وجود

... loading ...

وجود

ترکی ا و رشام میں قیامت صغریٰ

اتوار 19 فروری 2023 ترکی ا و رشام میں قیامت صغریٰ

 

مشرق وسطیٰ کے پڑوسی ملکوں ترکی اور شام میں زلزلوں کی تباہی و تاراجی کے منظرناقابل بیان ہیں۔ان خوفناک مناظر کو دیکھ کر لوگ دہشت میں ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اپنا ردعمل کیسے ظاہر کریں۔ جب انسانی آبادیوں پر یوں قیامت سے پہلے قیامت نازل ہوتی ہے تو ہر منظر اتنا ہی ڈراؤنا اور لرزا دینے والا ہوتا ہے ۔اس موقع پر الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں جیسا کہ اس وقت اس خوفناک انسانی المیہ کو بیان کرتے وقت میرا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔کسی نے درست ہی کہا ہے کہ الفاظ انسانی محسوسات کو بیان کرنے کا سب سے ناقص وسیلہ ہیں، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ ہمارے پاس ان ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے سوا اور ہے بھی کیا؟ترکی اور شام میں اس وقت ہر طرف ملبے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں اور سڑکوں پر لاشیں بکھری پڑی ہیں۔بے گور وکفن لاشیں۔ جو لوگ بے جان لاشوں میں تبدیل ہوچکے ہیں، وہ تھوڑی دیر پہلے تک زندہ تھے اور انھیں آنے والی قیامت کا ذرہ برابر احسا س نہیں تھا۔آن واحد میں سب کچھ بدل گیا۔ جہاں عالیشان عمارتیں تھیں وہاں ملبوں کے ڈھیر ہیں اور جہاں زندگانی تھی وہاں موت کا رقص ہے ۔ ترکی سے آنے والی دلخراش تصویریں یہ بیان کرنے کے لیے کافی ہیں کہ زلزلے کو سب سے زیادہ خطرناک قدرتی آفت کیوں کہا جاتا ہے ۔اس سوال کا جواب زلزلے کی اندرونی ساخت میں ہی چھپا ہوا ہے ۔ یہ فوری اور بڑے علاقے میں تباہی مچانے پر قادر ہے ۔ اس میں تباہی وبربادی کو روکنے کی مہلت نہیں ملتی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سائنسداں ابھی تک اس کی پیشین گوئی کرنے کے قابل نہیں ہوسکے ہیں۔
ترکی اورشام کے مختلف شہروں میں بچاؤ کے کام میں مصروف لوگ اب بھی ملبے سے لاشیں ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔زلزلہ کے بعد سب سے بڑا مسئلہ موسم ہے ۔ منفی درجہ حرارت میں بچاؤ ٹیمیں ملبے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے سخت جدوجہد میں مصروف ہیں۔ پوری دنیا سے راحت کارکنان ترکی اور شام کے متاثرہ علاقوں میں پہنچ چکے ہیں۔ ہزاروں ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ہزاروں انسان زخمی ہیں۔ ایک محدود اندازے کے مطابق مہلوکین کی تعداد پچیس ہزار سے متجاوز ہے ۔زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔اس زلزلے سے چار ارب ڈالر کے مالی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ترکی اور شام کے بعض تباہ شدہ اسپتالوں سے نوزائدہ بچوں اور مریضوں کو محفوظ باہر نکالنا پڑاہے ۔جب زخمیوں کا علاج معالجہ کرنے والے اسپتال ہی منہدم ہوجائیں تو پھر زلزلے کی زد میں آنے والے زخمیوں اور معذوروں کو نئی زندگی کون دے گا۔کئی خاندان ایسے ہیں جہاں کوئی آنسو پونچھنے والا ہی نہیں بچا ہے ۔کسی نے اپنے خاندان کے سبھی پیاروں کو کھودیا ہے اور وہ ویران سڑک کے کنارے کھڑا یہ سوچ رہا ہے کہ اب وہ کس لیے زندہ ہے ۔ ان دردناک کہانیوں میں ایک کہانی ترکی کے اجمارین علاقہ کے رہنے والے فرہاد کی ہے ۔ انھوں نے امریکی نیوزچینل سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ انھوں نے زلزلہ کے وقت دیکھا اور سنا وہ منظر زندگی بھر ان کے سامنے گھومتا رہے گا۔
فرہاد بتاتے ہیں کہ تقریباًصبح چار بجے شیشہ ٹوٹنے کی آوازآئی تو انھیں محسوس ہوا کہ کسی نے پتھر پھینکا ہے ، لیکن جب دیکھنے کے لیے اٹھا تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میری سمجھ میں آگیا کہ زلزلہ آیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ خاندان کے دیگر لوگوں کو جگایا اور انھیں باہر نکالنے لگا۔بوڑھے ماں باپ بھی ساتھ تھے ۔ہم لوگ ٹھیک ٹھاک باہر نکل گئے ، لیکن ماں باپ کو نکلنے میں دیر ہوگئی، تب تک گھر کا ایک حصہ ان کے اوپر آگرا، کسی طرح جب انھیں باہر نکالا تو وہ مرچکے تھے ۔ فرہاد کی دردناک کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔جب وہ اپنے ماں باپ کی لاشیں باہر نکال رہے تھے تو تب بیوی اور بیٹے سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے تھے ۔اسی دوران دوسرا جھٹکا آیا اور چند ہی سیکنڈ میں قریب کی ایک عمارت بھربھرا کران پر گرگئی۔دیکھتے ہی دیکھتے میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ ختم ہوگیا۔ پہلے ماں باپ ساتھ چھوڑگئے اور پھر بیوی اور بیٹے کے بھی موت ہوگئی۔ اب کس کے لیے جیوں، سمجھ میں نہیں آتا۔ ایسی کئی دل دہلادینے والی ویڈیوز اور تصویریں دیکھ کر دل بیٹھا جاتا ہے ۔ہرطرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی پہلا زلزلہ ہے ۔ زلزلے آتے ہی رہتے ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں اس سے زیادہ خوفناک زلزلے آچکے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ان سے ہم نے کیا سیکھا ہے ۔ کیا ان زلزلوں کو محض قہرخدواندی قرار دے کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ زلزلوں کو یہ سلسلہ محض ماحولیاتی تبدیلی کی پیدا وار نہیں ہے بلکہ یہ نیچرکے ساتھ ہمارے مسلسل کھلواڑکا بھی نتیجہ ہے ۔یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ترکی اور شام میں آنے والی اس تباہی کی پیشین گوئی تین روز پہلے ہی کردی گئی تھی اور یہ کام کسی نجومی نے نہیں کیا تھا بلکہ زلزلوں پر تحقیق کرنے والے ایک سائنسداں فرینک ہوگر بیٹس نے 3 فروری کو کہا تھا کہ ترکی اور سیریا کے علاقوں میں زلزلہ آنے والا ہے ۔ ریکٹر اسکیل پرجس کی رفتار ساڑھے سات یا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے ۔ سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے محقق فرینک ہوگر بیٹس پچھلے کچھ دنوں سے مسلسل زمین کے مختلف حصوں میں ہورہی زلزلوں کی سرگرمی پر ریسرچ کررہے ہیں۔اس ریسرچ کی بنیاد پر انھوں نے وارننگ دی کہ جنوبی وسطی ترکی، لبنان، سیریا اور جارڈن میں ساڑھے سات یا اس سے زیادہ ریکٹراسکیل کا زلزلہ آسکتا ہے ۔ان کی یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔ تباہی وبربادی کے منظر ہمارے سامنے ہیں، لیکن ہمیشہ کی طرح ہم انھیں بھول جائیں گے اور زندگی کی رنگینیوں میں کھوجائیں گے ۔
1999 میں بھی ترکی میں بھیانک زلزلہ آیا تھاتو17ہزار سے زیادہ لوگ زمین میں سماگئے تھے ۔ترکی کے متعدد شہروں میں کئی علاقے پوری طرح زمیں دوز ہوگئے تھے ۔ لوگ 27/دسمبر 1939 میں ترکی میں آئے اس زلزلے کو بھی یاد کرتے ہیں جس میں تقریباً 33ہزار لوگ لقمہ اجل ہوگئے تھے ۔ ترکی کا شمارزلزلوں کی حسا سیت کے اعتبار سے دنیا کے سب سے خطرناک ملکوں میں ہوتا ہے ۔زمینی سائنسداں بتاتے ہیں کہ ترکی زیرزمین چار پلیٹوں پر واقع ہے ۔ان میں ایک بھی پلیٹ ہلتی ہے تو تباہی مچ جاتی ہے ۔ اس مرتبہ نہ صرف یہ کہ زلزلہ آیا بلکہ زمین دیر تک ہچکولے کھاتی رہی۔قابل غور بات یہ ہے کہ ایک دومنٹ کے زلزلے کو بھی اکثر عمارتیں جھیل جاتی ہیں، لیکن جب تین منٹ سے زیادہ زمین ہلتی ہے تب کمزور عمارتوں کو گرنے سے بچانا مشکل ہوجاتا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ساری عمارتیں زمیں دوز ہوگئی ہیں۔جو عمارتیں صحیح سلامت ہیں ان کی پائیداری کا پتہ لگانا ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ مستقبل کی تعمیرات میں احتیاط بھی ضروری ہے ۔ترکی اور شام جیسے زلزلوں کے لیے حساس ملکوں میں تعمیرات کی مضبوطی پر دھیان دینا اور انھیں زلزلہ پروف بنانا ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے ۔ترکی کے مرد آہن طیب اردغان نے مشکل ترین حالات میں بھی حوصلہ مندانہ بیان دیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ اللہ کی مشیت تھی۔جو چلا گیا، اسے تو ہم واپس نہیں لاسکتے لیکن جن کا آشیانہ منہدم ہوا ہے ، انھیں ہم ایک پیسہ خرچ کئے بغیر پہلے سے بہتر گھر بناکر دیں گے ۔کسی کے ایک پیڑ کا نقصان ہوا ہے تواسے ہم دس پیڑ لگاکر دیں گے ۔غم نہ کریں، اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ گلوبل وارمنگ، زمین کی غیرضروری کھدائی، پیڑوں اور پہاڑوں کی اندھا دھند کٹائی، گلیشیر کا پگھلنا،باڑھ، جنگلوں میں آگ وغیرہ کے سبب زمین کا توازن بگڑ چکا ہے ۔ مختلف تحقیقاتی رپورٹوں میں بتایا جاچکا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران آفات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ زلزلوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ ہمارا ملک بھی اس سے محفوظ نہیں ہے ۔آئی آئی ٹی کانپور میں زمینی سائنس کے سینئر سائنسداں پروفیسر جاوید ملک نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل میں ہندوستان کے کچھ حصوں میں بھی اسی قسم کے زلزلے آسکتے ہیں۔اندیشہ ہے کہ ان کا مرکز ہمالیائی خطہ یا انڈومان نکوبار ہوگا۔زمین پر بڑھتے دباؤ کی وجہ سے اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ میں جو کچھ ہوا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ یہاں کئی جگہوں سے دراڑوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ہندوستان کی زیرزمین صورتحال ترکی جیسی حساس تو نہیں ہے لیکن ہندوستانی پلیٹ کھسک رہی ہے اور ہمالیہ کی اونچائی بڑھ رہی ہے ۔زلزلے کے چھوٹے چھوٹے جھٹکے مسلسل محسوس کیے جارہے ہیں۔ دنیا کو سر جوڑ کر اس کا کوئی حل نکالنا چاہئے ۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر