وجود

... loading ...

وجود

آخری راستہ بات چیت ہی ہے

جمعرات 09 فروری 2023 آخری راستہ بات چیت ہی ہے

پاکستان کو درپیش دہشتگردی کے سنگین مسئلے پر بعض سیاستدان، لکھاری اور دانشور اپنی تحریروں، گفتگو اور تقاریر سے معاملے کے حل کی راہیں، تجاویز اور رائے کی بجائے مزید گھمبیر بنانے کا تاثر ملتا ہے۔ یاد رہے کہ دہشتگردی کے عفریت سے نجات کا مؤثر اور آخری راستہ بات چیت کا ہے۔ کوئی اگر اس رائے کا اظہار کرے کہ آرمی پبلک ا سکول کے بچوں اور اساتذہ کے قاتلوں اور ایسے دوسرے دلخراش دہشتگردانہ حملوں اور کارروائیوں میں ملوث گروہوں سے مذاکرات اور بات چیت نہ کی جائے تو کیایہ حضرات چاہتے ہیں کہ مستقبل میں بھی اے پی ایس جیسے دلدوز واقعات رونما ہوتے رہیں، اور قوم کے بچے مرتے رہیں۔ بعض افغانستان اور پاکستان کے درمیان بد گمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو یقینا دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر واحد حل فوجی آپریشن ہوتا تو آپریشن ضرب عضب کے بعد ان جتھوں کا خاتمہ اور دہشتگرد حملوں کا سدباب ہوجانا چاہیے تھا۔ قبائلی علاقے مکمل طور پر پاکستان کی علمداری میں آچکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود30جنوری 2023ء کو پشاور کے پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملے کا خونی واقعہ رونما ہوا۔ پیش ازیں بھی خیبر پشتونخوا کے مختلف علاقوںاور فاٹا میں ہدفی قتل اور فورسز نشانہ بن چکی ہے جبکہ پشاور کے اس سانحہ کے بعد ریاست کی پوری توجہ مرتکب گروہ اور نیٹ ورک پر مرکوز تھی کہ ایک خودکش حملہ آور کوئٹہ پہنچ گیا۔
5فروری2023ء کوعین اس وقت کہ جب کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم کے اندر اکبر بگٹی کرکٹ گرائونڈ میں کوئٹہ گلیڈیٹرز اور پشاور زلمی کے درمیان پی ایس ایل کا نمائشی میچ ہورہا تھا کہ حملہ آور نے گلستان روڈ پر کوئٹہ چھائونی کے داخلی گیٹ موسیٰ چیک پوسٹ پر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔اللہ کا شکر ہے کہ جانی نقصان زیادہ نہ ہوا۔ ایک سپاہی جاں بحق ہوا اور چند دوسرے زخمی ہوگئے۔ خدا نخواوستہ اگر انتخاب ایوب اسٹیڈیم کا داخلی گیٹ ہوتا تو کوئٹہ معصوم شہریوں اور فورسز کے جوانوں کے خون سے رنگین ہوتا ۔ اسی روز شام کو کوئٹہ کے منو جان روڈ پر ایک گھر پر دو دستی بم پھینکے گئے۔ ایک دن قبل بولان میں فورسز کی گاڑی کوریموٹ کنٹرول بم دھما کا کا نشانہ ب بنائی گئی۔ اس طرح کے کئی واقعات حالیہ دنوں رونما ہوچکے ہیں۔ گلستان روڈ دھماکا کالعدم ٹی ٹی پی قبول کرچکی ہے۔ بعض ان حالات کو روس کے خلاف افغانوں کی جنگ قرار دیتے ہیں لیکن کیا 1970ء کی دہائی میں سندھ ،بلوچستان اور خیبر پشتونخوا میں تخریب کاری ، دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں اور واقعات کے وقت تو افغان جہاد نہیں تھا۔ جہاں علیحدگی کی تحریکوں کے تانے بانے جوڑے گئے تھے۔بھارت ،کابل اور ماسکو سے کڑیاں ملائی گئی تھیں۔ دراصل خرابیوں کی خشت ہی ان بزعم خیش روشن خیالوں اور ترقی پسندوں نے رکھی ہے ۔جنہیں ماسکو کے زیر اثر افغان حکومتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ افغان صدر سردار دائود کے قتل اور اقتدار پر روس نواز افغان کمیونسٹوں کے قبضے کے بعد انہوں نے قتل و غارت کا سلسلہ شروع کردیا۔جبکہ افغانستان مین روسی فوجوں کے داخلے کے بعد حالات مزیدخطرناک پڑائو میں داخل ہوگئے۔ اس قتل و غارت اور انتقام کی سیاست و نظام کی یہ روشن خیال سیاستدان اور دانشور ہر سطح پر حمایت کرتے۔ پاکستان کے کئی سیاسی بڑے کابل میں جلا وطن تھے ۔ وہیں سے علیحدگی کی تحاریک کی قیادت کرتے۔ روسی افواج کا جینوا معاہدہ کے تحت نکلنے کے بعد اسلام آباد کی نا عاقبت اندیشی کی بنا افغانستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں چلا گیا ۔مگر اس کے باوجود پاکستان کو اندرونی خطرات درپیش نہ تھے ۔ نوے کی دہائی میں افغانستان پر طالبان قابض ہوئے تو پاکستان کومغربی سرحدات کے حوالے سے پوری طرح اطمینان حاصل ہوا ۔ نیویارک کی جڑواں عمارتوں کے انہدام کے بعد جب جنرل پرویز مشرف نے امریکا کو افغانستان پر حملوں کے لیے اڈے د یے تو پاکستان کے اندر امن اور سلامتی دائو پر لگ گئی۔
پرویز مشرف کی اس افغان کش پالیسی کو پاکستان کے بائیں بازو کی تمام سیاسی جماعتوں ،لکھاریوں اور دانشوروں کی حمایت حاصل تھی۔ بالخصوص پشتون سیاسی جماعتیں پھولے نہیں سما رہی تھیں اور ہر طرح سے مشرف اور واشنگٹن کا ساتھ دیا۔ چناں چہ اس گٹھ جوڑ کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان نمو دوا ہوئی۔ ابتدائی سالوں میں مذاکرات اور مفاہمت کے مواقع ہاتھ سے جانے دیے گئے۔ نیک محمد کے ساتھ امن معاہدہ ہوا کہ وہ ڈرون حملے میں مار دیے گئے۔ بلا شبہ اس عفریت نے سب سے زیادہ خیبر پشتونخو ااور بلوچستان کو لپیٹ میں لیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی کو ان گروہوں نے زد میں لیا ۔ چناں چہ وہ دن اور آج کا دن یعنی مسلح گروہ اپنی جگہ قائم ہیں اور وجود رکھتے ہیں ۔ ریاست پاکستان ان سے بر سر پیکار ہے۔ لہٰذا اس میں سب ہی مورد الزام ٹھہرتے ہیں۔ خصوصاًبنیاد کابل پر کمیونسٹوں کو مسلط کرکے رکھ دی گئی۔ بلوچستان میں مسلح کاررائیاں بھی افغانستان پر امریکی قبضے اور پرویز مشرف کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اور ان حالات سے خلاصی کا مؤثر اور آخری راستہ بات چیت اور مذاکرات کا ہے۔ بھلے اس کے لیے کچھ گنوانا ہی پڑے ۔وائٹ ہائوس کے قومی سلامتی امور کے کوآرڈنیٹر’’ جان کربی‘‘نے ٹی ٹی پی کے خلاف اسلام آباد کی مدد کا کہا ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ واشنگٹن داعش کے خلاف افغان حکومت کی بھی مدد کرے ۔ افغانستان میں داعشی گروہ کا خاتمہ افغانستان سمیت پاکستان میں بھی امن پر منتج ہوگا۔ کابل حکومت سے الجھائو ہر گز سود مند نہیں ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ اب بھی پشت پناہ رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر