٹ کرنہ صر ف مقابلہ کیا بلکہ اُنہیں پسپا ئی اختیار کرنے پر مجبور بھی کیا۔ ایک لمحہ کے لیے تفکر کریں اگر کراچی پولیس کے پاس بھی وہی اسلحہ و بارود ہوتا ہو ،جو دنیا کی ہر پولیس کے پاس ہوتاہے تو شاید پھر دہشت گردوں کو پولیس پر حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہ ہوتی۔
٭٭٭٭٭٭٭