... loading ...
سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے انتہائی اشتعال انگیز واقعہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات چھلنی کردئیے ہیں۔ ہزاروں افراد سراپا احتجاج ہیں اور اپنے ہاتھوں میں قرآنی نسخوں کو اٹھائے ہوئے اللہ اکبر کے نعرے بلند کررہے ہیں۔عرب ملکوں نے اس واقعہ کی پرزورالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے ان بدبختوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جنھوں نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوروپ کے بعض ملکوں میں شرپسندوں کا یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غبار نکالنے کے لیے یوں ہی شرانگیز ی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔جب کبھی انھیں کسی مسلم ملک سے کوئی شکایت ہوتی ہے تو وہ اس کا حل نکالنے کی بجائے اسلام پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اور ایسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں جو ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا ثبوت ہوتی ہیں۔ یہ اسلاموفوبیا کی ایک ایسی شکل ہے جس کا علاج ممکن نہیں ہوپارہا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ قرآن ایک مقدس آسمانی صحیفہ ہے جو پوری نوع انسانی کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کی مقدس کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا نزول نوع انسانی کی ابدی فلاح کا ضامن ہے، مگر اسے کیا کہا جائے کہ قرآن کی توہین کرکے شرپسندیہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو ایذا پہنچاکر اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یوروپی ممالک اس قسم کی اشتعال انگیزحرکتوں کی اجازت اظہار رائے کی نام نہاد آزادی کے نام پر دیتے ہیں۔مغرب میں اظہاررائے کی آزادی ایک ایسا فریب ہے جس کی کوئی تاویل پیش نہیں کی جاسکتی۔
گزشتہ ہفتہ سوئڈن کی راجدھانی اسٹاک ہوم میں اسلام مخالف سوئڈش ڈینش سیاست داں راسمس پالوڈون اور ان کے حامیوں نے ترکی سفارت خانے کے روبرو قرآن سوزی کی شرمناک حرکت انجام دی۔ شرمنا ک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ سوئڈش حکام کی اجازت سے کیا گیا۔ حالانکہ سوئڈن کے وزیراعظم نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے، لیکن یہ سب کچھ عالم اسلام کے شدید ردعمل کے بعدہواہے۔ اگر سوئڈش حکومت کو اس بات کا احساس ہوتا تو وہ مجرموں کے خلاف کارروائی ضرور کرتی، لیکن انھوں نے اس شرانگیزی کی مذمت کرتے وقت اظہاررائے کی آزادی کا حوالہ دینا ضروری سمجھا۔یہی وجہ ہے کہ ترکی نے اس واقعہ کو قابل نفرت فعل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوئڈش حکومت کا احتجاج کی اجازت دینے کا فیصلہ قطعی ناقابل قبول ہے۔ قرآن سوزی کا یہ واقعہ اس حقیقت کی ایک اور مثال ہے کہ یوروپ میں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور امتیازی سلوک خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔
اسٹاک ہوم میں ترکی کے سفارتخانے کے روبرو قرآن کی بے حرمتی اس لیے کی گئی کہ سوئیڈن نیٹو کے فوجی اتحاد میں شامل ہونا چاہتا ہے جبکہ نیٹو کا ممبر ترکی سوئڈن کی دوہری پالیسی کی وجہ سے اس کے خلاف ہے۔ واضح ہوکہ روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سوئڈن اور فن لینڈ نے نیٹو کی ممبرشپ کے لیے درخواست دی تھی۔اسی وجہ سے اسٹاک ہوم میں دائیں بازو کے کارکن ترکی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ان مظاہروں کے دوران انتہائی دائیں بازو کی اسٹرام کرس پارٹی کے رہنما اسموس پالوڈان نے ہفتہ کے روز اسٹاک ہوم میں ترکی سفارتخانے کے باہر قرآن مجید کا ایک نسخہ نذرآتش کردیا۔ پالوڈان نے گزشتہ سال بھی ریلیاں نکالی تھیں جس میں اس نے قرآن جلانے کی دھمکی دی تھی۔ترکی کے وزیراعظم طیب اردغان نے گزشتہ پیر کو کابینہ کی میٹنگ کے بعد کہا کہ اسٹاک ہوم میں مسلمانوں کی مقدس ترین کتاب کو نذرآتش کرنے کے بعد اب سوئڈن کو ناٹو کی رکنیت کی لیے ترکی کی حمایت کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔انھوں نے مزید کہا کہ اگر آپ دہشت گرد تنظیموں کے ارکان اور ان کے دشمنوں سے اتنی محبت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں تو ہم آپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے ممالک کی سلامتی کے لیے ان کا ہی تعاون حاصل کریں۔واضح ہو کہ سوئڈن ترکی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ اس کے اور فن لینڈ کی جانب سے ناٹو میں شامل ہونے کی درخواستوں کی توثیق کردے۔سوئڈن کو ترکی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس فوجی اتحاد کے تمام اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ اس معاملے میں صرف ترکی اور ہنگری کو ہی اعتراض ہے۔قرآن کو نذرآتش کرنے سے پہلے ہی ترکی نے سوئڈن سے کرد کارکنوں کو ترکی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اردغان نے پیر کے روز ایک بار پھر سوئڈن پر کرد نواز گروپوں بشمول کردستان ورکرز پارٹی کو ملک میں ریلیاں نکالنے کی اجازت دینے پر تنقید کی تھی۔واضح رہے کہ کردستان ورکرز پارٹی کو ترکی، یوروپی یونین اور امریکہ ایک دہشت گرد گروپ سمجھتے ہیں تاہم سوئیڈن میں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’’ایک طرف تو آپ دہشت گردتنظیموں کو اپنی سڑکوں اور چوراہوں پر چہل قدمی کرنے دیں گے، دوسری طرف ناٹو میں شامل ہونے کے لیے ہماری حمایت کی توقع کریں گے، ایسا نہیں ہوسکتا۔‘‘
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سوئڈن میں اسلام اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2007میں سوئڈن اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب وہاں سوئڈش کارٹونسٹ لارس ولکس نے اہانت رسول پر مبنی کارٹونوں کی ایک سیریز بناکر اسے مقامی اخباروں میں شائع کروایا تھا۔ ان اہانت آمیز کارٹونونس کے خلاف بھی ایسا ہی احتجاج ہوا تھا جیسا کہ اس وقت سوئڈن میں قرآن سوزی کے واقعہ پر ہورہا ہے۔ گستاخ کارٹونسٹ لارس ولکس کی اکتوبر2021 میں ایک سڑک حادثے میں موت ہوگئی تھی۔اہانت آمیز خاکوں کا معاملہ ہو یا پھر قرآن سوزی کے شرمناک واقعات، یہ سب مغرب میں جاری اسلاموفوبیا کی ایک بدترین شکل ہے جس پر مسلمان صبروضبط کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے اس قسم کی حرکتوں کے خلاف احتجاج کے پرامن طریقے اختیار کئے ہیں، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو مسلسل حالت جنگ میں رکھنا چاہتی ہیں تاکہ وہ اسلامی دنیا کے خلاف محاذآرائی کا جواز پیش کرسکیں۔
دراصل مغرب میں قرآن کریم کے خلاف منظم تحریک کا آغاز 2010 میں امریکی ریاست فلوریڈا سے ہواتھا۔ نائن الیون کے بعد ایک متعصب پادری ٹیری جونس نے سانحہ نیویارک کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس سال 11/ستمبر کو قرآن کریم جلانے کا دن قرار دیا، لیکن سرکاری مشنری کے حرکت میں آنے کے بعد اس نے قرآن سوزی کی تقریب منسوخ کردی، لیکن2011میں اس نے اپنے چرچ میں خودساختہ عدالت لگاکر قرآن کریم کے خلاف محاذآرائی کی اور ایک پادری نے قرآن سوزی کے جرم کاارتکاب کیا۔سوئڈن میں قرآن سو زی کی حالیہ حرکت کرنے والا راسموس پلوڈن ڈنمارک نڑاد سوئڈش شہری ہے۔ اس نے2019میں بھی ڈنمارک میں قرآن کریم کے خلاف ایک مظاہرے کا اعلان کیا تھا جسے وہاں موجود مسلمانوں نے ناکام بنادیا تھا۔ایک سال بعد2020میں اس نے ایک بار پھر شیطانی منصوبہ دوہرایا، لیکن حکام نے اسے گرفتار کرکے ڈنمارک بھیج دیا۔اب یہ وحشی ایک بار پھر وہی حرکتیں کرتا پھر رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑ کررہا ہے، اسے کھلا چھوڑنے کا مطلب کیا ہے؟ اگر مغرب کے نزدیک یہی اظہار رائے کی آزادی ہے تو پھر اس پر ہزار بار لعنت بھیجی جانی چاہئے۔اظہار رائے کی آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات سے جان بوجھ کرکھلواڑ کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔