وجود

... loading ...

وجود

بازی نہیں ہونی چاہیئے؟

پیر 23 جنوری 2023 بازی نہیں ہونی چاہیئے؟

بازار میں اشیاء خورد نوش کی کمی نظر نہیں آتی ، سبزیوں اور پھلوں سے ٹھیلے بھرے ہوئے ہیں،لیکن ان کو خریدنے والے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں، اکثر پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ کے دام پوچھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، گوشت کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے، لوگ سستے آٹے کی تلاش میں ماری مارے پھر رہے ہیں،انڈے ، دودھ ، ڈبل روٹی اور خوردنی تیل اور گھی کے ریٹ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ رمضان کی آمد میں ابھی تین ماہ باقی ہیں۔ لیکن ملک بھر میں آٹے کے بعد سستے گھی اور کوکنگ آئل کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کو سستے آٹے، گھی، تیل کی سپلائی بند ہو چکی ہیلوگ گھنٹوں یوٹیلیٹی اسٹورز پر لائین میں اس امدی پر کھڑے رہتے ہیں کہ انھیں آٹے کا تھیلہ یا سستے گھی اور کوکنگ آئل کا ڈبہ مل جائے گا، لیکن اسٹور پر یہ اسٹاک آتے ہی ختم ہوجاتا ہے، اور لوگ لائین میں لگے کھڑے خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔
ملک میں مافیا کا راج ہے، تاجر صنعتکار، سیاست دان ، بیوکریٹ سب لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ عوام کو اکوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تیل اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ آئل کمپنیوں کی جانب سے سپلائی میں کمی کردی گئی جس کی وجہ سے ہول سیل مارکیٹ میں گھی اور آئل میں تیزی کا رحجان ہے،یہ سب رمضان کے لیے اسٹاک تیار کرہے ہیں، جو نئی قیمتوں کے ساتھ آئے گا اور کوکنگ آئل کی قیمت میں مزید اضافے کردیا جائے گا۔ قیمتوں میں من مانا اضافہ کرنا،ذخیرہ اندوزی کرنا،ملاوٹ کرنا،عیب چھپا کر مال فروخت کرنا، کم تولنا، کم ناپنا ہمارے معاشرے میں عام ہوگیا ہے، اب نہ کسی کو دین کا خیال ہے، اور نہ ہی دنیا کا ، لوگ ڈھٹائی سے ملاوٹ کررہے ہیں، بلکہ فتوی بھی لیتے ہیں کہ چائے کی پتی میں ہم چھلکا ملاتے ہیں،جو مضر صحت نہیں ہے، نیز اس کا مقصد چائے کی پتی کو ذائقہ دار بنانا ہے۔شرعی اور معاشرتی طور پر یہ برائی ہے۔ جس کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی گنجائش نہیں۔ آج کا تاجر اگرچہ مسلمان ہے اور اْسے ان چیزوں کی برائی کا علم بھی ہے، مگر وہ یہ سب کام کر رہا ہے۔ اْسے یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ اْس کی ملاوٹ سے عوام کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے: جس کے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ جاتا ہے تو اس کے تمام اعضا گناہ میں ملوث ہوتے ہیں اور وہ جسم جہنم کے قابل ہے۔یہ تاجر دیندار بھی ہیں، جبہ قبا دستار اور داڑھی والے بھی ہیں، خیرات و زکوٰۃ بھی کرتے ہیں۔ لیکن حرام کما رہے ہیں۔ یہ تاجرنہ جانے لوگوں کو کیا کیا حرام اور حلال ملا کر کھلا رہے ہیں۔ بہت سے کیمیکل ایسے ہیں جن کو غذائوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ کوئی لیبارٹری نہیں جو ان کا ٹیسٹ کرے۔ کہ کون سے کیمیکل غذا یا دوسری قابل استعمال اشیا میں استعمال کرنے چاہییں اور وہ حلال بھی ہیں۔ آج کل حرام اور حلال کی ملاوٹ عام ہو گئی ہے۔ تاجروں کو ذاتی ناجائز منافع کمانے کی ہوس ہوگئی ہے۔ تاجر کی جہالت بھی معاشرہ کو لے ڈوبتی ہے۔حکمران بھی ملاوٹ میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ کھلے عام رشوت کا بازار گرم ہے۔ بازاروں اور تاجروں پر حکومت کی کوئی رٹ قائم نہیں ہے۔ اس چور بازاری میں ہمارا معاشرہ بھی ساتھ دے رہا ہے۔ لوگ جانتے ہوں کہ ملاوٹ ہو رہی ہے، اس کے باوجود وہ اپنی کوشش سے تاجروں کو منع نہ کریں تو یہ لوگ بھی ملاوٹ میں کسی حد تک شامل ہیں۔ دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے۔ اناج میں پانی، مٹی، کنکر اور روڑے ملائے جاتے ہیں۔ غذاو?ں میں حرام کیمیکل ملائے جاتے ہیں۔ اصلی گھی، شہد حتیٰ کہ لال مرچ تک خالص نہیں مل پاتی۔
ان گنت اشیا میں ملاوٹ ہو رہی ہے، جس میں انسانوں کی صحت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ آج ملک میں خالص اور صاف پانی تک میسر نہیں۔ مٹھائی سے لے کر دوائی تک غلط اشیا کی ملاوٹ نے تاجروں کا اعتماد ختم کر دیا ہے۔ عوام جن کے ہاتھ میں ایک اختیار ہے کہ اْن کو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر حال میں وہی کھانا پڑتا ہے، جو بازار میں میسر ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان اپنے کردار میں اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ زہر کو زہر جانتے ہوئے بھی کھا رہے ہیں؟مکہ مدینہ کو عمرہ پر بار بار جانے والے تاجر وں کے سامنے سعودی عرب کا معاشرہ بھی ہے، وہ بھی مسلمان ہیں اور ان کے ہاں نہ صرف اشیائے خوردنی سستی ہیں، بلکہ خالص بھی ہیں۔ وہاں اگر کسی جگہ سے ملاوٹ شدہ سامان آنے کی خبر ہوتی تو وہاں کے حکام ایسی برآمدات کو ختم کر دیتے ہیں اور تاجروں کو بھی سزا دیتے ہیں۔ ہمیں بھی ہر حال میں اپنے معاشرے کو ملاوٹ سے پاک کرنا چاہیے۔ لوگ علمائے کرام سے باغی ہوتے جارہے ہیں کیوں کہ وہ ان کے وقول و عمل میں بھی تضاد پاتے ہیں۔ معاشرے میں فری لائف(آزاد منش) طرز زندگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مرغی کے گوشت کی قیمت میں اضافے نے عوام کو گوشت سے بھی محروم کردیا ہے، گائے کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے، بکرے کا گوشت تو متوسط طبقے کے لیے ایک خواب ہی ہوگیا ہے، پنجاب میں تو فوڈ اٹھارٹی کچھ نہ کچھ کاروائی کرتی ہے، لیکن صوبہ سندھ اور کراچی میں اس محکمہ کی کوئی کاروائی نظر نہیں آتی ، سب کو فری ہینڈ دیا گیا ہے، کہ وہ جو چاہیں ، لوگوں کو کھلائیں، جو ملاوٹ کرنا چاہیں کریں۔ یہاں ہر چیز کی رشوت کا ریٹ مقرر ہے۔ گندم کے ذخائر موجود ہونے کے باوجود سندھ حکومت کی آٹے کی فراہمی میں ناکامی اور اس کی قیمت میں اضافہ اس کی پیشانی پر ایک سیاہ داغ ہے۔ رمضان میں بیسن کی کھپت بڑ جاتی ہے، اور جعلی بیسن جس میں ناقص دالیں، اور جانے کیا کیا ملایا جاتا ہے، یہ جعلی بیسن ٹنوں کے حساب سے تیار کرکے عوام کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔مٹھائی کی دکانوں پر قیمتیں ہوشربا حد تک بڑھ چکی ہیں۔ اس وقت انسانوں میں ۰۷ سے ۰۸ فی صد بیماریاں یا تو ملاوٹ والی خوراک کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یا پھر ناخالص خوراک کی وجہ سے۔
پاکستان میں گردے کے امراض سے ہونے والے ہلاکتوں کی تعداد سالانہ بیس ہزار ہے۔ جبکہ تین کروڑ کے لگ شہری گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں۔ 2021 میں سرطان سے دو کروڑ افراد متاثر ہوئے ، اور ایک کروڑ اموات ہوئیں، ہپاٹائٹس میں مبتلا دو کروڑ اور دل کی بیماریوں میں مبتلا چار کروڑ ہیں۔ اِس کے علاوہ ذیابیطس، فشارِ خون اور دْوسری تکالیف کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ یہ سب ناقص خوراک کا شاخسانہ ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد مئیر شپ کے لیے تینوں جماعتوں ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے دومیان دوڑ لگی ہے۔ جماعت اسلامی کے لیے دونوں جماعتیں ایک طرف کنواں اور دوسری جانب کھائی ہے۔ دوسری جانب یہ بھی شنید ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کی اس کامیابی کو ملکی سیاست میں ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر کراچی کے مینڈیٹ پر ملکی سیاست میں جماعت اسلامی نے کوئی سودے بازی کی تو یہ کراچی کے عوام سے غداری ہوگی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر