وجود

... loading ...

وجود

رحمان راہی۔ کشمیر ی زبان کا محافظ چلا گیا

جمعه 20 جنوری 2023 رحمان راہی۔ کشمیر ی زبان کا محافظ چلا گیا

 

کشمیری یا کاشرزبان نے اپنی دو ہزار سالہ تاریخ میں کئی جید شاعر و ادیب پیدا کئے ہیں، جنہوں نے اس خطے کی تہذیب و ثقافت پر گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ جہاں للا دید، شیخ نورالدین ولی اور محمود گامی نے عارفانہ فلسفیانہ کلام پیش کیا ، تو وہیں غلام احمد مہجور اور مشتاق کشمیری سالہا سال سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کی آواز بن گئے۔ حالیہ عرصے میں اگر اس زبان کے کسی ادیب و شاعر نے نام کمایا، تو وہ بلا شبہ عبدالرحمان میر المعروف رحمان راہی تھے، جنہوں نے کشمیر ی زبان کی تخلیقی نشونما میںغیر معمولی خدمات انجام د یے۔ مل کشمیر کے اس عظیم فرزندنے 9جنوری کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ پہلے کشمیر مصنف تھے، جن کو ان کے شعری مجموعہ” سیاہ رود جیران منز” (سیاہ بوندا باندی) کے لیے 2004 میں اعلیٰ ترین ادبی اعزاز گیان پیٹھ سے نوازا گیا۔ گیان پیٹھ ایک غیر سرکار ادارہ ہے، جو ہر سال کسی ایک زبان کے ادیب یا شاعر کو تخلیقی ادب میں غیر معمولی خدمات انجام دینے کے اعتراف میں نوازتا ہے۔ ان کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ مترجم کی حیثیت سے انہوں نے بابا فرید کی پنجابی صوفی شاعری کا کشمیری زبان میںترجمہ کیا۔ ان کی پیدائش سرینگر میں 1925میں ہوئی۔ سرینگر کے ہی گورنمنٹ ایس پی کالج سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1948 میںمحکمہ پبلک ورکس میں بحیثیت کلرک انہوں نے کئی ماہ تک کام کیا۔اس کے بعد پھراپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے جموں و کشمیر یونیورسٹی سے 1952میں فارسی اور 1962 میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ صحافت کے میدان میں قدم رکھ کر ”روزنامہ خدمت ” کے ساتھ بھی کام کیا اور اردو ربان و ادب کے معتبر ادبی رسالے ”آج کل ” کی مجلس ادرات کے ساتھ سات سال تک وابستہ رہے۔کشمیر یونیورسٹی میں بارہ سال تک شعبہ فارسی اور اردو میں استاد رہے اور بعد میں شعبہ کشمیری کے بانی اور سربراہ رہنے کے بعد 1985 میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ راہی صاحب انجمن ترقی پسند مصنفین (کشمیر ) کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ مرحوم صحافی مقبول ساحل کو2018 میں ہفتہ وار کشمیر پرچم کیلئے ایک تفصیلی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کو احساس ہو گیا تھا کہ کمیونزم ٹکنے والا نظریہ نہیں ہے۔ ”اسٹالن نے اسکو بری طرح ایکسپوز کر دیا تھا۔ ” ان کا کہنا تھا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ذمہ دار کی حیثیت سے علی سردار جعفری کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا تھا، مگر ساہتیہ اکیڈیمی کے ایک ادبی سیمینار میں ایک ادبی موضوع پر سجاد ظہیر کی رائے کے ساتھ اختلاف کرنا انکو بھاری پڑا۔ جس سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ترقی پسندوں کا ذہن آمرانہ ہو چکا ہے اب وہاں مشوروں کی جگہ حکم نامے جاری ہوتے ہیں ، جس سے و ہ دلبرداشتہ ہوگئے۔
سری نگر کی ہفتہ وار ادبی مجلس کے دوران انہوں نے اپنی ایک نظم ”سونہ لانکہ پیٹھ” سنائی، جو انہوں نے اپنے برادر اکبر کی وفات کے حوالے سے موت و حیات کے فلسفہ پر لکھی تھی۔” ا س نشست میں مجھ پر طنز کیا گیا، کہ میں موت کا فلسفہ لے کر بیٹھ گیا۔ اس دن مجھے لگا کہ مجھے اس دنیا سے باہر نکلنا چاہئے۔” بقول برج ناتھ بیتاب، ان کی شاعری میں گل و بلبل اور کشمیر کے قدرتی نظاروں کی رومانیت تو نہیں ہے، مگر ان کا قلم وسیع تر سروکاروں کو تمام تر انسانی دردمندی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ گو کہ ان کا شمار انقلابی یا مزاحمتی شاعروں میں نہیں ہوتا ہے ، مگر کشمیر کے حالات و واقعات سے وہ لاتعلق بھی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر : اس شب سیاہ شہر کا کوئی خدا نہیں یاد کسی کو صبح کی کیا کوئی دعا نہیں (کشمیری سے ترجمہ) کون تھا ، اسے کیو ں مارا اور لاش کیا ہوئی سو باتوں کی ایک ہی بات نہیں خبر وخاموشی (کشمیر ی سے ترجمہ) مرحوم راہی نے متعددبار جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما محمد یا سین ملک کے دھرنوں میں حصہ لیا۔کشمیری زبان کی زبوں حالی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار انہوں نے کہا کہ صدیوں کی غلامی کے سبب اس زبان کو اپنا بھر پور جوہر دکھانے کا موقع نہیں ملا۔ تاہم ایک طویل جبر کے باوجود اسکی قوت مدافعت اس کے باشندوں کے صبر کی طرح قابل داد ہے۔ انہوں نے انگریزی، فرانسیسی، جرمن، روسی اور ترکی زبانوں کے بعض عمدہ فن پاروں کو کشمیری زبان میں منتقل کرنے کا بھی کام کیا۔ 2003میں جب پہلی بار بھارت کی انسانی وسائل کے وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے تجویز دی کہ کشمیری زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائے ، تو انہوں نے سوال کیا کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم صرف کشمیری زبان پر ہی کیوں؟ کیونکہ اس سے پچھلے 600 برسوں سے وجود میں ا?یا کشمیری زبان و ادب نابود ہو جائے گا۔ نریندر مودی حکومت نے برسرِاقتدار ا?نے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اوڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کے لیے ایک یادداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اوڑیہ کو بھارت میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دیے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریریں1500سال یا اس سے زیادہ قدیم ہوں۔
اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثے کے زمرے میں ا?تا ہو۔ نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشرزبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لیے خیال تھا کہ یہ عرض داشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائے گی۔ عرض داشت میں بتایا گیا تھا کہ ”کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ بھارت میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے ماخذ بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔ مگرحکومت کا کہنا ہے کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دیے جانے کی اہل ہے، مگر شرط ہے کہ اس کے لیے اس کا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا۔ جب اس وقت کشمیری ثقافت ، انفرادیت اور تہذیب انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور ایک طرح سے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ایسے وقت راہی کا منظر سے غائب ہونا کشمیری ادب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ اس زبان کی عزت و آبرو کا محافظ چلا گیا۔ان کے خود کے ہی اشعار کے بقول : بہت آئے، مگر ہم جیسے کم ہی دیدہ ور آئے ہماری طرح جو، ان کے لب و رخ تک گزر آئے انہی تاریکیوں میں آئوہم ڈھونڈے کرن کوئی یہ کب تک انتظار کہ شب گزرے ، سحر آئے سچ ہے کہ نہ جانے کب تک کشمیری قوم کو سحر کا اور کسی دیدہ ور انتظار ہے۔۔۔الوداع رحمان راہی صاحب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر