... loading ...
میرٹھ کے مفتی عصمت اللہ کا تعلق محلہ مفتی صاحبان میں سکونت پذیر مفتیوں کے مشہور خاندان سے تھا۔اپنے بزرگوں کی روایت کے مطابق مفتی صاحب بھی عالم فاضل آدمی تھے۔طویل عرصہ ایک مقامی سرکاری مدرسے میں اردو اور فارسی پڑھانے پر مامور رہے۔
مفتی صاحب کے صاحب زادے حامد اللہ نے جب ہوش سنبھالا تو انھوں نے بچے کی تربیت کے لیے ایک نرالی راہ اختیار کی۔ابتدا میں گھر پر خود ہی اردو اور فارسی پڑھانا شروع کی۔جب دیکھا کہ میاں صاحب زادے لکھنے پڑھنے میں رواں ہو گئے ہیں تو حکم ہوا کہ روزانہ اپنی پسند کے کسی موضوع پر اردو میں ایک مضمون لکھ کر ہمیں دکھایا کرو۔دل چسپ بات یہ ہے کہ موضوع کی کوئی قید نہیں تھی ۔حامد اللہ چاہے تو گائے ، بھینس پر بھی لکھ سکتا تھا ، اور چارپائی ، برتن اور پھول جیسے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی اجازت تھی ۔اب فنِ مضمون نگاری سیکھنے کی ترتیب یہ تھی کہ میاں صاحب زادے روزانہ ایک صفحے کا مضمون لکھ کر نمازِ مغرب کے بعد ابا حضور کی خدمت میں پیش کرتے۔مفتی صاحب بیٹے کا لکھا ہوا مضمون اونچی ا?واز سے پڑھتے ، مضمون نگار کو خوب شاباش دیتے اورسال کے ا?خر میں یہ تین سو پینسٹھ مضامین مجلّد کرا لیے جاتے۔نیا سال شروع ہوتا تو مفتی صاحب کی طرف سے حامد اللہ کو دو کام سونپے جاتے۔پہلا یہ کہ مضمون نویسی کی یہ مشق حسبِ معمول جاری رکھی جائے ، اور دوسرا یہ کہ مضمون نگار گزشتہ برس اسی تاریخ کو لکھے گئے اپنے مضمون کی سرخ روشنائی سے خود ہی اصلاح بھی کرے۔مضمون نویسی کی یہ مشق کئی برس تک جاری رہی ۔
حامد اللہ تھے تو آخر بچے ہی ،سو کسی روز مضمون لکھنے کا ناغہ بھی ہو ہی جاتا۔اور مضمون نویسی کی مشق میں ناغہ مفتی عصمت اللہ کو ہر گز گوارا نہ تھا۔چنانچہ جس رو ز حامد اللہ مضمون نہ لکھ پاتے ، اْس روز انھیں سزا ضرور ملتی۔لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مفتی صاحب بیٹے سے خفا ہوتے ، نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرتے ، بلکہ تنبیہ کے لیے بھی انھوں نے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا۔عام معمول یہ تھا کہ دونوں باپ بیٹے رات کا کھانا دیوان خانے میں اکٹھے کھاتے تھے۔لیکن جس دن حامد اللہ مضمون نہ لکھتے ، اْس شام مفتی صاحب زنان خانے میں کہلوا بھیجتے کہ آج کھانا صرف حامد اللہ کے لیے بھیجا جائے۔کھانا ا? جانے کے بعد حامد اللہ کو حکم ہوتا کہ آج تم اکیلے کھانا کھاو ، ہم نہیں کھائیں گے۔اور یہ ایسی سخت سزا تھی ، جس کی حامد اللہ تاب نہ لا پاتے۔یہی وجہ تھی کہ بعض مرتبہ تیز بخار میں جلتے بھْنتے بھی وہ ایک صفحے کا مضمون ضرور لکھ لیتے تاکہ شام کو انھیں اکیلے کھانا نہ کھانا پڑے۔
چونکہ رات کو حامد اللہ دیوان خانے میں والد کے پاس ہی سوتے تھے ، اس لیے مفتی صاحب سونے سے پہلے انھیں تاریخ اسلام کی برگزیدہ اور معروف شخصیات کی زندگیوں کے قصے سنایا کرتے۔چنانچہ گھریلو تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب حامد اللہ کو انگریزی سکول میں داخل کرایا گیا، تب مفتی صاحب کی طرف سے حکم ہوا کہ اب اپنی پسند کے موضوع پر لکھنے کے بجائے پچھلی شب کو سْنے گئے مشاہیر کے واقعات میں سے کوئی ایک قصہ اپنے الفاظ میں لکھ کر دکھایا کرو۔
مالک رام نے ‘ تذکرہِ معاصرین ‘ میں مفتی عصمت اللہ کے جس بیٹے کی مضمون نگاری کا یہ قصہ بیان کیا ہے ، انھوں نے بڑے ہو کر ادبی دنیا میں حامد اللہ افسر میرٹھی کے نام سے شہرت پائی۔جوتعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ جوبلی کالج لکھنو میں اردو کے استاد مقرر ہوئے اور وائس پرنسپل کے عہدے تک ترقی پائی۔شاعری ، افسانہ ، ڈرامہ ، تنقید ، ترجمہ ، بچوں کے لیے کہانیاں ، الغرض مختلف اصنافِ ادب میں کئی کتابیں بطور یادگار چھوڑیں۔یہ اشعار انھی کے ہیں۔۔
تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے
لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے
جو غم حد سے زیادہ ہو ، خوشی نزدیک ہوتی ہے
چمکتے ہیں ستارے ، رات جب تاریک ہوتی ہے
بے شک اس قصے میں آج کل کے ماں باپ کے لیے بڑا سبق
پنہاں