... loading ...
سیاست میں دوستیاں اور مخالفتیں مستقل نہیں ہوتیں بلکہ حالات و واقعات کے تناظر میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ سیاستدان عام طور پرایک دوسرے سے بات چیت کے لیے دروازے بند نہیں کرتے مگر گزشتہ چندہفتوں سے پنجاب میں جو کچھ ہوا ہے یہ ماضی کی روایات سے قدرے مختلف ہے حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے سے بات تک کرنے کی روا دارنہیں پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی اکثریت عیاں حقیقت ہے جسے کسی صورت جھٹلا ناممکن نہیں مگربدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اعتماد کا ووٹ اتنی آسانی سے لے لیا جائے گا پی ڈی ایم رہنمائوں کیاکسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھامگراب یہ انہونی ہو گئی ہے یقین نہ آنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رانا ثنااللہ اور عطاتارڑ نے سب کو یقین دلا رکھاتھا کہ پنجاب میں حکومت تبدیل کرنے کے منصوبے پرہر پہلو سے کام مکمل کر لیا ہے ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں نام تک بدل دینے کاکہہ دیاتھا اِس دعوے کی پی ٹی آئی کی طرف سے ایک قسم کی یہ کہہ کر تائید کی جارہی تھی کہ ممبرانِ اسمبلی کو دبائو اور مراعات کے عوض وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے مگر عین موقع پر جوانہونی ہوگئی اُس کے نتائج سے سیاستدان ہنوز ورطہ حیرت میں ہیں کیونکہ دوست مزاری وغیرہ تو پہلے ہی ناراض اور عملی طورپر جماعت سے الگ تھلگ تھے خرم لغاری،چوہدری مسعود اور مومنہ وحید نے بھی اعتماد کا ووٹ دینے سے انکار کردیا لیکن سرگودھا سے واحد ممبر اسمبلی فیصل فاروق چیمہ ہیں جنھوں نے پی ٹی آئی کی توقع کے مطابق اعتماد کا ووٹ نہیں دیا اور غیر حاضر رہے اگر پی ٹی آئی ایک ووٹر غیر حاضر رہنے پر حیران ہے تو بلال وڑائچ جنھوں نے حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلٰی کے لیے ووٹ دیا تھا پی ٹی آئی سے آ ملنے پر خوش بھی ہے کیونکہ یہ ایسا فیصلہ کن ووٹ ہے جس سے 186 کی تعداد باآسانی پوری ہو گئی مزید حیران کُن پہلو یہ ہے کہ رات کو وزیرِ اعلٰی نے اعتماد کا ووٹ لیا اور دوسرے دن عمران خان سے مل کر پنجاب اسمبلی توڑنے کی تجویز گورنر پنجاب کو بھجوا دی حالانکہ پُرامید ن لیگی حلقے سب کو یقین دلارہے تھے کہ چوہدری پرویز الٰہی کسی صورت اسمبلی نہیں توڑیں گے لیکن تمام کی تمام تر کرائی گئی یقین دہانیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور انہونی ہو گئی پنجاب کی جھٹکے کھاتی اور ہرپل بدلتی سیاست پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ ن لیگ کو پنجاب میں بھاگ دوڑسے کوئی کامیابی نہیں ملی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ بلند وبانگ دعوئوں اور بڑھکوں کے بعداب شرمندگی اور مایوسی کاسامنا کرنے پر مجبورہے۔
تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنے کے فوری بعد گورنر سے وزیرِ اعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہلوانے سے ہی سیاسی نبض شناس سمجھ گئے تھے کہ ن لیگ اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہے پھر بھی دائو پر دائو لگائے جاتے رہے گورنر کی طرف سے وزیرِ اعلٰی کو نوٹس کے ایک دن بعد اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دینا اور پھر ایسا نہ کرنے کی پاداش میں کابینہ سمیت برخواست کردیناایسا دائو ہے جس کاکوئی آئینی یا قانونی جواز نہیں تھا اسی لیے عدالتِ عالیہ نے پہلی پیشی پر ہی ایک مہمل سی یقین دہانی پر گورنرکاغیر آئینی اور غیر قانونی حکم معطل کر دیا ۔ پھر اعتماد کا ووٹ لینے کے اگلے دن ہی وزیرِ اعلٰی کی طرف سے اسمبلی توڑنے کی تجویز پیش کردینا ثابت کرتا ہے پنجاب کا حکمران اتحاد تو سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرارہا مگر ن لیگ کی چالوں سے کچھ واضح نہیںبلکہ کئی سقم نظر آئے اسی بناپر پی ٹی آئی نے چالیں چلتے ہوئے حریفوں کو چاروں شانے چت کردیا یہاں تک کہ بارہ سے پندرہ ممبران توڑنے کے دعویدار توبہاولپور سے دونوں پی ٹی آئی ممبران کو بھی نہ توڑ سکے حالانکہ اِن کے ایم این اے طارق بشیر چیمہ اِس وقت وفاقی وزیر ہیں اور دونوں سے قریبی تعلقات ہیں مگر باوجودقریبی تعلقات کے دونوں ممبران کا جماعت سے ثابت قدم رہنا ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کے پیشِ نظر اب کوئی بھی اُن کی جماعت کا ٹکٹ کھونانہیں چاہتا چاہے ایم این اے سے قریبی تعلقات ہی کیوں نہ قربان کرنے کی نوبت آجائے ۔
پنجاب میں تبدیلی کے دعویداروں نے دعوے تو بہت کیے لیکن اہداف حاصل کرنے کے لیے کون سی سمت اختیار کرنی ہے؟ ایک تو یہ طے کرنے میں ناکام رہے دوسرا یہ کہ جس ممبر اسمبلی نے وزیرِ اعلٰی منتخب ہونا ہے وہ صوبائی اسمبلی میں قائد حزت اختلاف ہونے کے باوجود ملک انتہائی اہم موقعہ پر بھی نہ آسکے بلکہ بیرونِ ملک ہی مقیم رہے جس کے بارے ن لیگ یہ تاویل پیش کرتی ہے کہ حمزہ شہباز اپنی والدہ کے علاج کی غرض سے ملک سے باہررہنے پر مجبور ہیں حالانکہ اگر غیر سیاسی سلیمان شہباز وطن واپس آکر سیاسی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں تو حمزہ شہباز بھلا ایسا کیوں نہیں کر سکے سمجھ سے بالاترہے اسی طرح والد اور چچا کے بعد جماعت کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کے عہدے پرحال ہی میں فائز ہونے والی مریم نواز بھی گلے کے ایک معمولی سے آپریشن کی وجہ سے جنیوا میں مقیم رہیں جب رہنما ہی قیادت کرنے کے لیے ملک میں نہ ہوں بلکہ دیارِ غیر قیام بڑھادیں تو نتیجہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا یہی کچھ پنجاب میں ہوا ہے اب ن لیگ والے لاکھ بہتان لگائیں کہ ناراض اراکین نے وزیرِ اعلیٰ سے اسمبلی نہ توڑنے کا حلف لے کر ووٹ دیے ہیں فضول بہان کے سواکچھ نہیں اسی لیے ایسی باتوں کی کوئی اہمیت یا حثیت نہیں بلکہ پی ٹی آئی نے پھیلائی ایسی تمام افواہوں کو غلط ثابت کردیا ہے کہ اُس کے ممبران جماعت سے بدظن اورن لیگ میں جانے کو بے قرار ہیں۔
رانا ثنااللہ اور عطاتارڑ کی مایوسی اور بے دلی سے کی جانے والی بھاگ دوڑ اور کوششوں سے فائدہ کی بجائے اُلٹا نقصان ہوا بلال وڑائچ کو بھی اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈالنے کی راہ مایوسی اور بے دلی سے کی جانے والی بھاگ دوڑ سے ہمت ہوئی یہ جواز پیش کرنا کہ اُن کے بھائی خالد وڑائچ ن لیگ کے ایم این اے ہیں اور وہ بھائی سے ناراضگی کی وجہ سے مخالف جماعت کی طرف گئے ہیں درست نہیں کیونکہ ماضی میں وہ اپنے بھائی کے کہنے پرجب اپنا ووٹ حمزہ شہباز کو دے چکے تو اب بھی ایسا ہونازیادہ ناممکن نہ تھا مگر امیدوار کی عدم موجودگی سے مخالف روش کی طرف چلے گئے مایوسی و بے دلی سے کام کرنے کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف پی ٹی آئی کوایک بارپھر نہ صرف مقبول ترین جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے کا حوصلہ ہوا ہے بلکہ مزیدیہ کہ یہ جماعت سیاسی چالیں چلنے میں بھی تاک نظر آئی اب تو پنجاب اسمبلی توڑنے کی تجویز بھی گورنرکو بھجوائی جا چکی جسے گورنر دفتر نے وصول بھی کر لیاہے اگر کسی کو یہ توقع ہے کہ گورنر تجویز پر عملدرآمد نہیں کریں گے ایسی توقع رکھنادانشمندی نہیں کیونکہ اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی اگر گورنر موصول سمری کے بارے کوئی فیصلہ نہیں کرتے تو اسمبلی خود بخود ٹوٹ جائے گی کیونکہ ایسی کسی تجویز کو زیادہ دیر التوا میں رکھنا ممکن ہی نہیں بلکہ اِس حوالے سے گورنر کے پاس نہ ہونے کے برابر اختیارات ہیں ممکن ہے اِن سطور کی اشاعت تک عبوری بندوبست کے لیے چوہدری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز میں سلسلہ جنبانی بھی شروع ہو چکا ہوانہونی تو ہوگئی اب اسمبلی توڑنے سے روکنے میں کوئی تدبیرکارگر نہیں ہو سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔