... loading ...
انگریز دور میں پنڈت موتی لال نہرو مرکزی اسمبلی میں قائد ِ حزب ِ اختلاف تھے ۔ایوان میں ان کے ساتھ دیوان چمن لال ، مسٹر رنگا آئر ، پنڈت شام لال نہرو اور مسٹر ریڈی جیسے جوشیلے نوجوان بھی تھے ، جو فرنگی سرکار کے مقابلے میں ہمیشہ کانگرس اور پنڈت نہرو کا ساتھ دیتے ۔سرکار نے انھیں قابو کرنے کے لیے ایک ترکیب سوچی ۔کسی ایشو پر ایک عدد تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا گیا اور ان حکومت مخالف ارکان کو نوید سنائی گئی کہ انھیں اس کمیشن کا رکن بنایا جا رہا ہے اور ہر رکن کو ماہانہ بھاری الاؤنس بھی دیا جائے گا ۔پنڈت نہرو کو اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے فوری طور پر تمام کانگریسی ارکانِ اسمبلی کو حکم جاری کیا کہ کوئی بھی ایم ایل اے حکومت کے بنائے گئے کسی کمیشن کی رکنیت قبول نہ کرے ، کیونکہ کمیشن کے ارکان کو دیا جانے والا الاؤنس بھی دراصل ایک قسم کی رشوت ہے ۔
پنڈت جی کے اس حکم نامے سے ان ارکانِ اسمبلی کو تو کوئی پریشانی نہ ہوئی جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے ، لیکن اسمبلی رکنیت کی ماہانہ تین سو روپے تنخواہ لینے والے سفید پوش ارکان سخت پریشان ہوئے ،کیونکہ اس کے علاوہ ان کا کوئی اور ذریعہ آمدنی نہیں تھا ۔ان ارکان نے پنڈت شام لال کو پنڈت نہرو کے پاس سفارشی بنا کر بھیجا کہ وہ کانگریسی ارکان کو حکومتی کمیشن کی رکنیت لینے سے نہ روکیں ، تاکہ سرکار کی طرف سے ملنے والے الاؤنس سے ان کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہے ۔پنڈت شام لال نے جب یہ پیغام پنڈت نہرو تک پہنچایا تو انھوں نے جواب میں کہا ،
’کانگریسی ارکان ِ اسمبلی بھیک مانگیں ، کسی سے قرض لیں یا پھر چوری کریں ، لیکن حکومتی کمیشن کی رکنیت کسی صورت قبول نہ کریں کہ یہ انھیں بددیانت بنانے کی سازش ہے‘۔
اپنے چچا کی یہ بات سن کر پنڈت شام لال نہرو نے عرض کیا ،
’ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ سفید پوشی کے باعث ہمیں بھیک مانگتے شرم آتی ہے ، ہم تو قرض لینے کو تیار ہیں لیکن کوئی ہمیں قرض دیتا نہیں ، اور چوری کے الزام میں جیل جانے کی ہم میں ہمت نہیں ‘۔
برصغیر کے معروف اخبار نویس دیوان سنگھ مفتون اپنی کتاب ’سیف و قلم ‘ میں یہ قصہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس دنیا میں سفید پوشی
بھی ایک مصیبت ہے ، اگر اس کے ساتھ تنگ دستی بھی ہو ، کیونکہ سفید پوش نہ تو اپنے وقار سے محروم ہو سکتا ہے ، اور نہ ہی اس کی خود داری کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہے ۔پنجابی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ بیوہ ہونے کی صورت میں نہ تو جاٹ کی بیوی تباہ ہوتی ہے کیونکہ وہ دوسری شادی کر لیتی ہے ، اور نہ براہمنی خاندان کی عورت ، کیونکہ وہ دوسروں کے گھروں سے خیرات لے کر اپنا پیٹ پال لیتی ہے ۔لیکن کھترانی عورت کی زندگی برباد ہو جاتی ہے ،کیونکہ بیوہ ہونے کے بعد وہ دوسری شادی کر سکتی ہے نہ خاندانی وقار اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتا ہے ۔چنانچہ وہ چار دیواری کے اندر ہی گھٹ گھٹ کر اپنی زندگی ختم کر لیتی ہے ۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے سماج میں بھی سفید پوش طبقے کا یہی حال ہو چکا ہے کہ وہ نہ زندوں میں ہے نہ مُردوں میں ۔ اربابِ اقتدار کی معاشی پالیسیوں نے یوں تو سماج کے ہر طبقے کو شدید متاثر کیا ، لیکن سفید پوش طبقہ تو مسائل کی چکی میں پِس کر رہ گیا ہے ۔ گزارے لائق آمدنی میں یوٹیلٹی بلز ، گھر کا کرایہ ، مہینے بھر کا راشن اور بچوں کے تعلیمی اخراجات ، گنجی نہائے کیا اورنچوڑے کیا ۔اوپر سے گندم اور آٹے کے بحرا ن نے ہر کہ و مہ کو لائن میں کھڑا کر دیا ہے ۔حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند روز قبل میرپور خاص میں مقامی انتظامیہ نے سستے آٹے کا اسٹال لگا یا ۔آٹے کا سنتے ہی مخلوقِ خدا اُمڈ پڑی ۔اسی دوران دھکم پیل کے نتیجے میں ایک مزدور جان کی بازی ہار گیا ۔ذرائع ابلاغ کو جاری کی گئی متوفی کی تصویر کے مطابق اسے اپنے چھ بچوں کے لیے آٹا تو مل گیا ، لیکن جان جاتی رہی ۔یہ ٹھیک ہے کہ شہریوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی حاکم ِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ لیکن اس سلسلے میں سماج کو بھی کچھ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔ اور پھر ہمارے ہاں تو مٹی ہی بڑی زرخیز ہے ۔زلزلہ ہو یا سیلاب ، پورا ملک مصیبت میں پھنسے اپنے بہن بھائیوں کے لیے دامنِ دل کشادہ کر دیتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں بھی مالی وسعت رکھنے والے لوگ آگے بڑھیں اور سفید پوش طبقے کے دست و بازو بنیں۔یہ لوگ آپ کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے ، اپنی ضرورت کا بھی اظہار نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے چہرے پر لکھی ان کی ضرورتیں صاف دکھائی دینگیں ۔آپ آس پڑوس میں نگاہ دوڑائیے ، اور کسی کے ہاتھ پھیلانے سے پہلے ہی اس کا ہاتھ تھام لیجیے ۔یاد رہے کہ رزق سخاوت میں پوشیدہ ہے ۔ جتنا بانٹیں گے ، خدا کے فضل سے اتنا ہی بڑھتا چلا جائے گا ۔
٭٭٭٭