... loading ...
ہمارے ہاں ہی بلکہ کرہ ارض پر بسنے والے اکثر لوگ اِس بات پر حیرت زدہ اور ششدر ہیں کہ عسکری اعتبار سے دنیا کے دو، سب سے طاقت ور ترین ممالک امریکا اور چین آج کل اپنی اپنی فضائی حدود میں اُڑنے والے رنگے برنگے غباروں کے بارے میں شدید پریشانی سے دوچار ہیں ۔ کیا فضا میں اُڑنے والا صرف ایک غبارہ ، عالمی سپر پاور امریکاکے لیے اِس قدر خطرناک ہوسکتاہے کہ وہ اُسے ’’ہائی سیکورٹی رِسک ‘‘قرار دے کراپنے جدید ترین جنگی طیاروں کو مہلک میزائیلوں سے لیس کر غبارہ کو تباہ برباد کرنے کے لیے بھیجے اور پھرغبارہ کی بروقت اور فوری تباہی کو اپنی بڑی عسکری کامیابی بھی قرار دے ؟۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دو ، تین ہفتوں کے دوران امریکی فضائی حدود میں اُڑنے والے فقط تین غباروں نے وائٹ ہاؤس میں ایسا ماحول پیدا کردیا ہے ،گویا کسی دشمن ملک کی فوج نے واشنگٹن پر اچانک فضائی حملہ کردیاہے ۔ حالانکہ امریکی افواج اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود ،تاحال اِس بات کی شناخت نہیں کرسکی ہیں کہ اُن کی فضائی حدود میں پرواز کرنے والی تینوں مشکوک چیزیں آخر حقیقت میں کیا تھیں ؟،کیسے ہوا میں معلق تھیں ؟،وہ کہاں سے اُڑتی ہوئی آرہی تھیں ؟، اور تباہی کا بعد اُن کا ملبہ کہاں غائب ہوگیا؟ ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کو اُن مشکوک اشیاء کے بارے میں یہ کہہ کر خاموش کروادیا گیا ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ ’’جاسوسی غبارے‘‘ یا پھر کسی دوسری دنیا میں موجود خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجی گئی ’’اُڑن طشتری ‘‘ یعنی یو ایف او ، ہوں۔
واضح رہے کہ امریکا فضائی حدود میں پہلا غبارہ پنٹاگون کے قریب گرا تھا ، جس کے بعد واشنگٹن نے محکمہ خارجہ کے سیکریٹری اینٹونی بلنکن کا دورہ چین منسوخ کر دیا تھا۔جبکہ رواں ماہ ،4 فروری کو امریکی فوج کے ایک لڑاکا طیارے نے جنوبی کیرولینا کے ساحل پر ایک دوسرے مشتبہ چینی جاسوس غبارے کو مار گرانے کا دعوی کیا تھااور بحرہ اوقیانوس میں مذکورہ غبارے کے گرنے والے ملبے کا سراغ لگانے کی ذمہ داری ایک امریکی بحری جہاز کو سونپی گئی ۔جو تادم تحریر، تباہ ہونے والے غبارے کا ملبہ ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہے۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے سفارتی معاملات کو لے کر یہ واقعہ کس قدر سنگین رنگ اختیار کرگیا تھا ،اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ چین کے مبینہ’’ جاسوسی غبارہ‘‘ مارگرانے کے فوری بعد امریکی سیکریٹری دفاع نے اپنے چینی ہم منصب، وائی فینگے سے بات کرنا چاہی تھی مگر چینی وزیر دفاع نے اپنے ہم منصب کے ساتھ بات چیت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ دراصل بیجنگ کا موقف تھا کہ جب واشنگٹن نے بلاکسی تحقیق اور ثبوت کے اپنی فضائی حدود میں مارگرائے جانے والے غبارہ کا الزام چین کے سر تھوپ ہی دیا ہے توپھر دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی ایسی مخدوش صورت حال میں امریکی وزیردفاع سے گفتگو کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
جبکہ رواں ہفتے، تیسرا غبارہ نما ایک نامعلوم سی شئے امریکی فضائیہ کو امریکا اور کنیڈا کی فضائی حدود کے وسط میں دکھائی دی تھی ۔جسے امریکی صدر جوبائیڈن کے حکم پر امریکی فضائیہ کے جدید ترین ایف 16 طیارہ نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر 2 بج کر 42 منٹ پر امریکا،کینیڈا کی سرحد پر واقع جھیل ہورون کے اوپر مار گرایا تھا۔ مذکورہ غبارہ کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس ترجمان کا کہنا تھا کہ’’ یہ غبارہ نما نامعلوم سی چیز جو ساخت میں آکٹونل (8 کونوں والی) دکھائی دیتی تھی اور جس میں تاریں بھی لٹکی ہوئی تھیں مگر ان سے بظاہر کچھ لٹکا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ یہ غبارہ فضا میں 20 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا، جو امریکی فضائیہ کے لیے تو کسی قسم کے خطرے کا باعث تو نہیں بن سکتی تھی لیکن یہ کمرشل ائیر ٹریفک کے راستے میں مداخلت کر سکتی تھا۔ لہٰذا، اسے امریکی فضائیہ کی جانب سے فوری طور پر تباہ کردیا گیا‘‘۔
دوسری جانب چین نے بھی جواب آن غزل کی صورت میں امریکا پر الزام عائد کیا ہے امریکا نے جنوری 2022 سے لے کر اب تک چینی خلائی حدود میں کم ازکم 10 جاسوسی غبارے بھیجے ہیں۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ’’دوسرے ممالک کی خلائی حدود میں غیرقانونی طور پر داخل ہونا امریکا کے لیے کبھی کوئی غیرمعمولی عمل نہیں رہا ہے‘‘۔وائٹ ہاؤس نے چین کے الزامات یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ چین کا کوئی بھی ایسا دعویٰ جھوٹا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت چینی فضائی حدود میں جاسوسی غبارے بھیج رہا ہے، تاہم وہ چین ہی تھا جس نے خفیہ انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے لیے اونچائی پر نگرانی کرنے والا ’’جاسوسی غبارہ‘‘ امریکی فضائی حدود میں بھیجا ‘‘۔
یہاں ایک عام سے آدمی کو جو بات سب سے زیادہ پریشانی اورفکرمندی میں مبتلا کررہی ہے وہ یہ ہے کہ جب امریکا اور چین کے پاس زمین کی پاتال سے لے کر خلا کی وسعت تک جاسوسی کرنے کے جدید ترین آلات موجود ہیں تو پھر آخر دونوں ممالک کو غباروں سے ایک دوسرے کی فضائی جاسوسی کرنے کی آخرکیا ضرورت ہے؟۔دراصل جدید جاسوسی آلات میں جہاں بے شمار خوبیاں ہیں ، وہیں اُن میں کئی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں ، جن میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ جدید جاسوسی آلات کو کسی دوسرے زیادہ بہتر جاسوسی آلہ کی مدد سے تلاش کرکے باآسانی ناکارہ بنایا جاسکتاہے۔ اس لیے امریکا اور اور چین ایک دوسرے کی جدید ٹیکنالوجی کو دھوکا دینے کے لیے فضائی جاسوسی کے صدیو ںپرانے قدیم طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔ یاد رہے کہ آج سے سو سال قبل تمام ممالک اپنے ملک کی جاسوسی کے لیے ’’جاسوسی غبارہ ‘‘ کا عام استعمال کرتے تھے اور جب ابھی غبارہ بھی ایجاد نہیںہوا تھا تو پتنگ کو حریف ریاست کی جاسوسی کے لیئے بروئے کار لایا جاتاہے ۔
جی ہاں ! دنیا میں پہلی پہلی بارپتنگ کی ایجاد محض تفریح طبع یا ’’بسنتی تہوار‘‘ منانے کے لیے نہیں بلکہ فوجی مقاصد اور دشمن کی جاسوسی کے لیے کی گئی تھی۔ جس کا قصہ کچھ یوں زبان زدِ عام ہے کہ سینکڑوں سال پہلے کوریا میں فوجی سپاہ نے عین دورانِ جنگ آسمان پر ایک تارا ٹوٹتے دیکھا اور اسے بُرا شگون سمجھتے ہوئے میدان جنگ سے فرار کا راستہ اختیار کر لیا ،سپہ سالار نے اپنی فوج کا وہم دور کرنے کے لیے اپنے سپاہیوں کو بہت سمجھایا بجھایا لیکن کوڑھ مغز وہمی سپاہی مان کر نہ دیئے ۔آخر سپہ سالار کے ذہنِ رسا نے ایک ترکیب سوچی ۔ اس نے ایک بڑی سی پتنگ تیار کی اور اس کی دُم سے ایک شعلہ باندھ کر رات کے اندھیرے میں اسے اُڑایا تو فوج کو یقین آگیا کہ آسمان سے جو تارا ،ٹوٹا تھا وہ واپس آسمان کی طرف لوٹ گیا ہے اور یوں شکست خوردہ کوریائی فوج ظفر موج دوبارہ سے جنگ لڑنے پر آمادہ ہوگئی ۔اس ایک واقعہ کے بعد پتنگ کو تو جیسے ایک جنگی ہتھیار سمجھ لیا گیا اور اسے فوجیں متواتر اپنے ’’جنگی استعمال‘‘ میں لینے لگیں، مثلاً دشمنوں کی جاسوسی کرنا ،اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پیغام رسانی کرنااور اپنے ساتھیوں کو اپنی پوزیشن بتانے کے لیئے پتنگ اُڑانا اور حد تو یہ ہے کہ جنگوں میں چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ پتنگ کے ذریعے ہی پہنچائے جاتے تھے ۔ چونکہ جدید دنیا جاسوسی کے آلات کی بے اعتباری سے تنگ آکر جاسوسی کے قدیم روایتی طریقوں کی جانب بڑی تیزی کے ساتھ راغب ہورہی ہے تو عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں بہت جلد آپ امریکا اور چین کی فضائی حدود میں ’’جاسوسی پتنگ‘‘ کے اُڑنے اور مارگرانے کی خبر بھی سنیں ۔ شاید دنیا ایٹمی جنگ کی ہولناکی سے گھبرا کر ’’بیلون وار ‘‘ اور ’’کائٹ وار ‘‘ کے قدیم دور میں واپس لوٹنا چاہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭