وجود

... loading ...

وجود

کشمیر کی کسمپرسی :انورادھا بھسین کی تحقیقی کتاب

اتوار 15 جنوری 2023 کشمیر کی کسمپرسی :انورادھا بھسین کی تحقیقی کتاب

 

بس ان کے ہاتھ میں بندوق کے بجائے کمپیوٹر اور فون دیا گیا۔ ایک صحافی کی حیثیت سے انورادھا بتا رہی ہیں کہ بھارت کے مین سٹریم میڈیا کا رول اس دورا ن نہایت ہی بدبختانہ رہا۔ جمہوریت کے ایک ستون کا کردار نبھانے کے بجائے اس میڈیا نے ہندوتوا کے خانے میں رنگ بھر کر کشمیریوں کی زندگیا ں مزید اجیرن بنادیں۔ مواصلاتی پابندیوں سے عوام کو ہراساں و پریشان کردیا گیا۔ کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گائوں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و لینڈ فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کیلئے ان کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پولیس اہلکاروں نے تحصیلدار تک پیغام پہنچانے کے لیے ان کوا پنے وائرلیس سیٹ کا استعمال کرنے تو دیا مگر کوئی مدد نہیں آئی۔ آخر کار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر 2019کو راجوری پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔ اسی ضلع کے تھانمنڈی کے ایک اور سرپنچ نے بتایا کہ لاک ڈائون شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد فوج اور پولیس نے بافلیاز گائوں میں چھاپے مارے، گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور لوگوں کو مارا پیٹا۔ فون ، انٹرنیٹ، ٹی وی وغیرہ بند ہونے کی صورت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انو رادھا کے مطابق کشمیر میں ہر دور میں ہی کٹھ پتلی حکومتیں رہی ہیں، جو نئی دہلی کے اشاروں پر کام کر تی تھیں۔ بھارت نے توکشمیر کے سب سے بڑے لیڈرشیخ عبداللہ تک کو نہیں چھوڑا۔ قید و بند کی زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے آخری ماہ و سال نئی دہلی کی چھتر چھایا میں گزارکر اقتدار سنبھالا مگر اس کے باوجود ان مقامی سیاستدانوں کو چند آزادیاں مہیا تھیں اور ایک سرخ لکیر تھی، جس کو نئی دہلی کے حکمرانوں کو عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
5 اگست کو یہ لکیر روند دی گئی اور اس وقت ان سیاستدانوں کی حالت سب سے قابل رحم ہے۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ مرکز میں حکمران بی جے پی مسلم اکثریتی خطہ کو کنٹرول کرنے اور اس پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔اس کے لئے مسلم لیڈروں کو منقسم رکھنا ہے، کشمیری سیاست دانوں کو گڈے گڑیا کے طور پر کام کرنا ہے۔ کسی کو مراعات دیکر ، کسی کو تعدیب کا نشانہ بناکر ، تو کسی کو بے عزت کرکے بی جے پی کیلئے اقتدار کا راستہ صاف کرنا ہے۔ 2018میں جب دو مقامی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے ہاتھ ملایا اور حکومت سازی کیلئے دعوی ٰ پیش کیاتو گورنر ستیہ پال ملک نے بتایا : چونکہ کوئی دعویٰ نہیں آیا، اس لیے وہ گورنر راج نافذ کررہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔ جب ان کو بتایا گیا کہ محبوبہ مفتی نے اراکین اسمبلی کی اکثریت کے دستخطوں پر مشتمل خط ان کو بھیجا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے دفتر کی فیکس مشین خراب تھی اس لیے حکومت سازی کے دعویٰ کا خط ا ن کو مل نہیں سکا۔ دفعہ 370 کے خاتمہ کے دو ماہ بعد ہی کم از کم 7.27 مربع کلومیٹر کا جنگل کا رقبہ فوج کے حوالے کر دیا گیا اور 1,800 سے زیادہ درختوں کی کٹائی کی منظوری دی گئی۔ 26 جولائی 2020 کو جموں و کشمیر کی انتظامی کونسل نے مزید دو ترامیم کرنے کی منظوری دی تھی۔ جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے کو ‘اسٹریٹجک ایریاز’ کے طور پر ڈیکلیر کیا جاسکتا ہے، جہاں مسلح افواج بلا روک ٹوک تعمیرات اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ مئی 2020 کو سری نگر سے تقریباً 26 کلومیٹر دور پٹن میں بھارتی فوج کی ایک یونٹ نے 129 کنال اراضی پر قبضہ جمالیا۔ پہلے پانچ مہینوں کے اندر ہی بڑے پیمانے پر زمین کی تلاش کی مشق میں، جموں و کشمیر حکومت نے صنعتی انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے کشمیر کے علاقے میں 203,020 ایکڑ سرکاری اراضی میں سے 15,000 ایکڑ کی نشاندہی کی۔ حکام کے مطابق اس زمین کا زیادہ تر حصہ ماحولیاتی طور پر حساس ہے کیونکہ یہ یا تو دریائوں، ندیوں اور دیگر آبی ذخائر کا حصہ ہے یا اس کے قریب ہے۔ جموں میں ترقی کے لیے 42,000 ایکڑ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کی فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی نے 727 ہیکٹر (1,780 ایکڑ) سے زیادہ جنگلاتی اراضی کو تبدیل کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس نے نامزد جنگلاتی علاقوں اور سوشل فارسٹ کے علاقوں میں کم از کم 1,847 درختوں کی کٹائی کی بھی منظوری دی ہے۔
ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے منصوبوں کے لیے جلد بازی سے منظوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے 198 منصوبوں کو 18 ستمبر سے 21 اکتوبر 2019 تک تینتیس دنوں کے دوران چار اجلاسوں میں منظور کیا گیا۔ 12ابواب پر مشتمل 400صفحات کی یہ کتاب، جو بین الاقوامی اشاعتی ادارے ہارپر کولنس نے شائع کی ہے، صحافیوں اور کشمیر پر تحقیقی اور مطالعاتی کام کرنے والوں کیلئے ایک نہایت ہی عمدہ گائڈ ہے۔ نہایت ہی سشتہ صحافتی زبان میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں بھارت کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اسکو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ ، گلی گلی بھارت کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائینگے۔ کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی ، جس کے ذریعے اکثریتی آبادی کو بے وقعت کرنے کا سامان کیا گیا، اب آسام میں دہرایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ جموں و کشمیر کے بعد تناسب کے اعتبار سے سب سے بڑی مسلم آبادی یعنی 34فیصد آسام میں ہی ہے۔ اسی طرح کشمیر میں مقامی آبادی کو زمینوں سے بے دخل کرنے کا تجربہ اب بحیرہ عرب میں لکشدیب جزائر میں دہرایا جا رہا ہے، جہاں کے مسلم قبائلیوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ کشمیر پر مودی حکومت کے اقدامات کے ایک د ن بعد یعنی 6اگست 2019 کو معروف کالم نویس پرتاپ بانو مہتہ نے انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا کہ بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس کے قدم سے کشمیر کا ’’بھارتیہ کرن‘‘ ہوگا، مگر یہ وقت ہی بتائے گا کہ کہیں یہ قدم بھارت کے’’ کشمیر کرن ‘‘کرنے کا سبب تو نہیں بنے گا۔ بھارت کے باضمیر افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ مودی حکومت نے تو کشمیر میں قبرستان کی خاموشی طاری کر دی ہے، وہ کب اپنی خاموشی توڑ دیں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو یادرکھیں، وہ جرمن پادری مارٹن نیومولر کی اس نظم کی عملی تفسیر بن جائینگے۔۔ پہلے وہ سوشلسٹوں کے لیے آئے، اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونینوں کے لیے آئے، اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کے لیے آئے، اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔پھر وہ میرے لیے آئے — اور میرے لیے بولنے کے لیے کوئی بچا نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر