... loading ...
کراچی کے بلدیاتی انتخابی نتائج کو متحدہ قومی موومنٹ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ عوام نے ان کے کہنے پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور بیس فیصد سے بھی کم لوگوں نے ووٹ ڈالے تحریک انصاف نے بھی ان انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی لا زام لگایا پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو کامیابی ملی ہے جماعت اسلامی بھی مکمل مطمئن نہیں ہے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں جماعت اسلامی کے حافظ نعیم میئر بننے کے دعویدا ر ہیں جبکہ اکثریت حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی بھی میئر کا عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے سیاست میں لین دین کے بغیر کام نہیں چلتافی الحال معاملہ نتائج پر اٹک گیا ہے جماعت اسلامی کومزید چھ سے آٹھ نشستیں درکار ہیں اور وہ اس مقصد کے لیے سندھ حکومت پر دبائو ڈالنا چاہتی ہے پیپلز پارٹی کو کراچی کو گرفت میں لینے کا موقع مل گیا ہے وہ آسانی سے اپنا میئر لاسکتی ہے اس کی بنیادی وجہ صوبائی حکومت ہے اگر پیپلز پارٹی کے چیئر مین آصف زرداری نے طے کرلیا کہ میئر پی پی کا ہوگاتو وہ مفاہمت کے بادشاہ کے طور پر راستہ نکال لیں گے اور اگر وہ یہ عہدہ جماعت کو دیں گے تو بھی پس پردہ اس پر اپنی گرفت قائم رکھیں گے موجودہ بلدیاتی انتخابات میںجماعت اسلامی میئر کو زینہ بنا کر ملکی سیاست پر غلبہ حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے لیکن انہیں بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی اکثریت کے باعث پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کا تعاون درکار ہوگا یہ اشتراک عمل دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہوگااس وقت کراچی میں تقریباً تمام تقرریاں پی پی کی مرضی کے مطابق ہورہی ہیں لہٰذا کراچی پر اس کی گرفت مظبوط ہے ۔
اگر جماعت اسلامی کا میئر آبھی جاتا ہے تو اسے بھی آصف زرداری کا بالواسطہ نمائندہ تصورکرنا ہوگا کیونکہ کسی بہت بڑے سمجھوتے اور پس پردہ سندھ ھکومت کی مکمل گرفت کے بغیر جماعت کا میئر نہیں آسکتا میئر کی گاجر سے پوری جماعت اسلامی پر آصف زرداری کا غلبہ ہوگا اس طرح پی پی کو بلاول زرداری کو اس سال وزیر اعظم بنانے میں مدد ملے گی جس کے لیے ماحول تیار ہورہا ہے پاکستان کی مخصوص جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے بین الاقوامی طاقتیں خصوصاً بھارت پاکستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے اس مقصد میں اسے عالمی قوتوں سے مدد مل رہی ہے ابھارتی وزارت خارجہ دنیا کے اہم ممالک میں اپنی مظبوط لابی کو اس مقصد کے لیے استعمال کررہی ہے پاکستان کے خلاف جنگ کا یہ نیا طریقہ کا ر ہے جس کے تحت پاکستان کو معاشی طور پر انتہائی کمزور کرکے اس کی دفاعی صلاحیت کو مفلوج کرنا ہے کراچی اور بلوچستان اس سلسلے میں انتہائی اہم ہیں پاکستان کے موجودہ حالات میں بھی ان عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے موجودہ حالات کی بنیادی وجہ مارچ 2022میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد پید ا ہونے والا سیاسی بحران ہے جو اب بھی مسلسل جاری ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے پی ڈی ایم کا اٹھارہ جماعتی اتحاداپنی مفادات کی سیاست، بدنظمی اورناقص کارکردگی کی وجہ سے ملک کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں ناکام رہا ملک میں شدید معاشی بحران اور سیاسی محاذ آرائی کا ایسا طوفان برپا ہے کہ ملک کی سلامتی اور دفاع خطرے سے دوچار ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے عوام میں موجودہ نظام سے نفرت پیدا ہورہی ہے وہ پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور غم و غصے کی کیفیت میں ہیں پاکستان کے عوام نے روز اول سے اس تبدیلی کو مسترد کردیا تھا اگر پی ڈی ایم اور ان کی اتحادی جماعتوں کو ذرہ برابر بھی یقین ہوتا کہ عوام اس تبدیلی کو قبول کر لیں گے تو وہ انتخابات کے لیے تیا ر ہوجا تے لیکن انہوں نے عوام کے پاس جانے سے گریز کیا اور ریاستی ادارو ںکی مدد سے عمران خان اور ان کی جماعت کو کچلنے اورتقسیم کرنے کی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا جبکہ عوام پر بلواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر مہنگائی میں اضافہ کر دیا گیا ملکی معیشت زوال کی جانب گامزن ہوگئی وہ غیر سیاسی اور ریاستی جبر کے ذریعے پی ٹی آئی کو کچلنے کی کو شش کرتے چلے گئے نتیجے میں ا تنی ہی عوام کی نفرت پی ڈی ایم کے لیے بڑھتی گئی اداروں پر عوامی اعتماد کم ہوا یہ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جس کی زندہ مثالیں موجود ہیں۔
9اپریل کو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے وقت ملک بھر کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور یہ سلسلہ جاری رہا عمران خان کے جلسوں میں عوام کی شرکت اور جوش و خروش میں اضافہ ہوتا رہا سعودی عرب میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وفد کے خلاف نعرے بازی ہوئی غالب امکان یہ ہے کہ اس کے بعدمسلسل حکومت کو عالمی سطح پر سردمہری کا سامنا کرنا پڑا ہے یہ امکان بھی موجود ہے کہ بعض اہم شخصیات وزیراعظم شہباز شریف کی قربت سے کتراتی ہیں ان حالات کے باوجود موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ پنجاب میںکراچی کی طرز کے انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مخلوط حکومت بنائی جائے اس عمل کے نتیجے میں ملک کے دفاعی اداروں اور عوام کے درمیان دوری بڑھ رہی ہے موجودہ حکومت کے تمام اقدامات سے عوام میں پیدا ہونے والے جذبات صرف حکومت کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے اثرات پورے ریاستی ڈھانچے کو متاثر کررہے ہیں ہیں موجودہ حالات گزشتہ کے پاکستان کے بحرانوں سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ماضی کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے 1971 جب پاکستان بد ترین سیاسی بحران سے گذر رہاتھا اس کے بارے میں مرتضٰی انجم نے اپنی کتاب کون کیسے گیا میں تحریر کیا ہے کہ اس وقت کے ـ ـ ’’ صدر یحیٰی خان نے ذوالفقار علی بھٹو،نورالامین خان اور قیوم خان کو وزارت عظمیٰ کے خواب دکھارکھے تھے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ یحیٰی خان پیپلز پارتی کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے تھے اس کے لیے انہوں نے دائیں بازو کی چھوٹی پارٹیوں کو متحد کرنا شروع کردیاجس کے نتیجے میں 15نومبر1971کوقومی اسمبلی میں دائیں بازو کی آٹھ سیاسی جماعتوں کا اتحاد قائم ہوگیا جس پر برہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے بھٹو نے 17 نومبر کو کراچی کے جلسے میں کہا کہ اگر کٹھ پتلی حکومت مسلط کی گئی تو پیپلز پارٹی انقلاب کے ذریعے تختہ الٹ دے گی ‘‘ موجودہ حالات میں پاکستا ن ایک مرتبہ پھر ایک سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دشمن جدید حکمت عملی کے تحت اند ر
سے حملہ آور ہے جس کے نتیجے میں عوام مہنگائی کے شدید بوجھ تلے دب چکے ہیں پنجاب اور خیبر پختون خواہ میںنگراں حکومتیں ہیں قومی اسمبلی اپنی اہمیت کھوچکی ہے پاکستان کی سیاسی قیادت اور اہم اداروں کو اس کا ایسا حل تلاش کرنا ہوگا جس سے پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم ہو پاکستان میں کسی بھی مصنوعی طرز کی حکومت کے نتائج اندرونی انتشار میں اضافہ کریں گے پاکستان کی اشرافیہ اور مقتد قوتوں کے لیے یہ ایک اہم امتحان ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔