... loading ...
وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے سماج کے محروم طبقات کا معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔وزیرخزانہ کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس کا اعادہ کیاہے۔لیکن اسے کیا کہا جائے کہ اس بجٹ سے سب سے زیادہ مایوسی سماج کے اسی طبقہ کو ہوئی ہے جو محرومی اور پسماندگی کی دلدل میں دھنساہوا ہے۔ یہ طبقہ یوں تو عرف عام میں اقلیت کہلاتا ہے،لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اقلیت کا مفہوم وہ مسلمان ہیں جنھیں موجودہ سیاسی نظام میں حاشیہ پر پہنچادیا گیا ہے۔اقلیتی امور کی وزارت ایسی واحد وزارت ہے جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے میں کسی حدتک معاون سمجھی جاتی ہے۔ اس وزارت کاقیام دراصل سچرکمیٹی کی اس رپورٹ کے بعد عمل میں آیا تھا جس میں مسلمانوں کو اس ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ اس پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت اجاگر کی گئی تھی۔ اسی ضرورت کے پیش نظر یوپی اے سرکار نے اقلیتی امور کی وزارت قایم کی اور اس کو خاطر خواہ بجٹ فراہم کیا گیا۔ یوپی اے کے دور حکومت میں اس وزارت کی کارکردگی خاصی اطمینان بخش رہی۔نہ صرف یہ کہ اقلیتی طبقوں کے طلباء کا تعلیمی معیار بلند کرنے کے لیے وظیفے جاری کئے گئے بلکہ اقلیتی آبادی کے غلبہ والے شہروں میں نئے اسکول کھولے گئے۔اقلیتی فرقہ کے دستکاروں اور ہنرمندوں کی استعداد کو فروغ دینے کے اقدامات کئے گئے، لیکن جوں ہی مرکز میں سرکار تبدیل ہوئی تو اس وزارت کے بال وپر کترنے شروع کردئیے گئے۔ اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ یہ وزارت اپنے آخری دن گنتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس کا عکس اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں کی گئی حالیہ کٹوتی کے پس منظر میں صاف نظر آتا ہے۔
اقلیتی بہبود کے بجٹ میں معمولی کٹوتی نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کو لگ بھگ آدھا کردیا گیا ہے۔یہاں تک کہ اس بجٹ میں اقلیتی بہبود کی بعض اسکیموں میں 90فیصد سے زیادہ کی کٹوتی کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی حکومت کا طرزعمل ہے جوبلا تفریق مذہب وملت سب کے ساتھ انصاف کرنے کا دعویٰ کرتی ہے اور جس نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا بلند بانگ نعرہ بھی فضا میں اچھال رکھا ہے۔اتنا ہی نہیں حکمراں جماعت آج کل جس منصوبہ پر کام کررہی ہے، اس میں پسماندہ مسلمانوں کو اپنے قریب لاکر انھیں اپنا ووٹ بینک بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔2024کے عام انتخابات کے لیے بی جے پی نے پسماندہ مسلمانوں کو رام کرنے کی جو حکمت عملی تیار کی ہے، اس میں ان تمام لوک سبھا حلقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 30فیصد سے زائد ہے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ ان حلقوں میں پسماندہ مسلمان وزیراعظم نریندر مودی کے ان کا رناموں کا قصیدہ پڑھیں جو انھوں نے مسلمانوں کے لیے انجام دئیے ہیں، لیکن عملی طورپر بی جے پی حکومت مسلمانوں کو ان بنیادی حقوق سے بھی محروم کرنے پر کمربستہ ہے، جن کی ضمانت دستور میں دی گئی ہے۔
بی جے پی سرکار مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبائ کے لیے میرٹ کم مینس اسکالر شپ میں 87 فیصد کی بھاری کمی کی گئی ہے اور اس کے لیے محض 44کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں یہ رقم 365کروڑ روپے تھی۔اسی طرح مدرسوں اور اقلیتی تعلیم کافنڈ 160کروڑ سے گھٹاکر 10کروڑ کردیا گیا ہے۔ اس طرح مدرسوں اور تعلیم کے فنڈ میں 93 فیصد کی بھاری کمی کی گئی ہے۔ اس پر اونٹ کے منہ میں زیرہ والی کہاوت صادق آتی ہے۔اس سنگین صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے درست ہی کہا ہے کہ’’شاید مودی نہیں چاہتے کہ اقلیتوں کے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے سرکاری اقدامات کئے جائیں۔ان کے لیے سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ جیسے نعرے ہی کافی ہیں۔‘‘ اویسی نے یہ بھی کہا کہ’’اقلیتی امور کی وزارت بڑے بحران سے گزررہی ہے، اسی لیے شاید اس کے بجٹ میں چالیس فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔‘‘
آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں جب اقلیتی امور کی وزارت نے مولانا آزادنیشنل فیلو شپ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس پر چوطرفہ تنقید ہوئی تھی اور وزیرخزانہ نرملا ستیا رمن نے اس اسکالر شپ کو ختم نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن بجٹ میں اس وعدے کو بالکل نظرانداز کردیا گیا۔ مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ اسکیم دراصل ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے ان اقلیتی طلبائ کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی جنھیں مالی دشواریوں کے سبب اعلیٰ تعلیم کے حصول میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اس اسکیم سے کافی طلبائ فیض یاب بھی ہوئے تھے، لیکن اسے آن واحد میں ختم کردیا گیا۔بجٹ پیش ہونے کے دوسرے دن جب اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے اس اسکیم کو بحال کرنے سے صاف انکار کردیا۔ ایک تحریری سوال کا جواب دیتے ہوئے اسمرتی ایرانی نے لوک سبھا میں کہا کہ چونکہ اقلیتوں کے لیے پہلے سے ہی کافی اسکیمیں چل رہی ہیں، جو مولانا آزاد فیلو شپ اسکیم سے ٹکراتی ہیں، لہٰذا اس اسکیم کو بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے گزشتہ یکم فروری کو لوک سبھا میں 45لاکھ کروڑ روپے کا جو بجٹ پیش کیا ہے، وہ پچھلے بجٹ کے مقابلے میں ساڑھے پانچ لاکھ کروڑ روپے زیادہ ہے۔ اس بجٹ میں ہمیشہ کی طرح سب سے زیادہ رقم دفاعی میدان کے لیے مختص کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ ریل بجٹ میں کیا گیا ہے، لیکن سب سے زیادہ کٹوتی اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں کی گئی ہے۔اس وزارت کا بجٹ گزشتہ مالی سال کے دوران پانچ ہزار کروڑ روپے تھا، لیکن حالیہ بجٹ میں یہ رقم گھٹاکر تقریباً تین ہزار کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ یعنی اس بجٹ میں تقریباً چالیس فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ مرکزی بجٹ 24۔2023میں اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کے لیے میرٹ کم مینس اسکالر شپ میں 44فیصد کی بھاری کمی کی گئی ہے اور اس کے لیے محض 44کروڑ روپے الاٹ کئے گئے ہیں۔گزشتہ بجٹ میں اسکالر شپ اسکیم کے لیے 365 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے۔مدرسوں کی جدیدکاری اور تعلیم کا فنڈ160کروڑ سے گھٹاکر محض دس کروڑ کردیا گیا ہے۔ یعنی اس میں پورے150کروڑ روپوں کی کٹوتی کی گئی ہے۔ مرکزی بجٹ میں اقلیتوں کے لیے پری میٹرک اسکالر شپ کے لیے بھی 992 کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے۔ جبکہ گزشتہ مالی سال اس کے لیے1429 کروڑ روپے الاٹ کئے گئے تھے۔گزشتہ سال اہلیت کی شرائط میں بھی ترمیم کی گئی تھی اور نویں جماعت سے کم کے طلباء پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن نے اپنی بجٹ تقریر میں تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کہی تھی، لیکن عملی طورپر انھوں نے سب سے زیادہ قینچی اقلیتی امور کی اس وزارت کے بجٹ پر چلائی جو سماج کے سب سے محروم طبقوں کی تعلیمی اور سماجی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے قایم کی گئی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ اقلیتی امور کی وزارت کے بجٹ میں یہ بھاری کٹوتی کسی ایجنڈے کا حصہ ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایسا کرنے سے اقلیتوں میں مایوسی پھیلی ہے اور موجودہ نظام سے انھیں انصاف کے حصول کی امیدیں معدوم ہوگئی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔