... loading ...
پشاور میں دھماکے سے پہلے پاکستانی عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم پھٹا تھا، پیٹرول کی قیمت میں
ایک ہی دن میں 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا ، اس سے پہلے کہ عوام اس پر احتجاج کرتے،
ملک میں شور مچتا، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا پر خبروں کا طوفان آتا، پشاور میں جمعہ کی
نماز میں بم دھماکہ ہوگیا، پھر کسی کو یہ یاد بھی نہ رہا کہ ملک کی عوام پر مہنگائی کا بم پھٹنے
سے لاکھوں لوگ موت آنے سے پہلے مر گئے ہیں، ان کے جسموں کے چیتھڑ ے فضا میں اڑ رہے
ہیں، ان کے جسم کے خون کے قطرے ہر چیز پر جمے ہوئے ہیں، اور ان کی لاشیں نوچنے والے
گدھ،آئی ایم ایف کے ہرکاروں کی صورت میں ملک کے کروڑو عوام کا گلا دبانے اور ان کا گوشت
نوچنے کے لیے موجود ہیں۔برسوں سے ملک کی سیاست اور میڈیا منیجمنٹ کے منیجروں نے ایک
نئی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، جب حکومت کی جانب عوام کا غم و غصہ اور غیض و غضب
بے قابو ہو تو اس کا رخ کسی اور طرف موڑ دو، کوئی ایسا بڑا سانحہ، حادثہ، واقعہ ہوجائے، جو
اس اصل معاملے سے عوام کی توجہ ہٹا دے۔ یہ سانحہ، حادثے، اور دھماکے کرنے والے کبھی
بلیک واٹر، کبھی داعش، کبھی طالبان، کبھی را کے ایجنٹ، کبھی تحریک طالبان، بن کر اس کی ذمہ
داری قبول کرلیتے ہیں، تفتیشی ادارے ان دھماکے کے ملزمان تک نہ صرف پہنچ جاتے ہیں، بلکہ
جائے وقوع سے ملزمان کی سم، اور جسمانی اعضا بھی برآمد کرکے ان کی ڈی این اے کراکے
سارے گینگ کو پکڑ لیتے ہیں، پھر یہ بھی کمال ہوتا ہے کہ کسی برس کی تحقیق، تفتیش، مقدمے،
عدالتی کاروائی کے بعد یہ ملزمان بری بھی ہوجاتے ہیں۔یہ کھیل صرف پاکستان ہی میں ہوسکتا ہے۔
اور ہم بار بار اسی کھیل کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اس پر کوئی توجہ بھی نہیں دیتے، ہمارے
میڈیا پر ہونے والے شو اس کا ذکر بھی نہیں کرتے، اینکرز کی زبانیں ، ان موضوعات پر خاموش
ہوجاتی ہیں۔
مجھے یہ سب ناصرالدین محمود کے منتخب کالموں کے مجموعہ جموریت ہی راستہ ‘‘ پڑھ کر یاد
آیا۔ اپنی تخلیق کے بعد سے پاکستان سیاسی سماجی اور معاشی نظام کو فطری ارتقاء کے اصولوں
کے مطابق آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے۔ اس راہ میں بڑے بڑے انقلاب آئے، ملک کے دو
منتخب ورزائ اعظم قتل کردیئے گئے، تین بار ملک میں مارشل لاء لگا۔ منتخب وزراء اعظم کو
اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے روکا گیا۔ جموریت کے جسم پر جو زخم بار بار لگا ئے گئے، جبر
کے جو راستہ مسلط کیے گئے، بے رحمی کے جو ضابطے تشکیل دیے گئے، اس سے اس قوم کی
جان نکل گئی ہے، یہ ایک بے روح لاشہ ہے، جو ہر جور وستم کی عادی ہوچکی ہے۔ ناصر الدین
محمود ایک سیاسی کارکن ہیں، جو جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں، ان کے مضامین ملک کے
بڑے اخبارات میں شائع ہوئے، اور انھوں نے تسلسل سے ان معاملات پر لکھا ہے، ان کے مضامین
میں ایک گہرائی ہے، اور سرسری تبصرے سے گریز کرتے ہوئے تفصیل اور مسائل کی جڑ تک
پہنچنے کی کوشش کی ہے، وہ معاشی بحران، سیاسی معاملات، اندرونی اور بیرونی سازشوں،
امریکہ کی چالاکیاں ، عالمی اداروں کی بے وفائی اور لوٹ مار کے تمام واقعات کو ان کے سیاہ
سباق کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔ ناصر الدین محمود کی یہ کتاب مجھے فضلی سنز کے طارق
رحمن کے توسط سے ملی، اور ہمارے دوست عبدالستار شیخ نے جو سیاست کے میدان میں تبدیلی
کا خواب دیکھتے رہتے ہیں، اور اب بھی ایک نئے سیاسی جماعت بنا کر عام آدمی سے ایک
انقلاب کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔انھوں نے بھی اس کا تذکرہ کیا۔ پاکستان میں ایسے سیاسی کارکن کم
ہیں، جو ملک کے اہم مسائل پر غور وخوص کرتے ہیں، بلکہ ان پر قلم بھی اٹھاتے ہیں۔ اور سیاسی
وابستگی سے بالاتر ہوکر اپنی رایے کا اظہار کرتے ہیں۔یہ کتاب سیاسی کارکنوں کے لیے ایک
ریفرنس کا درجہ رکھتی ہے۔جس سے انھیں فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
حیدرآباد نے شعر و ادب کی دنیا میں ، قابل اجمیری ، حمایت علی شاعر، پروفیسر عنایت علی خان،
جیسے نابعے پیدا کیے۔شعر و ادب کی محفلیں اس شہر کی جان ہیں، یہ محفلیں گاہے بگاہے آج بھی
منعقد ہوتی ہیں، رابطہ کے پلیٹ فارم سے ہمارے دوست امین جالندھری یہ تقریبات منعقد کرتے
ہیں۔ امین جالندھری ایک اچھے افسانہ نگا ر ہیں، ان کے افسانوں میں تخیل کی ندرت شامل ہے۔ میں
انھیں پیار و محبت میں ;باباکہتا ہوں۔ بابا امین جالندھری ہمارے سٹی کالج کے بابا ہیں۔ ہم نیان
کی سیاست دیکھی ہے۔ کتنے ہیرے تراشے حمید فاروقی منور ، عبدالجبار، اور اجرک اوڑھے ہوئے
بابا۔ بابا جادوگر ہے۔ اپنی چادر کے بکل سے نئے نئے شعبدے نکال لاتا ہے۔ اور حیران کرجاتا ہے۔
گزشتہ ایک سال سے بابا میرا پیچھا کررہا ہے۔ بابا امین جالندھری کی ایک ادبی انجمن ہے۔ رابطہ
حیدرآباد میں اس کے پروگراموں کی دھوم ہے۔ شاعر ادیب کوئی بھی ہو رابطہ کے ربط میں رہتا ہے۔
ان کی دو کتابیں ،حرف حرف روشنی‘‘t; مضامین کا مجموعہ اور’’حرف حرف کہانی‘‘ حال ہی میں
منظر عام پر آئی ہیں۔ حرف حرف روشنی میں انھوں نے اپنے دوستوں ساتھیوں کو جس طرح یاد کیا
ہے، وہ دل پر اثر کرتا ہے، صابر ذوقی، مضطر ہاشمی،کے قصے،شہر کے ادبی معرکے، اس کتاب
میں رقم ہیں۔ ان کی کتاب ‘‘; حرف حرف کہانی‘‘ میں 30 افسانے ہیں، بہت ہی کمال کے افسانے، جن
کی شہرت اب بھارت تک پہنچ گئی ہے۔ میں نے اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو ایک کے بعد ایک
کہانی حیرت کے باب کھولتی گئی۔ ’’;حرف حرف کہانی‘‘; کی پہلی کہانی نے ہی دماغ کی بتی گھمادی۔
یہ بابا تو واقعی بابا ہے۔ کچھ انوکھی نگری کا مسافر اسے بابوں سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔
اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی کے بابے اسرار و رموز کے گورگھ دھندے ایک انجانی دنیا
کے مسافر۔ امین جالندھری کے افسانے’’; موڑ کا سجاد،چک گ ب ‘‘کا نور الدین، یا خمار
کی ماروی یا مسافر کے فضل خان سب ہمارے معاشرے کے عام سے کردار ہیں۔ لیکن امین جالندھری
نے اپنے قلم سے انھیں ایک ایسے قالب میں ڈھال دیا۔ جو ہمیں ایک اور دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ اس
کائنات کا۔نظام چلانے والے نے کس کس کو کہاں کہاں ڈیوٹی سونپی ہوئی ہے۔ یہ کس کس بھیس میں
ہمیں نظر آتے ہیں۔ جانے نظر آتے بھی ہیں یا نہیں۔ابھی میں ان افسانوں کے سحر میں ڈوبا ہوا ہوں۔
حرف حرف کہانی کے افسانے ان تما م لوگوں کو دعوت مطالعہ دے رہے ہیں جو ادب میں جمود یا
نئے خیال نہ ہونے کاشکوہ کرتے ہیں،افسانوں کی ملک گیرپیمانے پرپذیرائی ہونی چاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔