... loading ...
بس ان کے ہاتھ میں بندوق کے بجائے کمپیوٹر اور فون دیا گیا۔ ایک صحافی کی حیثیت سے انورادھا بتا رہی ہیں کہ بھارت کے مین سٹریم میڈیا کا رول اس دورا ن نہایت ہی بدبختانہ رہا۔ جمہوریت کے ایک ستون کا کردار نبھانے کے بجائے اس میڈیا نے ہندوتوا کے خانے میں رنگ بھر کر کشمیریوں کی زندگیا ں مزید اجیرن بنادیں۔ مواصلاتی پابندیوں سے عوام کو ہراساں و پریشان کردیا گیا۔ کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گائوں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و لینڈ فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کیلئے ان کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پولیس اہلکاروں نے تحصیلدار تک پیغام پہنچانے کے لیے ان کوا پنے وائرلیس سیٹ کا استعمال کرنے تو دیا مگر کوئی مدد نہیں آئی۔ آخر کار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر 2019کو راجوری پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔ اسی ضلع کے تھانمنڈی کے ایک اور سرپنچ نے بتایا کہ لاک ڈائون شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد فوج اور پولیس نے بافلیاز گائوں میں چھاپے مارے، گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور لوگوں کو مارا پیٹا۔ فون ، انٹرنیٹ، ٹی وی وغیرہ بند ہونے کی صورت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انو رادھا کے مطابق کشمیر میں ہر دور میں ہی کٹھ پتلی حکومتیں رہی ہیں، جو نئی دہلی کے اشاروں پر کام کر تی تھیں۔ بھارت نے توکشمیر کے سب سے بڑے لیڈرشیخ عبداللہ تک کو نہیں چھوڑا۔ قید و بند کی زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے آخری ماہ و سال نئی دہلی کی چھتر چھایا میں گزارکر اقتدار سنبھالا مگر اس کے باوجود ان مقامی سیاستدانوں کو چند آزادیاں مہیا تھیں اور ایک سرخ لکیر تھی، جس کو نئی دہلی کے حکمرانوں کو عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
5 اگست کو یہ لکیر روند دی گئی اور اس وقت ان سیاستدانوں کی حالت سب سے قابل رحم ہے۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ مرکز میں حکمران بی جے پی مسلم اکثریتی خطہ کو کنٹرول کرنے اور اس پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔اس کے لئے مسلم لیڈروں کو منقسم رکھنا ہے، کشمیری سیاست دانوں کو گڈے گڑیا کے طور پر کام کرنا ہے۔ کسی کو مراعات دیکر ، کسی کو تعدیب کا نشانہ بناکر ، تو کسی کو بے عزت کرکے بی جے پی کیلئے اقتدار کا راستہ صاف کرنا ہے۔ 2018میں جب دو مقامی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے ہاتھ ملایا اور حکومت سازی کیلئے دعوی ٰ پیش کیاتو گورنر ستیہ پال ملک نے بتایا : چونکہ کوئی دعویٰ نہیں آیا، اس لیے وہ گورنر راج نافذ کررہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔ جب ان کو بتایا گیا کہ محبوبہ مفتی نے اراکین اسمبلی کی اکثریت کے دستخطوں پر مشتمل خط ان کو بھیجا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے دفتر کی فیکس مشین خراب تھی اس لیے حکومت سازی کے دعویٰ کا خط ا ن کو مل نہیں سکا۔ دفعہ 370 کے خاتمہ کے دو ماہ بعد ہی کم از کم 7.27 مربع کلومیٹر کا جنگل کا رقبہ فوج کے حوالے کر دیا گیا اور 1,800 سے زیادہ درختوں کی کٹائی کی منظوری دی گئی۔ 26 جولائی 2020 کو جموں و کشمیر کی انتظامی کونسل نے مزید دو ترامیم کرنے کی منظوری دی تھی۔ جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے کو ‘اسٹریٹجک ایریاز’ کے طور پر ڈیکلیر کیا جاسکتا ہے، جہاں مسلح افواج بلا روک ٹوک تعمیرات اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ مئی 2020 کو سری نگر سے تقریباً 26 کلومیٹر دور پٹن میں بھارتی فوج کی ایک یونٹ نے 129 کنال اراضی پر قبضہ جمالیا۔ پہلے پانچ مہینوں کے اندر ہی بڑے پیمانے پر زمین کی تلاش کی مشق میں، جموں و کشمیر حکومت نے صنعتی انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے کشمیر کے علاقے میں 203,020 ایکڑ سرکاری اراضی میں سے 15,000 ایکڑ کی نشاندہی کی۔ حکام کے مطابق اس زمین کا زیادہ تر حصہ ماحولیاتی طور پر حساس ہے کیونکہ یہ یا تو دریائوں، ندیوں اور دیگر آبی ذخائر کا حصہ ہے یا اس کے قریب ہے۔ جموں میں ترقی کے لیے 42,000 ایکڑ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کی فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی نے 727 ہیکٹر (1,780 ایکڑ) سے زیادہ جنگلاتی اراضی کو تبدیل کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس نے نامزد جنگلاتی علاقوں اور سوشل فارسٹ کے علاقوں میں کم از کم 1,847 درختوں کی کٹائی کی بھی منظوری دی ہے۔
ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے منصوبوں کے لیے جلد بازی سے منظوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے 198 منصوبوں کو 18 ستمبر سے 21 اکتوبر 2019 تک تینتیس دنوں کے دوران چار اجلاسوں میں منظور کیا گیا۔ 12ابواب پر مشتمل 400صفحات کی یہ کتاب، جو بین الاقوامی اشاعتی ادارے ہارپر کولنس نے شائع کی ہے، صحافیوں اور کشمیر پر تحقیقی اور مطالعاتی کام کرنے والوں کیلئے ایک نہایت ہی عمدہ گائڈ ہے۔ نہایت ہی سشتہ صحافتی زبان میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں بھارت کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اسکو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ ، گلی گلی بھارت کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائینگے۔ کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی ، جس کے ذریعے اکثریتی آبادی کو بے وقعت کرنے کا سامان کیا گیا، اب آسام میں دہرایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ جموں و کشمیر کے بعد تناسب کے اعتبار سے سب سے بڑی مسلم آبادی یعنی 34فیصد آسام میں ہی ہے۔ اسی طرح کشمیر میں مقامی آبادی کو زمینوں سے بے دخل کرنے کا تجربہ اب بحیرہ عرب میں لکشدیب جزائر میں دہرایا جا رہا ہے، جہاں کے مسلم قبائلیوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ کشمیر پر مودی حکومت کے اقدامات کے ایک د ن بعد یعنی 6اگست 2019 کو معروف کالم نویس پرتاپ بانو مہتہ نے انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا کہ بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس کے قدم سے کشمیر کا ’’بھارتیہ کرن‘‘ ہوگا، مگر یہ وقت ہی بتائے گا کہ کہیں یہ قدم بھارت کے’’ کشمیر کرن ‘‘کرنے کا سبب تو نہیں بنے گا۔ بھارت کے باضمیر افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ مودی حکومت نے تو کشمیر میں قبرستان کی خاموشی طاری کر دی ہے، وہ کب اپنی خاموشی توڑ دیں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو یادرکھیں، وہ جرمن پادری مارٹن نیومولر کی اس نظم کی عملی تفسیر بن جائینگے۔۔ پہلے وہ سوشلسٹوں کے لیے آئے، اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونینوں کے لیے آئے، اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کے لیے آئے، اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔پھر وہ میرے لیے آئے — اور میرے لیے بولنے کے لیے کوئی بچا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔