... loading ...
ایک زمانہ تھا، ہم اپنی زمین کو دھرتی ماں سمجھتے تھے، حساس اتنے کہ کوئی عالمی معاہدہ ہوتا تو ، اچانک ملک برائے فروخت کا شور اُٹھتا۔ جنرل حمید گل نے گوادر برائے فروخت کہا تو پورے ملک میںسنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔آئی ایم ایف سے معاملات ہوتے تو ملک گروی رکھنے کا شور مچتا۔ حکومت کے کان کھڑے ہو جاتے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما کسی دوسرے ملک سے خاموش روابط رکھتے تو غداری کی سندیں، نکاح کے چھوہاروں کی طرح بٹنے لگتیں۔ کشمیر کا سودا ایک عمومی الزام تھا۔ بھارت ہمارا حساس ترین منطقہ تھا۔ جہاں سے گزرنے والا محب وطن نہیں رہ سکتا تھا۔ را کا ایجنٹ، سی آئی اے کامخبر قسم کے القابات کسی کے پیچھے پڑتے تو جان لے کر چھوڑتے تھے۔ یہ سب کچھ اتنی بار اور اتنے بھدے طریقے سے ہوا کہ اب اس کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہ گئی۔ بھارت سے تعلقات کے الزامات سیاست دانوں پر لگے، کچھ غلط تھے تو کچھ درست بھی۔ کچھ سیاست دان ابھی بھی ایسے ہیں کہ جو بھارت سے تعلقات کو ایسی سطح پر لے جاتے ہیں کہ اندیشے جنم لینے لگتے ہیں۔ مگر جب رازوں سے پردہ اُٹھتا ہے اور جرنیل اپنے عہدوں پر نہیں رہتے تو کچھ ایسے انکشافات سامنے آجاتے ہیں کہ سیاست دانوں کے انحراف غنیمت لگنے لگتے ہیں۔
ابھی جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کو ریٹائر ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہے، مگر اس انکشاف نے سب کو حیران کردیا ہے کہ کشمیر کو نظرانداز کرکے ہم بھارت سے تعلقات استوار کرنے کے درپے تھے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ متحدہ عرب امارت میںیہ خاموش مذاکرات جنرل باجوہ کی حمایت سے جنرل فیض حمید صاحب کرتے رہے۔ مجال ہے جو اس انکشاف کے بعد ہمارے ذرائع ابلاغ نے اس پر توجہ بھی دی ہو۔حساسیت کی ختم ہوگئی۔ اُصولی اور منطقی طور پر اس حوالے سے ایک طوفان اُٹھ جانا چاہئے تھا، کیونکہ ایسی کوئی حرکت ہمارے سیاست دانوں سے سرزد ہوئی ہوتی تو اب تک اُن پر غداری سمیت نہ جانے کون کون سے الزامات عائد ہو چکے ہوتے۔ بھارت نے 5؍ اگست 2019ء کو اپنے آئین سے دفعہ 370 کو خارج کردیا تھا جو کشمیر کی نیم خود مختارانہ خصوصی حیثیت کی آئینی ضمانت دیتی تھی۔ ہمارا قومی موقف یہ تھا کہ بھارت جب تک کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا، اُس سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو اس کا فیصلہ کس نے اور کہاں کیا تھا؟ آخر جنرل (ر) فیض حمید کو کس نے یہ اختیار دیا تھا کہ وہ کشمیر کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت سے تعلقات کی بحالی پر بات چیت کریں؟ اس میں ایک بہت بڑا مذاق بھی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ جب یہ منصوبہ عمران خان کے پاس گیاتو اُنہوں نے اِسے رد کرتے ہوئے بھارت سے ہر قسم کی بات چیت کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی سے مشروط کرنے پر اِصرار کیا۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ کہیں ’’خدانخواستہ‘‘ قومی مفاد کا تحفظ سیاست دان تو نہیں کر رہے تھے اور ہمارے جرنیل ، جن پر قومی مفاد کے تحفظ کی’’ اصل ذمہ داری‘‘ ہے، وہ تب کیا کررہے تھے؟ ہمار ے ارد گرد جو ماحول بنایا گیا ہے اور قومی سطح پر ہم جس قسم کے فضول خیالات میں پالے گئے ہیں، اس میں تو یہ معاملہ برعکس ہوناچاہئے تھا۔ یعنی سیاست دان قومی مفاد کا سودا کرتے ہوئے اور جرنیل اس کا تحفظ کرتے ہوئے دکھائی دینے چاہئے تھے۔ اس طرح عمران خان کشمیرکو نظرانداز کرتے ہوئے خفیہ بات چیت کرتے ہوئے اور جرنیل اُن کے تعاقب کرتے ہوئے نظر آنے چاہئے تھے۔ مگر یہاں تو سب کچھ اُلٹ پلٹ دکھائی دیتا ہے۔ اس الم ناک انکشاف کو اب دو ہفتے گزر رہے ہیں، کسی جانب سے بھی اس کی کوئی وضاحت نہیں ہوئی۔ دونوں ریٹائرڈ جرنیل خاموش ہیں، ان میں سے ایک اپنے لے پالک سے کالم لکھوانے میں مصروف ہے، مگر اس معاملے پر منہ سے کوئی بھاپ تک نہیں نکال رہے۔ اُن کا سابق ادارہ بھی چپ سادھے ہوئے ہے۔ کیا اس قدر حساس معاملہ بھی اب قومی سطح کی ارزل سیاست میں اپنی حساسیت کھو بیٹھا ہے؟ یا ہم اس قسم کے انحرافات کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اب کوئی کھیل بھی کھیل نہیں لگتا، کوئی سازش بھی سازش نہیں لگتی۔
بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بھی ہمارے بڑے انحرافات جرنیلی سیاست میں سامنے آئے۔ جرنیل جب اپنے ملک پر کنٹرول کرنے کی سیاست میں لگتے ہیں تو اُن کی توجہ بیرون نہیں بلکہ اندرون ملک رہتی ہے۔ پرویز مشرف آگرہ میںجو کچھ کرنے جارہے تھے، وہ یحییٰ خان کی طرح کا واقعہ تھا۔ ہم مشرقی پاکستان کو جس طرح گنوا بیٹھے، یہ اُسی طرح کے نتائج پیداکرنے والا واقعہ ثابت ہونا تھا۔ یہ تو بھلا ہو بی جے پی کے انتہا پسندوں کا، جو پرویز مشرف کو چہرہ بچائی (فیس سیونگ) کی رعایت بھی دینے کو تیار نہ ہوئے اور اُنہیں واپس پلٹنا پڑا۔ پرویز مشرف کا عالم یہ تھا کہ جب بھارت گئے تو حریت رہنماؤں سے ملنا گوار انہ کیا تھا۔مردِ حریت سید علی گیلانی مرحوم اس دکھ کو ساتھ لے کر قبر میں اُترے۔زیادہ وقت نہیں گزرا ، پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) اسد درانی نے بھارتی را کے سابق سربراہ اے ایس دُلت کے ساتھ ایک مشترکہ کتاب’’سپائی کرونکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس‘‘ لکھ ڈالی۔ کتاب کیا ہے، ہماری قومی آزادی کی توہین کی ایک عریاں دستاویز ہے۔ سقوط ِپاکستان کی ذمہ داری کا تعین کرنے والی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے بعد یہ دوسری توہین آمیز دستاویز ہم پر مسلط کی گئی جس میں ہمارے ریٹائرڈ جرنیل نے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کے ممکنات پر بھی را کے سابق سربراہ سے بات کی ہے۔ اگرچہ جنرل اسد درانی تب کے فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی ایک ٹوئٹ کے مطابق 28؍ مئی 2018 کو جی ایچ کیو میں جواب دہی کے لیے طلب کیے گئے تھے، مگر پھر کیا ہوا، ہم کچھ نہیں جانتے۔ جنرل ایوب خان کے دور سے بھارت ، افغانستان اور امریکا سے تعلقات کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی عسکری ذمہ داری اب سوالات کے نرغے میںآگئی ہے، اس باب میں سیاست دانوں کے معاملات تو بھارتی گویوں سے گانے سننے اور کچھ اداکاراؤں پر للچائی ہوئی نگاہیں ڈالنے سے زیادہ کچھ نہیں۔
ایک بھارت کیا، افغانستان بھی ہماری بدترین پالیسیوں کے نتیجے میں ہم سے روٹھا ہوا ہے۔ آج افغانستان جن ہاتھوں میں ہیں، کبھی یہ ’’ہمارے بچے‘‘ تھے۔ اب ہم اُن کے آگے بے بس بچے لگ رہے ہیں۔ کبھی سوویت یونین کو شکست دینے کے فخر سے ہم اپنا سینہ خوامخواہ پھلائے رکھتے تھے، اب امریکا کو اپنے بل بوتے پر شکست دینے کے بعد ایسا کوئی فخر بھی ان ’’بچوں ‘‘نے ہمارے لیے نہیں چھوڑا۔ حالت یہ ہے کہ ہماری تزویراتی گہرائی سمجھا جانے والا پورا افغانستان اب ہمارے ساتھ مشترکہ سرحد کی پٹی پر بھی تنازع میں رہتا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ملنے والی ہماری سرحدیں بھارت سے ملنے والی سرحدوں کی طرح حساس ہونے لگی ہیں۔ مگر یہاں پروا کسے ہے؟ امریکا بھی ہمارے لیے ایک ایسا ہی ملک ہے جس نے ہمیں اپنا کرایے دار بنا دیا ہے۔ قومی معیشت کو امداد پر چلانے کی عشروں کی عادت نے ہمیں ایسا بھکاری بنادیا ہے جو مانگتے ہوئے معمولی شرم بھی اب محسوس نہیںکرتا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی اپنے ملک میں ہمارے اس کردار پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے مذاق اڑاتا ہے اور یہاں کسی کو شرم بھی نہیں آتی۔ کبھی ہم ایک ملک رکھتے تھے جہاں امریکا سے معاملات میں بھی قومی مفادات کا ایک احساس غالب رہتا تھا۔عالمی اقتصادی اداروں سے قرض کی مے لیتے ہوئے اُن کی مکمل تحویل میںچلے جانے والی مدہوشی کا حساب رکھا جاتا تھا۔ اب قومی سطح پر معیشت کی بحالی آئی ایم ایف کی امداد طلبی کے تقاضے کے دائرہ ادراک میں آچکی ہے۔ یہ ایسے ہی ہیں کہ بس زندہ رہنا ہے چاہے بھکاری لگیں، مجنوں ، بدعہد یا نمک حرام۔ فرق کیا پڑتا ہے۔ ہمار اپیارا وطن کس حالت میںہے اور ہمارا مسئلہ کیا ہے، عمران خان۔ یہ ہے ہمارا قومی شعور ۔ یہ ہے ہماری قومی پالیسی اور یہ ہے ہماری قومی حکمت عملی۔ آخر ہمارے ساتھ ہو کیا گیا ہے؟
٭٭٭٭٭٭