... loading ...
گذشتہ دو تین ماہ سے اپوزیشن، حکومت اورماہرین ِ معیشت ایک ہی بار تواتر سے کہے جارہے ہیں کہ پاکستان پر کڑا وقت ہے ملک ڈیفالٹ کرسکتاہے اس کے باوجودکسی کو حالات کی سنگینی کااحساس نہیں سب کو اپنی اپنی سیاست کی پڑی ہوئی ہے IMFہماری مشکیں کس رہاہے لیکن ہم تو خودگھر آگ لگاکر تماشہ دیکھنے والی قوم بنے بیٹھے ہیں نوید ہوکہ ان سخت حالات میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان طے پا چکاہے اب پاکستان نے نومبر 2023 تک بجلی سہ بنیادوں پر مہنگی کرنے کا پلان دے دیاگیاہے۔ حکومت بجلی 7.91 روپے فی یونٹ مہنگی کرے گی یعنی قرضہ ملنے پر حکمران محوِ رقصاں ہیں اور اسے اپنی زبردست کامیابی قرار دے رہے ہیں جو مرے کو مارے شاہ مدارکے مصداق ہے ،فروری تا مارچ تک پہلی سہ ماہی میں 3.21 روپے فی یونٹ مہنگی کی جائے گی مارچ تا مئی دوسری سہ ماہی میں بجلی مزید 0.69 روپے فی یونٹ مزید مہنگی ہوگی جون تا اگست تیسری سہ ماہی میں بجلی کے ریٹ مزید 1.64 روپے فی یونٹ بڑھائے جائیں گے۔ ستمبر تا نومبر چوتھی سہ ماہی میں بجلی کے فی یونٹ ریٹ میں 1.98 روپے کا مزید اضافہ ہوگا کسان پیکج کے تحت بجلی کی سبسڈی یکم مارچ سے ختم کرنا ہوگی۔ جس سے 65 ارب روپے کی بچت ہوگی اس پر تبصرو کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان کاکہناہے کہ جس معاہدے پر ہم عمل کررہے ہیں وہ عمران خان نے اپریل 2019ء میں کیا تھا لیکن واقفان ِ حال کا موقف ہے کہ توقع کے برخلاف پاکستان او رآئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ نہیں ہوسکا، پاکستان کو پہلے IMF کی شرائط پر عمل کرنا ہوگا اس کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ ہوگا، آئی ایم ایف پاکستان کو غیرملکی فائنانسنگ کنفرم ہونے کے بعد ہی اسٹاف لیول معاہدہ کرے گا، حکومت فلڈ لیوی لگانے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے،IMF سے بہت سے معاملات پر بات ہوچکی ہے، ایک دو معاملات رہ گئے ہیں جس کے حتمی اعداد و شمار پر کام ہونا ہے دس دن میں آئی ایم ایف سے بہت سنجیدہ مذاکرات کئے ہیںIMF کا موجودہ پروگرام عمران خان کی زہریلی میراث ہے، جس معاہدے پر ہم عمل کررہے ہیں وہ عمران خان نے اپریل 2019ء میں کیا تھا IMF کا اصرار ہے کہ 2019ء کی شرائط پر ہی معاہدہ ہوگا۔
خرم دستگیر خان نے کہا کہ فروری 2022ء کے معاہدے کے بھی عمران خان نے چیتھڑے اڑادیئے ہیں، فروری 2022میں عمران خان نے دو بڑی سبسڈیز دیں،روپے کی قدر سے متعلق بھیIMF 2019ء کے معاہدے پر کرنے کا کہہ رہا ہے، حکومت نے سخت ترین اقدامات مفتاح اسماعیل کے دور میں کرلئے تھے، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ پچھلے سال جولائی میں کردیا تھا، ملک میں مہنگائی کا تعلق روپے کی گرتی ہوئی قدر سے ہے، ہم نے یہ مہنگائی کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی بہت سے ممالک پیسے دینے کیلئےIMF پروگرام کا انتظار کررہے ہیںIMF پروگرام کے بعد تین چار سورسز سے سپورٹ ملنے کی امید ہے، بجلی کے بنیادی ٹیرف میں تبدیلی نہیں کی جارہی پچھلے برسوں کے مؤخر شدہ محصولات وصول کیے جائیں گے، 300سے کم یونٹس بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے ٹیرف نہیں بڑھے گا سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ایم ایف پاکستان کو غیرملکی فائنانسنگ کنفرم ہونے کے بعد ہی اسٹاف لیول معاہدہ کریگا، حکومت فلڈ لیوی لگانے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے پراپرٹی ٹرانزیکشن اور بڑی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز ہے، جی ایس ٹی بڑھا کر18فیصد کرنیکی تجویز بھی زیرغور ہے جس سے بجلی کی قیمت میں ساڑھے 5روپے سے 9روپے فی یونٹ اضافہ ہوگا ان حالات کے تناظرمیںسابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشانے خطرے کی گھنٹی بجا تے ہئے ہوئے کہا ہے کہہ ستمبر کے بعد سے ریفارمز نہیں کیے گئے۔
اسٹاف لیول معاہدہ صرف تب ہوگا جب ہم لیٹر آف انینٹے میں وعدہ کیے گئے ریفامز کو مکمل کریں گے ہمارے پاس اب گھنٹوں اور دنوں کا وقت رہ گیا ہے۔ فوری طور پرIMF کی شرائط پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ ہمارے پاس اب گنجائش نہیں۔ اگر ہم نے مزید التواء کیا تو ہمارے ذخائر مزید کم ہوجائیں گے اور ہم دیوالیہ ہونے کی سطح پر پہنچ جائیں گے جبکہ سابق وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ فوری طور پر اIMF کی شرائط پر عملد آمد کرنا ہوگا اب گنجائش نہیں ہے، پاکستان اور IMF کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، پاکستان نے جو اصلاحات ستمبر میں لکھ کر دی تھیں انہیں نافذ کرناچاہئے، افسوس کی بات ہے ستمبر کے بعد سے اصلاحات کا نفاذ بالکل نہیں ہوا، حکومت نے یقین دہانی کے باوجود ایکسچینج ریٹ پالیسی تبدیل کی، اسٹاف لیول معاہدہ اسی وقت ہوگا جب اصلاحات ہوں گی،پاکستان کو منی بجٹ سمیت دیگر اصلاحات فوراً نافذ کرنا ہوں گی۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ گھنٹوں اور دنوں کی بات ہے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے،جلد اصلاحات نہ کیں تو ملک دیوالیہ ہونے کی طرف چلا جائے گا IMF کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر فوراً عمل کیا جائے، کوشش کریں اس مہینے کے تیسرے ہفتے تک سب کچھ ہوجائے IMF سے معاہدہ ہوگیا تو دوست ممالک سے بھی پیسے آجائیں گےIMF کے ساتھ دسواں اور گیارہواں ریویو ہوگیا تو مشکلات آہستہ آہستہ حل ہونا شروع ہوسکتی ہیںIMF چاہتا ہے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائرآئندہ ایک سال میں پندرہ سولہ ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں، پاکستان کو دسویں اور گیارہویں ریویو کے دوران قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ شروع کرنا ہوگی، ایکسپورٹس میں اضافہ اور امپورٹس میں نمایاں کمی ہوتی ہے تو پاکستان پھر سانس لینا شروع ہوجائے گا بہرحال IMF سے معاہدہ ہو نہ ہو یہ بات یقینی ہے کہ عوام کے لیے کہیںسے بھی کوئی اچھی خبرنہیں آرہی بجلی،گیس،پٹرولیم مصنو عات ،ادویات،بسوں،ہوائی جہاز اور ٹرینوںکے کرایہ میں اضافہ ہونا لازم ہوگیاہے منی بجٹ میں 200ارب کے نئے ٹیکسز لگانے کا سیدھا سادہ مطلب یہ بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں گرانی اس قدر ہوگی کہ جینا بھی گراں ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔