وجود

... loading ...

وجود

سفید پوش جائیں تو کہاں جائیں

اتوار 15 جنوری 2023 سفید پوش جائیں تو کہاں جائیں

 

انگریز دور میں پنڈت موتی لال نہرو مرکزی اسمبلی میں قائد ِ حزب ِ اختلاف تھے ۔ایوان میں ان کے ساتھ دیوان چمن لال ، مسٹر رنگا آئر ، پنڈت شام لال نہرو اور مسٹر ریڈی جیسے جوشیلے نوجوان بھی تھے ، جو فرنگی سرکار کے مقابلے میں ہمیشہ کانگرس اور پنڈت نہرو کا ساتھ دیتے ۔سرکار نے انھیں قابو کرنے کے لیے ایک ترکیب سوچی ۔کسی ایشو پر ایک عدد تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا گیا اور ان حکومت مخالف ارکان کو نوید سنائی گئی کہ انھیں اس کمیشن کا رکن بنایا جا رہا ہے اور ہر رکن کو ماہانہ بھاری الاؤنس بھی دیا جائے گا ۔پنڈت نہرو کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے فوری طور پر تمام کانگریسی ارکانِ اسمبلی کو حکم جاری کیا کہ کوئی بھی ایم ایل اے حکومت کے بنائے گئے کسی کمیشن کی رکنیت قبول نہ کرے ، کیونکہ کمیشن کے ارکان کو دیا جانے والا الاؤنس بھی دراصل ایک قسم کی رشوت ہے ۔
پنڈت جی کے اس حکم نامے سے ان ارکانِ اسمبلی کو تو کوئی پریشانی نہ ہوئی جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ، لیکن اسمبلی رکنیت کی ماہانہ تین سو روپے تنخواہ لینے والے سفید پوش ارکان سخت پریشان ہوئے ،کیونکہ اس کے علاوہ ان کا کوئی اور ذریعہ آمدنی نہیں تھا ۔ان ارکان نے پنڈت شام لال کو پنڈت نہرو کے پاس سفارشی بنا کر بھیجا کہ وہ کانگریسی ارکان کو حکومتی کمیشن کی رکنیت لینے سے نہ روکیں ، تاکہ سرکار کی طرف سے ملنے والے الاؤنس سے ان کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہے ۔پنڈت شام لال نے جب یہ پیغام پنڈت نہرو تک پہنچایا تو انھوں نے جواب میں کہا ،
’کانگریسی ارکان ِ اسمبلی بھیک مانگیں ، کسی سے قرض لیں یا پھر چوری کریں ، لیکن حکومتی کمیشن کی رکنیت کسی صورت قبول نہ کریں کہ یہ انھیں بددیانت بنانے کی سازش ہے‘۔
اپنے چچا کی یہ بات سن کر پنڈت شام لال نہرو نے عرض کیا ،
’ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سفید پوشی کے باعث ہمیں بھیک مانگتے شرم آتی ہے ، ہم تو قرض لینے کو تیار ہیں لیکن کوئی ہمیں قرض دیتا نہیں ، اور چوری کے الزام میں جیل جانے کی ہم میں ہمت نہیں ‘۔
برصغیر کے معروف اخبار نویس دیوان سنگھ مفتون اپنی کتاب ’سیف و قلم ‘ میں یہ قصہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس دنیا میں سفید پوشی
بھی ایک مصیبت ہے ، اگر اس کے ساتھ تنگ دستی بھی ہو ، کیونکہ سفید پوش نہ تو اپنے وقار سے محروم ہو سکتا ہے ، اور نہ ہی اس کی خود داری کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہے ۔پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ بیوہ ہونے کی صورت میں نہ تو جاٹ کی بیوی تباہ ہوتی ہے کیونکہ وہ دوسری شادی کر لیتی ہے ، اور نہ براہمنی خاندان کی عورت ، کیونکہ وہ دوسروں کے گھروں سے خیرات لے کر اپنا پیٹ پال لیتی ہے ۔لیکن کھترانی عورت کی زندگی برباد ہو جاتی ہے ،کیونکہ بیوہ ہونے کے بعد وہ دوسری شادی کر سکتی ہے نہ خاندانی وقار اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتا ہے ۔چنانچہ وہ چار دیواری کے اندر ہی گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی ختم کر لیتی ہے ۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے سماج میں بھی سفید پوش طبقے کا یہی حال ہو چکا ہے کہ وہ نہ زندوں میں ہے نہ مُردوں میں ۔ اربابِ اقتدار کی معاشی پالیسیوں نے یوں تو سماج کے ہر طبقے کو شدید متاثر کیا ، لیکن سفید پوش طبقہ تو مسائل کی چکی میں پِس کر رہ گیا ہے ۔ گزارے لائق آمدنی میں یوٹیلٹی بلز ، گھر کا کرایہ ، مہینے بھر کا راشن اور بچوں کے تعلیمی اخراجات ، گنجی نہائے کیا اورنچوڑے کیا ۔اوپر سے گندم اور آٹے کے بحرا ن نے ہر کہ و مہ کو لائن میں کھڑا کر دیا ہے ۔حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند روز قبل میرپور خاص میں مقامی انتظامیہ نے سستے آٹے کا اسٹال لگا یا ۔آٹے کا سنتے ہی مخلوقِ خدا اُمڈ پڑی ۔اسی دوران دھکم پیل کے نتیجے میں ایک مزدور جان کی بازی ہار گیا ۔ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئی متوفی کی تصویر کے مطابق اسے اپنے چھ بچوں کے لیے آٹا تو مل گیا ، لیکن جان جاتی رہی ۔یہ ٹھیک ہے کہ شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی حاکم ِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ لیکن اس سلسلے میں سماج کو بھی کچھ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔ اور پھر ہمارے ہاں تو مٹی ہی بڑی زرخیز ہے ۔زلزلہ ہو یا سیلاب ، پورا ملک مصیبت میں پھنسے اپنے بہن بھائیوں کے لیے دامنِ دل کشادہ کر دیتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں بھی مالی وسعت رکھنے والے لوگ آگے بڑھیں اور سفید پوش طبقے کے دست و بازو بنیں۔یہ لوگ آپ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے ، اپنی ضرورت کا بھی اظہار نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے چہرے پر لکھی ان کی ضرورتیں صاف دکھائی دینگیں ۔آپ آس پڑوس میں نگاہ دوڑائیے ، اور کسی کے ہاتھ پھیلانے سے پہلے ہی اس کا ہاتھ تھام لیجیے ۔یاد رہے کہ رزق سخاوت میں پوشیدہ ہے ۔ جتنا بانٹیں گے ، خدا کے فضل سے اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر