... loading ...
اِس وقت دنیا میں کون سا ایسا ملک ہے ،جسے مہنگائی اور کساد بازاری کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی تو بات ہی چھوڑیے ،فی الحال تو ترقی یافتہ ممالک بھی مہنگائی کے گرداب میں چہار جانب سے بری طرح سے پھنسے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ مہنگائی کا عفریت عظیم برطانیہ کے دو، جمہوری وزیراعظم کا اقتدار نگل چکا ہے ۔جبکہ فرانس ،جرمنی ،اٹلی ،چین ،جاپان ،آسٹریلیا حتیٰ کہ عالمی سپر پاور امریکا کی حکومتیں بھی عالمی کساد بازاری کے طوفان کے مقابل سوکھے پتوں کی مانند لرز رہی ہیں ۔ جب مغربی اور یورپی ممالک ہی عالمی کساد بازاری کے شکنجہ سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کروا رہے تو ایسے میں قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی پاکستانی معیشت سے معجزے دکھانے کی خوش اُمید ی رکھنا ،سراسر زیادتی ہی بلکہ بے وقوفی بھی ہے۔
وہ ضرب المثل تو یقینا آپ نے سُنی ہی ہوگی کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتاہے۔ اگرتھوڑی دیر کے لیے ہی چشم تصور میں ،ہاتھی کو مہنگائی تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ سرِ دست، دنیا کے ہر چھوٹے بڑے ملک کا پاؤں ،ہاتھی کے پاؤں تلے آگیا ہے اور پاکستان جیسے ممالک کا تو معاشی پاؤںبری طرح سے کچلا گیا ہے۔ہماری ملکی معیشت کس بُری طرح سے عالمی کساد بازاری کی زد پر ہے ،اِس کا اندازہ صرف اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب گورنر اسٹیٹ بنک آف پاکستان تاجروں کے کسی وفد سے ملاقات کرتے ہیں تو بے چارے تاجر سوال کرنے کے بجائے گورنر اسٹیٹ بنک کے سامنے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردیتے ہیں ۔ جبکہ گورنر اسٹیٹ بنک اپنی معاشی تنگ دامنی کے باعث اس قدر مجبو ر ہیں کہ وہ روتے ہوئے تاجروں کو چپ کرانے کے لیے کوئی جھوٹا دلاسہ بھی اِس خوف سے نہیں دیتے کہ کہیں اُنہیں تاجروں سے کوئی ایسا وعدہ نہ کرنا پڑ جائے ،جسے پورا کرنا اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی انتظامی دست رس سے باہر ہو۔
یاد رہے کہ ہمارے گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ،جناب جمیل احمد صاحب سیدھے سادھے جمع ،تفریق اور ضرب ،تقسیم کے آدمی ہیں اور وہ جو بھی بات کرتے ہیں بالکل کھری اورسیدھی کرتے ہیں ۔اس لیے اُن کی کہی گئی زیادہ تر باتیں یا بیان کی گئی معاشی پالیسیاں سیدھا تاجروں کے دل میں تیر کی مانند کھب جاتی ہیں ۔ موصوف نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہاہے کہ ’’ ڈالر کے ریٹ کا فرق تب ہی ختم ہوگا جب عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا پروگرام مکمل ہوگا پروگرام کی تکمیل پر کرنسی مارکیٹ کے اعتدال پر آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔اس کے لیے ہمیں آج مشکل فیصلے لینے ہوں گے تاکہ آنے والا کل بہتر ہوسکے۔ اس کے لیے خرچے کم کرنے کی گنجائش نہیں بلکہ آمدنی میں اضافہ کرنا ہوگا۔‘‘مگر یہاں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کب تک مکمل ہوگا؟دراصل وہ بتا بھی نہیں سکتے تھے ،کیونکہ ابھی تک تو آئی ایم ایف پروگرام ٹھیک سے شرو ع بھی نہیں ہوا ،اور آئی ایم ایف کے منتظمین ابھی تک اِسی مخمصے میں ہیں پاکستان کو قرضہ کی نئی قسط دی بھی جائے یا نہیں ؟یعنی سردست امریکی ڈالر کا پاکستانی روپیہ مقابلے میں کسی ایک مقام پر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے قومی کفایت شعاری کمیٹی (این اے سی) بھی مختلف تجاویز پر غور کررہی ہے جن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی، وزارتوں/ ڈویژنوں کے اخراجات میں 15 فیصد کمی، وفاقی وزرائ، وزیر مملکت، مشیروں کی تعداد 78 سے کم کرکے صرف 30 کرنا شامل ہیں جبکہ باقی بلامعاوضہ کام کریں گے اور قومی خزانے سے کسی قسم کے وسائل سے مستفید نہیںہوں گے۔مگر یہاں بھی لطیفہ یہ ہے کہ حکومت ایک جانب کفایت شعاری کے نام پر سفارشات کو حتمی شکل دینے کا کام کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت نے ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام میں 3 ارب روپے کا اضافہ کیا اور صوابدیدی فنڈنگ کو 86 ارب روپے سے بڑھا کر 89 ارب روپے کر دیا جو پارلیمنٹیرینز کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ قومی کفایت شعاری کمیٹی بڑے پبلک سیکٹر اداروں کے نقصانات سے کیسے نمٹے گی کیونکہ اس سال پی آئی اے کا خسارہ 67 ارب روپے تک پہنچ گیا، پاکستان اسٹیل ملز، پاسکو، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور دیگر بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے تشکیل دی گئی کفایت شعاری کمیٹی اگلے ہفتے اپنی رپورٹ اُنہیں بھجوائے گی۔ کیا وہ مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ کے ذریعے پیش ہونے والی انتظامی نوعیت کی سفارشات پر عمل درآمد کا مشکل فیصلہ کرسکیں گے؟بظاہر تو ناممکن لگتاہے ، اگر کرگئے تو بہت بڑی بات ہوگی۔
دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بنک نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ تمام بینکس کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ بندرگاہوں پر اترے ہوئے کینٹینرز کلئیر کرنے کے لئے امپورٹرز کی سہولت کاری کریں۔مذکورہ بیان کے تسلسل میں فوری اور سب سے اچھی خبر یہ سننے میں آئی ہے کہ وفاقی وزیر بحری امور سینیٹر فیصل سبزواری نے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم پر درآمد کنندگان کے پھنسے ہوئے ہزاروں کنٹینرز کے مکمل چارجز معاف کردیے ہیں۔ تاجر برادری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ہم اس معاملے پر کئی روز سے اسٹیک ہولڈز سے مشاورت کر رہے تھے اورپھر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میںشپنگ لائنز کا کاروبار جاری رہے گا، دنیا بھر میں کساد بازاری ہے، چین نے کورونا کی وجہ سے پابندیاں عائد کیں، جن ممالک نے ڈیفالٹ کیا وہاں بھی شپنگ کمپنیوں نے کاروبار بند نہیں کیا اور پاکستان میں بھی ایسا نہیں ہونے جارہا‘‘۔یہ اقدام اِس لیئے بھی بالکل ٹھیک لگتا ہے کہ اگر ملکی معیشت شدید خسارے میں ہے تو خسارے سے نکلنے کے لیئے حکومت کو جو پیسے درکار ہوں گے وہ بھی کاروباری سرگرمیوں سے ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔ یقینا ایل سیز کھلنے کا سلسلہ شروع ہونے سے معطل کاروباری سرگرمیوں کا ازسرِ نو آغاز ہو گا اور ملکی معیشت کا پہیہ سست رفتاری سے ہی سہی بہرحال چلنا تو شروع کرے گا۔
لیکن دوسری طرف اِس حکومتی اقدام کا یہ منفی پہلو بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ درآمدات کے باعث پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا ۔اَب حکومتی معاشی اداروں کا اصل امتحان یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں اور تجارتی خسارہ کے درمیان توازن کیسے قائم کیا جاتاہے۔ اس بابت بھی گورنراسٹیٹ بنک نے بڑی پتے کی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ امسال گروتھ کی شرح دو فیصد تک رہنے کا امکان ہے جبکہ امپورٹس کا حجم کم کرنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارا بھی کم ازکم دس ارب ڈالر سے نیچے لایا جاسکتا ہے۔ عالمی کساد بازاری اور مہنگائی کے باعث بیرونی ممالک سے ترسیلات زر میں کمی ہورہی ہے اورملکی سیاست میں سر گرم حکومت مخالف عناصر کی منفی سرگرمیوں سے فزوں تر ہوتی سیاسی کشیدگی کے نتیجے میں چھائی بے یقینی کی فضا ملکی معاشیات پر جو برے اثرات مرتب کر رہی ہے وہ ملک و قوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے اسی بے یقینی کی وجہ سے پاکستان کو درپیش اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے مددگار کے طور پر پیش آنے والے عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے بھی پاکستان کے ساتھ طے شدہ معاہدات پر عمل درآمد کے لیے مزید سخت شرائط لگائی جارہی ہیں جنہیں تسلیم کرنے کی صورت میں پاکستانی عوام مزید مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں‘‘۔
دراصل گورنر اسٹیٹ بنک جمیل احمد صاحب سادہ ترین الفاظ میں کہنا یہ چاہ رہے ہیں ،سیاسی استحکام کے بغیر ملکی معیشت کے لاعلاج مرض کا شافی علاج کسی بھی صورت نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ہمارے ملک میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ سیاسی استحکام پاکستانی عوام، تاجر وں ، صنعت کاروں اور سب سے بڑھ کر ملکی معیشت کے مفاد میں تو ضرور ہے لیکن بعض عاقبت نااندیش اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کے مفاد میں بالکل بھی نہیں ہے اور مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ایسے سیاست دانوں کی دلی خواہش یہ ہے کہ ملک زیادہ سے زیادہ سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو کر جلد ازجلد ڈیفالٹ ہوجائے ۔ تاکہ اُن کے لیئے اقتدار کی مشکل راہیںہموار اور موافق ہوسکیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭