... loading ...
اس دور کا یہ کیسا سنگین المیہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بے پناہ دولت اور وسائل ہیں،وہ تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہیں اور دنیا کا سارا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری ان غریبوں کے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے جو خود اپنا بوجھ اٹھانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔پوری دنیا میں معیشت کا جو نیاقانون نافذ ہے، اس کے تحت غریب دن بہ دن غریب اور امیر دن بہ دن امیر ہوتا چلا جارہا ہے۔ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں اس صورتحال نے بھیانک رخ اختیار کرلیا ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ لوگ نان شبینہ کو محتاج ہوتے چلے جارہے ہیں۔ معاشی خلیج اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ تباہی پھیلانے کے لیے کسی اور ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے۔غریبوں، لاچاروں، مجبوروں اور محروموں کے ملک ہندوستان کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہاں 70کروڑ لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے، اتنی صرف 21امیر لوگوں کے پاس ہے۔ اس سے آپ معاشی نابرابری کی بھیانک صورتحال کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔یہ صورتحال اس ملک میں ہے جہاں دنیا کے سب سے زیادہ یعنی 22کروڑ غریب انسان بستے ہیں، جن کی تعداد22کروڑ ہے۔
عوام کو حکومت نے اس فریب میں مبتلا کردیا ہے کہ ہندوستان جلد ہی دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے۔ اس وقت بھی ہم دنیا کے تیسرے سب سے مالدار ملک ہیں، لیکن جب ہم اپنے گریبان میں منہ ڈالتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اس ملک میں غربت بھی اسی تیزی سے بڑھ رہی جس تیزی کے ساتھ امیری میں اضافہ ہورہا ہے۔امیر بننے والوں کی تعداد صرف سیکڑوں میں ہوتی ہے، لیکن غریب ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔عالمی معاشی فورم ’آکسفوم‘ کے تازہ اعداد وشمار چونکانے والے ہیں۔’آکسفوم‘ درحقیقت ۲۱غیرسرکاری تنظیموں کا ایک پلیٹ فارم ہے جو1942 میں قایم ہوا تھا اور اس کا بنیادی مقصد دنیا سے غربت اور محرومی کا خاتمہ کرنا ہے۔
آکسفوم کی تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے دوسال میں ہندوستان میں ۶۴ /ارب پتی بڑھے ہیں اور صرف 100ہندوستانی ارب پتیوں کی دولت54لاکھ کروڑ سے زائد ہے۔یعنی ان کے پاس حکومت ہند کے ڈیڑھ سال کے بجٹ سے زیادہ دولت ہے۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تمام ارب پتیوں کی دولت پر بمشکل دوفیصد ٹیکس لگتا ہے۔اگر اس دولت پر مناسب ٹیکس لگایا جائے تواس سے ملک کے تمام بھوکے لوگوں کو آئندہ تین سال تک کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ٹیکس کا سارا بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتاہے اورامیروں کو اس لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہیکہ یہیسیاسی پارٹیوں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عوام صرف ووٹ دیتے ہیں اور یہ سرمایہ دار نوٹ دیتے ہیں۔اگر ان امیروں پر تھوڑا زیادہ ٹیکس لگادیا جائے اور ضروری اشیائ پر ٹیکس گھٹا دیا جائے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کے غریب لوگوں کو پہنچے گا۔موجودہ صوتحال یہ ہے کہ ابھی ملک میں جتنی پیداوار ہوتی ہے اس کا چالیس فیصد حصہ صرف ایک فیصد لوگ ہضم کرجاتے ہیں، جبکہ پچاس فیصد لوگوں کو اس کا تین فیصد حصہ ہی ہاتھ لگتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ پچاس فیصد لوگ جن کی گردن پہلے ہی ماردی گئی ہوتی ہے، ان سے حکومت جی ایس ٹی کا 64فیصد پیسہ وصول کرتی ہے جب کہ ملک کے دس فیصد سب سے زیادہ مالدار لوگ صرف تین فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔ان دس فیصد لوگوں کے مقابلے نچلے پچاس فیصد لوگ چھ گنا زیادہ ٹیکس بھرتے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو اپنی روزمرہ کی ضروری اشیائ کو خریدنے پر بہت زیادہ ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ ان کو بتائے بغیر ہی خاموشی سے کاٹ لیا جاتا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے ۷۰/کروڑ لوگوں کی مجموعی دولتملک کے صرف 21ارب پتیوں سے بھی کم ہے۔سال بھر میں ان کی دولت میں 121فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کورونا دور میں جب ہرطرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی اور لاکھوں لوگ موت کے منہ میں جارہے تھے،ان سرمایہ دور کی دولت میں اضافہ درج کیا گیا۔ شاید اسی لیے کارل مارکس نے کہا تھا کہ’’جب غریب لوگ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کرنے لگیں گے تو سرمایہ دار سّیاں بنانے اور بیچنے کا دھندہ شروع کردیں گے۔‘‘
معاشیات ایک خشک موضوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ جو لوگ معیشت کے نشیب وفراز اور اس کی کمزوریوں سے واقف ہیں، وہ دواور دو پانچ کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ عام آدمی کو تو صرف یہی فکر ستاتی رہتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے اور اپنے بچوں کی روٹی کا بندوبست کرے۔ عالمی معاشی فورم نے اپنی تازہ رپورٹ میں جو اعداد وشمار پیش کئے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کے امیرلوگوں پر اگر مناسب ٹیکس لگایا جائے تو کس طرح غربت اور افلاس کے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ فورم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے دس سب سے زیادہ امیر لوگوں پر پانچ فیصد ٹیکس لگانے سے بچوں کو اسکول واپس لانے کے لیے پوری رقم مل سکتی ہے۔ صرف ایک ارب پتی گوتم اڈانی کو 2017 اور 2021کے درمیان جو منافع حاصل ہوا ہے، اس پر معمولی ٹیکس لگاکر پونے دولاکھ کروڑ سے زیادہ اکھٹا کئے جاسکتے ہیں جو ہندوستان کے پرائمری اسکولوں کے پچاس لاکھ ٹیچروں کو ایک سال کے لیے روزگار دینے کے لیے کافی ہیں۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے اگر ارب پتیوں کی دولت پر دوفیصد کی شرح سے یکمشت ٹیکس لگایا جائے تو آئندہ تین سال تک غذائی قلت کا شکار لوگوں کی آبادی کو کھانا کھلانے میں مدد ملے گی۔
آکسفوم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بیہر نے اپنی رپورٹ میں ملک کی سب سے زیادہ مظلوم آبادی کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں دلت، آدیواسی،مسلمان،خواتین اور غیرمنظم زمرے کے مزدور ایک جنجال میں پھنسے ہوئے ہیں، جو سب سے امیرلوگوں کی بقائ کے ضامن ہیں۔انھوں نے کہا کہ غریب زیادہ ٹیکسوں کی ادائیگی کررہے ہیں۔وہ ضروری اشیائ اور خدمات پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ خرچ کررہے ہیں۔امیروں پر ٹیکس لگانے اور اس بات کو یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے کہ وہ منصفانہ حق ادا کریں۔‘‘
یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی معاشی فورم نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی زمینی صورتحال کا جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ امیروں کی دولت دراصل غریبوں کاخون چوس کر بڑھ رہی ہے۔ آئے دن اخبارات میں یہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ فلاں ہندوستانی صنعت کارنے اپنا نام دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں درج کرالیا ہے یا فلاں صنعت کار ایشیائ کا سب سے بڑے تاجر بن گیا ہے۔مگر یہ دولت اور تجارت دراصل غریبوں کی قیمت پر بڑھ رہی اور بدقسمتی سے حکومت اس میں پوری طرح شریک ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی بھی اسی لیے کی جاتی ہے تاکہ اس کا فائدہ سرمایہ داروں کو پہنچے۔ اس کے برعکس غریبوں کا سب کچھ نچوڑلیا جاتا ہے۔ جب سے جی ایس ٹی کا لگان شروع ہوا ہے تو ضروریات زندگی کی کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس سے آزاد ہو۔اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے درست ہی کہا ہے کہ’’بی جے پی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کا عام شہری معاشی نابرابری کی گہری کھائی میں پھنس گیا ہے اور ملک کی بیشتر دولت چند مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔‘‘پارلیمنٹ کا اجلاس عنقریب شروع ہونے والا ہے جس میں حکومت نیا بجٹ پیش کرے گی۔ آکسفوم کی چشم کشا رپورٹ کے بعد کیا سرمایہ داروں کی بے تحاشہ دولت میں سے کچھ رقم غربت کا عذاب دور کرنے کے کام میں لا ئی جائے گی۔ کیا امیروں پر زیادہ ٹیکس عائد کرکے غریبوں کو کچھ راحت دی جائے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔