وجود

... loading ...

وجود

چلی ہے رسم کہ

هفته 04 فروری 2023 چلی ہے رسم کہ

ظلم و زیادتی کے باجود خاموش رہنا اور برداشت کرنا غلامانہ زہنیت ہے باشعور اور آزاد سوچ والا حقوق کے متعلق نہ صرف سوال کرتا ہے بلکہ مسلسل ظلم وزیادتی پر تنگ آکر احتجاج کاراستہ بھی اختیار کرتا ہے مگر یہاں حکمران توقع کرتے ہیں کہ اُن سے کچھ نہ پوچھا جائے وہ جو بھی کریں عوام سرتسلیمِ خم کریں ایسا نہیں ہوسکتا کسی سے دریافت کرلیںکہ کیا وطنِ عزیز کے تمام باسیوں کو برابر حقوق میسر ہیں؟ کوئی بھی ہاں میں جواب نہیں دے گا کیونکہ ملکی وسائل کا بڑاحصہ صاحبانِ اقتدار و اختیار پرخرچ ہوتا ہے اور جوں جوں اُن کی تجوریاں بھرتی جارہی ہیں عوام مسائل کی گرداب میں دھنستے جا رہے ہیں تعلیم وصحت کی سہولتیں اور بنیادی حقوق تو ایک طرف عوام دووقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے لیکن صاحبانِ اقتدارواختیار کوصورتحال کاادراک نہیں یا شاید عوامی مسائل سے ناآشنا ہیں کیونکہ اگر آشناہوتے تو آئے روزپیٹرول ،بجلی اور آٹے کی قیمتیں بڑھانے کاظلم ہر گزنہ کرتے ۔
حالات بدل چکے مگر بدلے حالات کا اشرافیہ کوبھی احساس ہے بادی النظر میں ایسا نہیں لگتا پشاور پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 84 نمازی جان سے گئے میانوالی میں خون کی ہولی کھیلی گئی بلوچستان میں کے طو ل و عرض میں آئے روز موت کارقص ہوتا ہے لیکن امن بحال کرنے کا ایجنڈا حکمرانوں کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتابلکہ دہشت گردوں اور وطن دشمن عناصر پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے مخالف سیاسی قوتوں کی پکڑ دھکڑسے اُن کا ناطقہ بند کیا جارہا ہے اِس طرزِ عمل کو خود غرضانہ اور سیاسی مفادپرستی کہیں یا لاپرواہی کا نام دیں عوام حکمرانوں اور اِداروں دونوں سے بدظن ہوتے جارہے ہیں جب عام انتخابات کے مطالبے پر بے نیازی اور بے زاری ظاہر کی جاتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ بڑے منصبوں پر فائز عام آدمی کے پاس جانے سے گھبراتے ہیں اسی لیے اُن کی اولیں کوشش ہے کہ مخالف سیاسی قوتوں پر عرصہ حیات وبال بناکر اِتنا دیوار سے لگا دیا جائے کہ انتخابی معرکے میں مقابلے پر آنے کی جرات نہ کریںیہ سوچ کسی طور جمہوری ،قابلِ تحسین یا قابلِ رشک قرار نہیں دی جا سکتی ماضی میں ہوسِ اقتدار کاشکارلوگوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بدترین دھاندلی سے ہراکر ملکی یکجہتی پارہ پارہ کی اِس گھائو کے نتیجے میں ملک دولخت ہو ا کیا ہم نے ماضی سے کچھ سیکھا ہے؟بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اقتدار واختیار کے مالکان کو نازک صورتحال کا ادراک ہے آج بھی فرائض سے زیادہ مخالف سیاسی قوتوں پر توجہ ہے عمران خان اور اُن کے ہمرکاب افراد کوچُن چُن کر ایسے کیسوں میں جکڑا جارہا ہے جن سے نہ صرف بدنامی ہو بلکہ ہراساں کرنے کا مقصدحاصل ہو جبکہ حکومت میں شامل چہروں ،اُن کے رشتہ داروں اور حمایتی افرادوآفیسران جن پر اربوں کے بدعنوانی کے الزامات ہیں احتساب عدالتیں کلین چٹ دیتی جارہی ہیں لیکن مخالف سیاسی قوتوں پر بادہ نوشی جیسے گھٹیا کیس بنائے جارہے ہیں تنقید کرنا ملک میں جرم بنا دیا گیا ہے عجیب چلی ہے رسم کہ……؟
زیادہ ترجماعتیں اقتدار میں ہیں اُن کے پاس وسائل ہیںبہترہے میسر موقع سے فائدہ اُٹھائیں اور عوامی مسائل حل کریں مگرملکی وسائل کے ضیائع کے متعلق سوال کرنا جُرم بنادیاگیا ہے حالانکہ یہ جُرم نہیں نہ ہی سوال کرنے یا بولنے کو مشروط کیا جا سکتاہے البتہ دلیل اور ثبوت کا مطالبہ درست ہے نوآبادیاتی قوانین کے تحت بغاوت کے الزامات میں گرفتاریاں کرنا اورپھر سزائیں دلوانے کے لیے اِداروں کابے جا استعمال غلط ہے اِس رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے جتنی دھیان مخالف سیاسی قوتوں کی زبان بندی پر دیا جارہا ہے اگرعوامی مسائل پرتوجہ دی جائے توملک سے پیٹرول ،آٹے ،چینی کے بحرانوں کو مستقل طورپرختم کیاجاسکتاہے ساتھ ہی ملکی معیشت درست ڈگر پر آچکی ہوتی جب سیاسی انتقامی کاروائیاں عروج پر ہوں گی تو بھلا اپوزیشن جماعتیں کیسے وزیرِ اعظم کی طلب کردہ اے پی سی میں شریک ہو سکتی ہیں ؟ کسی کواگر ساتھ بٹھانا ہے تو بات چیت کے لیے افہام و تفہیم کا ماحول بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے توہین جیسے مضحکہ خیز الزامات سے اِداروں یا شخصیات کی عزت وتوقیر میں اضافہ نہیں ہوتا ۔
اِس میں شائبہ نہیں کہ ملک میں آئے روزایسی بے شمار جھوٹی ایف ائی آر ہوتی ہیں جن میں قتل ، اقدامِ قتل سمیت دیگر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر ابتدا میں مناسب پوچھ تاچھ سے الزامات کی صداقت چیک کی جاتی ہے بعد میں گرفتاری عمل میں آتی ہے اگر مقدمہ جھوٹا ثابت ہوتو خارج کر دیا جاتا ہے مگر آصف زرداری کاوجوداِتنا مقدس ہے کہ عمر رسیدہ سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کو لاوارثوں کی طرح جکڑ لیا جاتا ہے اِس سے پہلے اُن کے پاس دہائیوں سے موجود لال حویلی ایک بھونڈے جواز کے ساتھ خالی کرالی گئی ایسے حربوں سے یہ تاثر گہرا ہورہا ہے کہ حکومت اپنی غیر مقبولیت سے پریشان اور مقبول ترین حریف سیاسی قوتوں سے خوفزدہ ہے اسی لیے انتخاب میں جانے سے قبل سیاسی میدان صاف کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے سچ یہ ہے کہ ای سی پی اور زرداری توہین کو جواز بناکر کی جانے والی کاروائیوں سے حاکمانِ وقت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوا۔
عمران خان کے ساتھ دوسری اتحادی جماعت مسلم لیگ ہے جو پنجاب میں نگران حکومت بنتے ہی پولیس ،ایف آئی اے سمیت کئی دیگراِداروں کا تختہ مشق ہے آئے روز بے بنیاد اور من گھڑت کیس بنائے جارہے ہیں کوٹلہ ہسپتال کے توسیعی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب پر بلوئیوں نے حملہ کیاجس کا ایس ایچ او کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 11/23 تھانہ ککرالی درج ہوا پولیس مدعی ہونے کے باوجود حکومت تبدیل ہوتے ہی دہشت گردی کی دفعات لگاکر متاثرہ فریق کواب ملزم بنا دیا گیا ہے یہ اقدام سیاسی گھرانے کو پریشان کرنے اور دبائوڈالنے کے حربے کے سواکچھ نہیں چوہدری موسیٰ الٰہی عبوری ضمانت کراچکے لیکن وقوعہ کے وقت موقع پر موجود نہ ہونے کے باوجود مسلم لیگ کے صدر اور سابق وفاقی وزیرچوہدری وجاہت حسین کی گرفتار ی کے لیے پولیس جگہ جگہ چھاپے ماررہی ہے کنجاہ چھاپا کے دوران ایک مخصوص اِدارے کے تین عدد کالے رنگ کے ویگوڈالے خود رہنمائی کرتے رہے جیسے سیاسی شخصیت نہیں بلکہ کسی دشمن ملک کے جاسوس کی گرفتاری کا معاملہ ہو حالانکہ سب کو پتہ ہے چوہدری مونس الٰہی بیرونِ ملک ،چوہدری پرویز الٰہی لاہورہیں جبکہ چوہدری وجاہت حسین یہاں نہیں رہتے پھر بھی پولیس کہتی ہے کہ چوہدری وجاہت حسین کی گرفتاری کے لیے گئے ظاہرہے ایسی کاروائیوں کا مقصد عمران خان کا ساتھ دینے سے روکنا ہے مگر چھاپے سے پوراگجرات سراپا احتجاج بن گیانہ صرف تاجروں نے احتجاجاََ دکانیں بند کردیں بلکہ جی ٹی روڈتک ایک بہت بڑی احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی ۔
دو فروری کو چوہدری موسیٰ الٰہی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت گوجرانولہ میں عبوری ضمانت کی تاریخ تھی لیکن شب سواتین بجے تھانہ کڑیانوالہ میں 31/23مزید ایک بوگس ایف آئی آر درج کرائی گئی جس کے مدعی کے بارے میں عام لوگ کہتے ہیں کہ وہ آئس جیسے نشے کی لت میں مبتلا اول فول بکنے والا ایک غیر سنجیدہ شخص ہے اور پولیس پر فائرنگ کے الزام میں خود بھی گرفتار رہ چکاہے کیا اِداروں پر اِتناکڑا وقت آگیا ہے کہ وہ ساکھ سے محروم افراد کا سہارہ لینے پر مجبورہیں؟ہفتہ قبل جو درخواست پیش کی گئی اُس میں چوہدری وجاہت حسین کے ساتھ اُن کے صاحبزادے چوہدری حسین الٰہی کو نامزد کیا گیا مگر ایف آئی آر درج کرنے سے قبل جب یہ معلوم ہواکہ چوہدری حسین الٰہی تو ملک سے ہی باہرہیں یہ معلوم ہونے پر درخواست واپس لے لی گئی مگرپھردوفروری کی رات کوکہیں سے حکم ملنے پرمقدمہ درج کر لیاگیا صاف ظاہرہے اِس کا مقصد چوہدری موسٰی الٰہی کو عدالت پیش ہونے سے روکنا اور گرفتار کرنا ہے ویگو ڈالے والے صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ عمران خان اب کبھی جیت نہیں سکتا اگر چوہدری خاندان نے بھی مستقبل میں سیاسی طورپر زندہ رہنا ہے تو عمران خان سے ہرصورت الگ ہو نا ہوگا یہ کیسی چلی ہے رسم کہ….؟چوہدری وجاہت حسین گجرات کے ایک دلیر اور مقبول رہنماایک رحمدل اور مہربان شخصیت ہیں تیس پینتیس سالہ رفاقت کے باوجود ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا کہ کسی سوالی نے دامن پھیلایا ہو مگروہ خالی واپس کر دیں اب سوال یہ ہے کہ جب ملک میں امن و امان کا مسلہ بگڑتا جارہا ہے لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں ملکی معیشت تباہی کے دہانے پرہے اِن حالات میںجس بھی نااعاقبت اندیش نے حریف سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کاروائیوں کامشورہ دیا ہے وہ سب کچھ ہو سکتا ہے حکمرانوں یا اِداروں کا خیرخواہ ہرگز نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر