... loading ...
اقوام و ملل کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف معرکہ آراء ہونے کی وجوہات اور اسباب تو، رفتارِ زمانہ کے حساب سے تبدیل ہوتے رہے ہیں ، لیکن جنگ کے مقاصد کبھی نہیں بدلے۔ماضی میں بھی جنگیں عالمی بالادستی قائم کرنے کے لیے لڑی جاتی تھیں اور آج کی جدید دنیا میں بھی ایک قوم یا ملک کا اپنے حریف ممالک کے خلاف جنگیں چھیڑنے کا بنیادی مقصد وحید ناقابلِ تسخیر عالمی طاقت بننے کا دیرینہ خواب ہی ہے۔جس کہ سب بخوبی جانتے ہیں کہ چین ایک اُبھرتی ہوئی عالمی طاقت ہے تو دوسری طرف امریکا بھی ہماری دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے کے منصبِ جلیلہ پر فائزہے۔ جہاں چین کی نگاہیں مستقبل کی عالمی طاقت بننے کے ہدف پر مرکوز ہیں تو وہیں امریکی قیادت ورلڈ سپر پاور کی حیثیت چھن جانے کے خوف کے سبب چین کو ہر شعبہ میں کمزور کرنے میں مصروف عمل ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ چین جس میدان میں بھی امریکا کے سامنے اُبھرنے کی کوشش کرتاہے تو امریکا فوری طور پر پوری قوت کے ساتھ چین کا راستہ کھوٹا کرنے کی سازشیں اور کاروائیاں کرنا شروع کردیتاہے۔
مثال کے طور پر چند برس قبل جیسے ہی بین الاقوامی ماہرین عسکریات نے یہ انوکھا خیال پیش کیا کہ مستقبل میں سیمی کنڈکٹر یعنی ننھی سی’’ چِپ‘‘ کوعالمی بالادستی قائم کرنے میں کلیدی اہمیت حاصل ہوگی اور جو ملک بھی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کی صنعت میں خود کفیل ہوگا ۔وہی ملک حقیقی معنوں میں عالمی سپر پاور کہلائے گا۔ تب سے ہی امریکا نے چین کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے کی ٹیکنالوجی سے محروم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ چین اور امریکا کے درمیان’’ سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کی ٹیکنالوجی پر برتری کے حصول کی جنگ کو عسکری ماہرین کی جانب سے ’’چِپ وار ‘‘ کا نام دیا جارہاہے۔ یاد رہے کہ ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کو اس وقت ڈیجیٹل معیشت اور قومی سلامتی کے امور میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، کاریں ہی نہیں بلکہ جدید ڈرون، جنگی جہاز یا ایٹمی میزائل سیمت تمام اقسام کے عسکری ہتھیار بنانے کے لئے بھی ’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔فی الحال امریکا اور اس کے اتحادی ممالک، کوریا اور تائیوان کی صنعتوں کو اس جدیدشعبے پر پوری طرح سے غلبہ حاصل ہے۔ جب کہ چین’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ تیاری کے لئے کافی حد تک دوسرے ممالک پر انحصار کرتاہے۔جس کی وجہ سے ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ اور اِسے بنانے کے درکار جدید مشینری درآمد کرنے کے اخراجات خام تیل کی درآمدی خرچ سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔حالانکہ چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ جدید آلات تیار کرتاہے ،مگر اس کے باوجود بھی ’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ بنانے والی اور فروخت کرنے والے دنیا کی دس سرفہرست کمپنیوں میں ایک بھی چینی کمپنی شامل نہیں ہے۔
دوسری جانب امریکا ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘بنانے میں مکمل طور خود کفیل ہے اور وہ اپنی ضرورت کی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ دنیا بھر کو درآمد بھی کرتاہے اور مستقبل میں امریکا کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ کی ملکی اور عالمی ضروریات پوری کرنے کسی سنگین بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اُس بابت بھی امریکی قیادت ایک طویل عرصہ سے وسیع البنیادمنصوبے بنانے میں مصروف ہے۔خاص طور پر جب2014 میں امریکا کو یہ معلوم ہوا کہ چین ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کی صنعت کو اپنے ملک میں فروغ دینے کے لیے 1501 ارب ڈالر ز کا انوسٹمنٹ فنڈ قائم کرچکا ہے اور بیجنگ کی جانب سے2015 میں جاری ہونے والی ’’میڈ اِن چائنا2025 ‘‘ منصوبہ کا بنیادی مرکز محور بھی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ ٹیکنالوجی کو ہی بنایا گیا تو پھر 2015 میںہی اُس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما نے فوری طور پر ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے والی امریکا کی مایہ ناز کمپنی ’’انٹیل‘‘ کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ فروخت بیجنگ کو کرنے سے روک دیا تھا۔ نیز 2016 میں جب ایک چینی کمپنی نے ایک چِپ بنانے والی جرمنی کی کمپنی کو خریدنے کی کوشش کر رہی تھی تو امریکا نے اس سودے کو بھی رکوا دیا تھا۔بارک اوباما کے عہدہ صدرات چھوڑنے سے پہلے وائٹ ہاؤس سے ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی ،جس میں ایسی چینی کمپنیوں کے خلاف اقدام کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں جو ’’ٹیکنالوجی ٹرانسفر‘‘ پر بضد تھیں۔ حد تو یہ ہے کہ امریکا نے’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ تیار کرنے والے دیگر ممالک مثلاً تائیوان اور جنوبی کوریا کو بھی چینی کمپنیوں کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘ فروخت کرنے پر پابندی لگادی تھی۔
جبکہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت میں چین کے خلاف جاری ’’چِپ وار ‘‘میں مزیدتیزی اور شدت پیدا کر تے ہوئے۔ امریکی کمپنیوں کو اپنی’’سیمی کنڈکٹر چِپ ‘‘اور ’’سافٹ وئیر‘‘چینی ٹیلی کام کمپنی ZTE کو فروخت کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔جس کی وجہ سے یہ چینی کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔مذکورہ امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنی’’Fujian Jinhua‘‘بھی متاثر ہوئی،جس پر الزام تھا کہ اس نے خفیہ طور پر امریکی ٹیکنالوجی ، چین میں منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔لیکن دوسری طرف چین نے ابھی ہمت نہیں ہاری ہے اور بیجنگ امریکا کی جانب سے چھیڑی جانے والی ’’چِپ وار‘‘ کابھرپور انداز میں مقابلہ کررہا ہے ۔ چین’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘کی صنعت میں خودمختاری کے حصول کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے اور اس معاملے میں چینی کمپنیوںکی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ اُنہیں بے پناہ مالی مراعات بھی دے رہا ہے۔دراصل امریکا کو خدشہ کہ وہ اگر ’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ کے شعبے میں چین پر انحصار کرے گا تو اس کی ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسی طرح چین کا سپر پاور بننے کا خواب بھی اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ’’سیمی کنڈکٹرچِپ ‘‘ کے شعبہ میں مکمل طور پر خود کفیل نہیں ہوجاتا۔
واضح رہے کہ ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے والی مشین کو لیتھو گرامی مشین کہتے ہیں ۔ تقریباً20 کروڑ ڈالر مالیت کی اِس مشین کا وزن 180 ٹن تک ہوتاہے۔اس مشین کو چھوٹے حصوں میں کھول کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتاہے۔ جب اِن پرزوں کو جوڑ کر مشین کی شکل دی جاتی ہے تو یہ ایک بڑی دیو ہیکل بس جتنی جگہ گھیرتی ہے۔ انتہائی جدید اور طاقت ور لیزر، لینز اور روبوٹوں پر مشتمل اس خودکار مشین پر اسمارٹ فونز اور گاڑیوں سے لے کر جیٹ طیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی’’ سیمی کنڈکٹر چپس ‘‘تیارکی جاتی ہیں۔یاد رہے کہ ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ کا شعبہ ایک اقتصادی اور خودمختار لائف لائن ہے۔ یہ اپنے پانی سے خواراک اگانے جیسا معاملہ ہے۔مثال کے طور پر’’ سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘وہ چیز ہے جسے آپ ڈیٹا استعمال کرنے اور سسٹم کو منتقل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہالینڈ کی معروف کمپنی ASML پوری دنیا میں یہ مشین بیچنے کے لیئے مشہور ہے ،مگر اَب امریکا ہالینڈ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چین کو ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ بنانے والی نئے اور پرانے ماڈلز کی تمام مشینیں فروخت کرنے سے گریز کرے ۔ بصورت دیگر اُس کے خلاف امریکا کی جانب سے بڑی اقتصادی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں ۔ دراصل امریکا چین کی ’’سیمی کنڈکٹر چِپ‘‘ تیار کرنے کی صلاحیت اتنا محدود کرنا چاہتا ہے کہ چینی قیادت اِس ضمن میں مکمل طور پر امریکا اور اِس کے اتحادی ممالک کی دستِ نگر بن کر رہ جائے ۔
مگر بعض بین الاقومی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک بیجنگ کے خلاف جاری ’’چِپ وار ‘‘ کی بدولت اپنے روایتی حریف چین کی اقتصادی ، سیاسی اور عسکری ترقی کی رفتار کو کسی نہ کسی حد تک سست تو ضرور کرسکتاہے ،لیکن چین کی ترقی کی راہیں مکمل طور پر مسددود کرنا شاید امریکی قیادت کے لیئے ممکن نہ ہوسکے۔ کیونکہ چین بھی’’سیمی کندکٹرچِپ‘‘ کی صنعت میں عالمی برتری حاصل کرنے کے لیے حکومتی اور کاروباری وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین میں پانچ کاروباری اداروں سمیت دنیا بھر میں چپ سے متعلق 18 ذیلی کمپنیاں قائم کرنے کے بعد چین کو’’سیمی کنڈکٹر چپ‘‘ ڈیزائنرز اور تربیت یافتہ کارکنوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایک محتاط اندازے کے چین کو پانچ لاکھ ہنرمند افراد کی ضرور ت ہے اور چین کے پاس’’سیمی کنڈکٹرچِپ‘‘ کے حامل ہنرمند افراد نہیں ہیں۔ہماری دانست میں پاکستان ایک لاکھ ہنرمند افراد اِس شعبہ کے لیئے بیجنگ کو فراہم کر سکتا ہے ۔ہمارے یہ ہنر مند افراد چین بھی جا سکتے ہیں یا وہ پاکستان میں رہ کر بھی کام کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭