... loading ...
اندریں پریشانیاور مسائل ضرور ہیں کہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو استراحت سے بیدار ہوئے ہیں اورذومعنی گفتگو کرنے لگے ہیں۔11فروری کو دن میں چند آفسروں کے ساتھ اجلاس کیا اور راض داری کی باتیں کیں،۔ پھر شام چھ بجے ذرائع ابلا غ کو نمائندوں کو طلب کرلیا۔ ان کے سامنے طویل باتیں رکھ لیں۔ اخبارات اور ٹی وی کے نمائندے اکتھا سے گئے ۔صحافی دوران گفتگو ہی سوال کرتے، یہ سلسلہ بہت طویل رہا ۔ لگا کہ جیسے اپنی کارکردگی یا کار ہائے نمایاں پیش کرنا چارہا ہو۔کہ ہنوز کسی متبادل کی ضرورت نہیں۔ کہا کہ کمزور نہیں کہ استعفا دوں اور استعفا نہیں دونگا ۔ آخرتک جائوں گا۔ اگر کسی نے نکال دیا تو وہ الگ بات ہے۔ ایک وزیراعلیٰ کو زمین کے مجازی خدا اراکین اسمبلی ہی نکال سکتے ہیں۔ ‘‘اگر کچھ نہ ہوتا تو عبدالقدوس بزنجو یہ کیوں کہتے کہ مجھے نہیں پتا کہ آج بات کرنے کے بعد اپنی کرسی پر رہوں گا یا نہیں۔‘‘ اور اقرار و انکشاف کے معنوں میں گویا ہوئے کہ ’’ماضی میں نواب ثناء اللہ زہری اور جام کمال کی حکومتیں کسی اور نے گرائیں لیکن استعمال ہمیں کیا گیا‘‘اس جملے کے بعد تو مطلع صاف ہوتا ہے کہ بزنجو مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔بلاشبہ انہیںتکلیف سردست اپنے لوگوں ،کابینہ اور اراکین سے ہے ۔ دیکھا جائے تو عبدالقدوس بزنجو اس منصب کے لیے قطعی موزوں نہیں ہے۔ یہ ان کی خوش قسمتی اور صوبے کی بد قسمتی ہے کہ دو بار اس اعلیٰ اور مدبر منصب پر بٹھائے گئے۔ صوبے کی ہتک ہوئی ہے۔
سول بیورو کریسی کے اندر خرابیاں سرایت کر گئیں۔ اہلیت پر نا اہلیت کو فوقیت ملی ہے۔ تعیناتیاں سیاسی بنیادوں پر مزید عام ہوئیں۔ وزراء شاہی بلکہ ان کے ساتھ اپوزیشن شاہی من مانیوں میں کلی آزاد ہے۔ گویاصوبہ ہر لحاظ سے درگت کا شکار ہے۔ اس جملہ گٹھ جوڑ نے صوبے اور عوام کا استحصال کر رکھا ہے۔ مالی بحران ہے۔ ان کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کی رقم نہ تھی جبکہ برعکس وزراء شاہی و اپوزیشن شاہی کو خوش رکھنے کی خاطر وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ نے دہی اور شہری ترقی پروگرام کے تحت 2ارب روپے جاری کردیئے ۔ جونری خلاف قانون ہے۔ موجودہ ترقیاتی بجٹ کے ضمن میں تقریباً100ارب روپے سے زائد فنڈز محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات اور محکمہ خزانہ نے جاری کیے ہیں مگر ان اسکیموں پر پیشرفت انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ تادم تحریر بہ مشکل 33ارب خرچ کئے جاچکے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ2022-23کا کل حجم195.5ارب روپے ہے چناں چہ اگر محض33ارب روپے خرچ ہوسکے ہیں تو یہ رفتار ظاہر کرتا ہے کہ رواں سال بہت ساری اسکیمیں نامکمل رہ جائیں گی۔ لا محالہ فنڈز سرنڈر ہوں گے یا پھر لپیس ہوہوجائیں گے۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں بعض فیصلوں کے خلاف اسٹے آڑڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کا عبدالقدوس بزنجو میڈیا سے گفتگو میں ذکر کرچکے ہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ عدالت عالیہ نے آنکھیں بند کرکے اسٹے آرڈر جاری نہیں کیے ہیں۔ مثال کے طور پر BPPRAنے ترقیاتی منصوبوں پر عمل در آمد کو شفاف بنانے کی خاطر ٹینڈر کے نظام یا طریقہ کار کو الیکٹرانک کروایا جس کو صوبے کی کابینہ نے باضابطہ طور پر منظوری بھی دے دی تھی ۔ بعد میں ٹھیکیدار مافیا نے اراکین اسمبلی اور وزراء شاہی کو الیکٹراک سسٹم کے نقصانات سے آگاہ کردیا کہ اس کے نفاذ سے دھندے بند ہوجائیں گے ۔اگر یہ نظام عمل پذیر ہوتا توبڑی کمپنیاں آگے آتی اور میرٹ کی بنیاد پر ٹھیکے دیئے جاتے۔ یوں عبدالقدوس بزنجو نے ای پروکیورمنٹ پر عملدرآمد روک دیا۔ جس کے خلاف ساکھ رکھنے والے ٹھیکیدار اور فرمز نے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔ اور عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یقینی طور یہ ایسے فیصلوں کے خلاف سپریم کورت جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں جو عوامی مفاد کی بجائے گروہی مفاد کے حامل ہی ہیں۔ الغرض فی الواقع اگر تبدیلی کوئی چا بھی رہا ہو تو اس کے عمل پذیر ہونے کے آثار و امکانات دکھائی نہیں دیتے ۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے وہ اراکان جو وزیراعلیٰ کے ساتھ ہیں، اتحادی اورحزب اختلاف کے وارے نیارے ہیں۔ وہ کیوں کر بہتر انداز میںچلتے اپنے معاملات خراب کریں گے ۔صوبے کو اگر مالی مشکلات کا سامناہے تو حکومتی اور حزب اختلاف وا لے اراکین پی ایس ڈی پی سے مستفید ہو ہی رہے ہیں ۔باقی معالات سے الگ شقم پوری ہورہی ہے۔ اور یہ سارے گورگھ دھندے قانون ، آئین اور جمہوریت کے خوبصورت نام لے کر کئے جاتے ہیں۔سیف سٹی منصوبہ اگر تشنہ ہے تو قصور وار کسے ٹھہرایا جائے؟۔ جب حکومت سورہی ہو تو منصوبے کی لاگت 2ارب سے بڑھ کر9ارب ہونا ہی تھی۔ اتنے پست سوچ ہیں کہ ریکوڈک پر کام کرنے والی کمپنی نے75کروڑ کا چیک تھمادیا تو سب نے خوشی کے شادیانے بجانے شروع کردیے ۔ عبدالقدوس بزنجو نے گریڈ پانچ سے ملازمتوں کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے پر کرنے کی بات کی ہے۔ اچھی بات ہے اگر ایسا ہو، کچھ نہ کچھ تو حق حقدار کو ملنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔ مگر کیا وزراء شاہی اس کی اجازت دیں گے؟ ہونا تو یہ چاہے کہ جو ٹیسٹ و انٹرویو اب تک ہوچکے ہیں کو کینسل کراکر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے دوبارہ کرائے جائیں ۔ پبلک سروس کمیشن کے اندر بھی شفافیت لازم ہے۔کیوں کہ ماضی میں کمیشن پر داغ لگ چکے ہیں۔پبلک سروس کمیشن کے ذریعے تعیناتیوں کی بات سیاسی وار ہی لگتا ہے۔نہ قلیل عرصہ میں عمل کرانا مشکل لگتا ہے۔اگر نیت شفافیت لانا ہے تو سرکاری خریداریوں اور ٹھیکوں کو الیکٹرانک نظام کی مخالفت کیوں کی گئی؟۔اس حقیقت میں کلام نہیں کہ چھوٹی بڑی ملازمتون کی فروخت ہوتی ہے اس میں وزراء شاہی ، افسر شاہی دونوں ملوث ہیں۔ حکومت نے ترکیہ اور شام کے زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے فنڈز کا اعلان کیا ہے ۔ حیا ہوتی تو پہلے صوبے کے سیلاب متاثرین کی داد رسی کرتے۔ کوئٹہ کے اندر متاثرین اب تک راہ تھک رہے ہیں۔ کوئٹہ کے اندر بہہ جانے والی عمارتوں اور سڑکوں کی تعمیر کے لئے ایک اینٹ تک نہیں رکھی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ ہائوس سے چند میٹر کے فاصلے پر ریلوے ریسٹ ہائوس کے سامنے زرغون روڈ پر پڑنے والا گڑھا پر نہ ہوسکا ہے۔ اور سیمنٹ کے بلاک رکھ کر کام چلایا جارہا ہے۔ سیمنٹ کے یہ بلاک بھی گاڑیوں کے گڑھے میں گرنے کے واقعات کے بعد رکھے گئے۔ اور یہ چلے ہیں ترکیہ اور شام کے متاثرین کی امداد کرنے۔ میٹرو پولیٹن کے مستقل اور عارضی ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ہیں۔ کارپوریشن کی گاڑیوں کے لیے پٹرول نہیں ہے ۔ شہر میں صفائی کا کام رک چکا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ میٹرو پولیٹن کارپوریشن ویسے بھی شہر کو برباد کرنے والا ادارہ ہے۔ جس نے شہر کی بربادی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔