... loading ...
پیپلزپارٹی تو کجا مقتدر قوتوں نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کراچی بلدیاتی انتخابات میں زبردست دھاندلی کا خوف ناک منصوبہ اسی کا غماز ہے۔ پیپلزپارٹی کا تصورِسیاست اہلِ کراچی کو نہیں بھاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے اختلافات رکھنے والے بھی جانتے تھے کہ اُن کے دامن میں کچھ سیاسی تصورات تھے، وہ پاکستان کے سیاسی اُفق پر اپنا ایک سایہ رکھتے تھے۔ مگر آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کے دامن میں کچھ بھی نہیں۔ دولت پر اپنے بے پناہ اعتماد اور سیاست میں بدعنوانی کو ایک قدر کے طور پر راسخ کرنے کے علاوہ اب زرداری ٹولے کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ اُن کے ارد گرد پیپلزپارٹی کے سیاسی زعماء نہیں سودا کار رہتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت (2013تا 2018) میںجب آصف علی زرداری صدر تھے، تو اپنی بدترین معاشی بدعنوانیوں پر اُٹھنے والے سوالات پر وہ کندھے اُچکا لیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں چند ماہ کی مدت ہی باقی رہ گئی تھی۔وہ مختلف معاشی فضیتوں (اسکینڈلز) کے باعث سوالات کے نرغے میں تھی۔ اُن دنوں ایوان صدر میں صحافیوں کے ساتھ ایک بیٹھک میں جناب زرداری سے سوال ہوا کہ وہ اتنی بڑی بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا انتخابی میدان میں کیسے کر سکیں گے؟ زرداری نے لمحہ بھر تامل کیے بغیر جواب دیا کہ” وہ الیکشن خرید لیں گے”۔جناب زرداری کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو بھی خریدنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی کے کارکنان سمیت کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ ملے گا،جو جناب زرداری کی بدعنوانیوں پر یقین نہ رکھتا ہو۔ پاکستان کا پورا عدالتی و سیاسی نظام اس کالی دولت کا محافظ بن چکا ہے۔ چنانچہ ہمیں انتخابی عمل کو یرغمال بنا نے کی ”انتظامی” ہمت کے ساتھ اب اِسے دولت سے قابو کرنے کی بدترین عوام دشمن روش کا بھی سامنا ہے۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات نے یہ ثابت کیا کہ انتظامی مشنری اس مکروہ کھیل کی چاکری کرنے میںمصروف رہی۔ الیکشن کمیشن سندھ بالعموم اور بالخصوص کراچی و حیدرآباد میں ایک شفاف انتخاب دینے میں مکمل ناکام رہا۔
کراچی میں پیپلزپارٹی کو پہلی بڑی انتخابی جماعت کے طور پر اُبھارنے کی مشق بھونڈی ، بھدی، گدلی اور گندی ہے ، جس کا دفاع کرنے والے شرم کی ایک ادنیٰ رمق بھی نہیں رکھتے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو اس بُری طرح سے اُدھیڑا گیا ہے کہ اس سے کوئی ایک یونین کمیٹی کا نتیجہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ اس گندگی کو پھیلانے کے لیے انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر کی گئی ۔ چوبیس گھنٹے سے زائد وقت تک انتخابی نتائج کو التواء میں رکھا گیا۔ الیکشن کمیشن نے سب سے پہلے فارم گیارہ اور بارہ پولنگ ایجنٹوں کو دینے سے انکار کیا۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ انتخابات کے دوران مطلوبہ دھاندلی کی جا چکی تھی۔ پھر بھی اس دھاندلی کے باوجود پیپلزپارٹی وہ ہندسہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی جو میئر کے انتخاب میں درکار تھا۔ چنانچہ انتخابی نتائج میں تاخیر کر کے اس پر غور کیا گیا کہ میئر کے لیے 124 کا جادوئی ہندسہ حاصل کرنے کے لیے مزید کون سی بے شرمی دکھائی جا سکتی ہے؟ اس دوران جماعت اسلامی کے کارکنان اور تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹ ڈٹ گئے اور وہ فارم گیارہ اور بارہ حاصل کیے بغیر پریزائیڈنگ افسران کے سامنے ٹلنے سے انکاری ہو گئے۔ یہاں تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں بے نقاب ہوئیں کہ وہ کراچی میں حمایت رکھنے کے باوجود اس کی حفاظت کا کوئی انتظامی ڈھانچہ نہ رکھتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ایسی یوسیز میں بھی پولنگ ایجنٹ تک نہیں رکھتے تھے جہاں سے وہ جیت سکتے تھے، یا جہاں دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کا مکمل فائدہ پیپلز پارٹی نے اُٹھایا۔ جس نے زیادہ تر نشستیں تحریک انصاف کی نگل لیں۔ جماعت اسلامی کے پاس اپنی کامیاب نشستوں کا دفاع فارم گیارہ اور بارہ کی شکل میں تھا۔ مگر تحریک انصاف جن یونین کمیٹیوں میں کامیاب ہوئی تھی ، اسے ثابت کرنے کے لیے اُن کے پاس ایسا کوئی دفاع نہیں تھا۔ واضح تھا کہ پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی کو ہڑپنے کے زیادہ بڑے کھیل میں ان کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے قابل تھی۔ پھر کراچی بلدیاتی انتخاب کا سب سے بڑا ہدف بھی پیپلزپارٹی کی برتری کے ساتھ پی ٹی آئی کو کھدیڑنا تھا۔ تاکہ یہ عام انتخابات میں کراچی اور سندھ کی حد تک کوئی بڑی جماعت دکھائی نہ دے۔ یہ ہدف صرف پیپلزپارٹی کا نہیں تھا۔ بلکہ یہ اُن ”سلیکٹرز” کا تھا، جن کی اصل سلیکٹڈ جماعت پچھلے اٹھارہ بیس برسوں سے ”پیپلزپارٹی” ہے اور جنہیں سندھ اور کراچی میں بغیر کسی رکاؤٹ کے ہر قسم کی کھلی کرپشن کی ”منافع بخش” اجازت ملی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے تمام انتظامی و ریاستی ادارے پیپلزپارٹی کے مجرمانہ طور پر شراکت دار بن چکے ہیں۔ بدقسمتی کا یہ منحوس اتحادی چکر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اہلِ کراچی کے لیے زیادہ مایوس کن رہا۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو دو دن پہلے یہ یقین دلا دیا گیا تھا کہ حیدرآباد اور کراچی میں پیپلزپارٹی اپنا میئر لانے کا انتظامی بندوبست رکھتی ہے۔ بلاول بھٹو نے انتخابات سے صرف ایک روز پہلے ذرائع ابلاغ کے سامنے اس کا اعلان بھی کردیا۔ یہ اعلان کسی عوامی حمایت پر نہیں بلکہ نظام کی یقین دہانی اور انتظامی بندوبست کا نتیجہ تھا۔ جناب زرداری کی سرپرستی میں ایک سسٹم مافیا کا کراچی میں بے حد چرچا ہے۔ جو اے جی مجید کے ذریعے کارگزار ہے۔ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے تمام اہم علاقوں میں جہاں زمینوں پر قبضوں کا دھندا کیا جاتا ہے، وہاں انتظامی مشنری اور ڈپٹی کمشنرز کا تقرر یہی مافیا کرتا ہے۔ کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی انتخاب میں اس انتظامی مشنری کی ہی الیکشن کمیشن سے تال میل تھی۔ اس کھیل کی اجازت دینے والے ایک بار پھر تاریخ کا سبق فراموش کرگئے۔ اُنہیں 1971ء کا سانحہ یاد نہیں رہا۔
متحدہ پاکستان میں7 دسمبر 1970ء کے پہلے عام انتخابات میںیہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ قومی اسمبلی کی کل 300نشستوں میں سے حکومت سازی کے لیے درکار 151کا ہندسہ عوامی لیگ کے پاس تھا، جس نے 160نشستیں حاصل کر لی تھیں۔ اس کے برعکس پیپلزپارٹی نے 81نشستیں حاصل کی تھیں۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کا پاکستان پر حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا۔ کراچی میں یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے، کیونکہ یہاں پر پیپلز پارٹی نے نشستیں بھی جعل سازی سے حاصل کی ہے یعنی وہ اپنا میئر اُن نشستوں کی تعداد پر لانا چاہ رہی ہے جو دراصل جیتی ہوئی نہیں بلکہ ہتھیائی ہوئی ہیں۔ یہی نہیں، پیپلزپارٹی ہتھیائی ہوئی نشستوں کے باوجود میئر کے لیے 124 نشستوںکا وہ ہندسہ نہیں رکھتی جو میئر کے لیے درکار ہے۔ اس کے لیے وہ جناب زرداری کی کالی دولت پر انحصار کررہی ہے جو دیگر جماعتوں کے کامیاب چیئرمین خرید کر میئر کے لیے مطلوب حمایت بہر قیمت حاصل کرنے پر تُلی بیٹھی ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی نے اپنے میئر کے اِصرار کے ساتھ جماعت اسلامی کو اتحاد کی پیشکش کی ہے، مگر وہ اپنا میئر لانے کے لیے کسی جماعت کی حمایت کے بجائے ہر جماعت کو توڑنے اور اس کے اندر سے چیئرمین کی حمایت ”خریدنے” پر ہی زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جسے جو آتا ہے، وہ وہی کرتا ہے۔ اس کھیل میں پیپلزپارٹی سیاست نہیں کاروبار کر رہی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں، جن میں سے کافی سارے برائے فروخت ہیں۔ افسوس ناک طور پر پیپلزپارٹی کراچی کی میئرشپ کے لیے جس کھیل کو رچا رہی ہے وہ ذہنی طور پر اہلِ کراچی کو مکمل مایوس کررہا ہے۔ وہ انتخابی عمل میں اپنے مینڈیٹ پر قبضے کے دیرینہ کھیل کے تسلسل کو دیکھتے ہوئے اب سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ بااثر قوتوں سے مایوس ہو رہے ہیں۔ اگلے ماہ وسال کراچی ایک خونی ردِ عمل کے راستے پر جاسکتا ہے اور یہ صرف پی ٹی آئی کو ناکامی سے دوچار دکھانے کے لیے پیپلزپارٹی کو ملنے والی کھلی چھٹی کے باعث ہو گا۔ مقتدر قوتیں اس کھیل سے جو حاصل کر رہی ہیں، اس کے بجائے یہ حساب لگائیں کہ وہ اس کھیل میں کھو کیا رہی ہیں؟ کراچی کا مینڈیٹ چُرانے کے چار دہائیوں سے زیادہ پُرانے کھیل کے نتیجے میں اہلِ کراچی پر کیا نفسیاتی اور سیاسی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس پر توجہ دینے کے لیے ابھی کوئی تیار نہیں۔مگر اس کے ردِ عمل کی چاپ بہت جلد سب کو متوجہ کر ے گی، مگر تب وقت گزر چکا ہوگا۔افسوس تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭