وجود

... loading ...

وجود

انہونی ہو گئی

هفته 14 جنوری 2023 انہونی ہو گئی

سیاست میں دوستیاں اور مخالفتیں مستقل نہیں ہوتیں بلکہ حالات و واقعات کے تناظر میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں کیونکہ سیاستدان عام طور پرایک دوسرے سے بات چیت کے لیے دروازے بند نہیں کرتے مگر گزشتہ چندہفتوں سے پنجاب میں جو کچھ ہوا ہے یہ ماضی کی روایات سے قدرے مختلف ہے حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے سے بات تک کرنے کی روا دارنہیں پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی اکثریت عیاں حقیقت ہے جسے کسی صورت جھٹلا ناممکن نہیں مگربدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اعتماد کا ووٹ اتنی آسانی سے لے لیا جائے گا پی ڈی ایم رہنمائوں کیاکسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھامگراب یہ انہونی ہو گئی ہے یقین نہ آنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رانا ثنااللہ اور عطاتارڑ نے سب کو یقین دلا رکھاتھا کہ پنجاب میں حکومت تبدیل کرنے کے منصوبے پرہر پہلو سے کام مکمل کر لیا ہے ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں نام تک بدل دینے کاکہہ دیاتھا اِس دعوے کی پی ٹی آئی کی طرف سے ایک قسم کی یہ کہہ کر تائید کی جارہی تھی کہ ممبرانِ اسمبلی کو دبائو اور مراعات کے عوض وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے مگر عین موقع پر جوانہونی ہوگئی اُس کے نتائج سے سیاستدان ہنوز ورطہ حیرت میں ہیں کیونکہ دوست مزاری وغیرہ تو پہلے ہی ناراض اور عملی طورپر جماعت سے الگ تھلگ تھے خرم لغاری،چوہدری مسعود اور مومنہ وحید نے بھی اعتماد کا ووٹ دینے سے انکار کردیا لیکن سرگودھا سے واحد ممبر اسمبلی فیصل فاروق چیمہ ہیں جنھوں نے پی ٹی آئی کی توقع کے مطابق اعتماد کا ووٹ نہیں دیا اور غیر حاضر رہے اگر پی ٹی آئی ایک ووٹر غیر حاضر رہنے پر حیران ہے تو بلال وڑائچ جنھوں نے حمزہ شہباز کو وزیرِ اعلٰی کے لیے ووٹ دیا تھا پی ٹی آئی سے آ ملنے پر خوش بھی ہے کیونکہ یہ ایسا فیصلہ کن ووٹ ہے جس سے 186 کی تعداد باآسانی پوری ہو گئی مزید حیران کُن پہلو یہ ہے کہ رات کو وزیرِ اعلٰی نے اعتماد کا ووٹ لیا اور دوسرے دن عمران خان سے مل کر پنجاب اسمبلی توڑنے کی تجویز گورنر پنجاب کو بھجوا دی حالانکہ پُرامید ن لیگی حلقے سب کو یقین دلارہے تھے کہ چوہدری پرویز الٰہی کسی صورت اسمبلی نہیں توڑیں گے لیکن تمام کی تمام تر کرائی گئی یقین دہانیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور انہونی ہو گئی پنجاب کی جھٹکے کھاتی اور ہرپل بدلتی سیاست پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ ن لیگ کو پنجاب میں بھاگ دوڑسے کوئی کامیابی نہیں ملی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ بلند وبانگ دعوئوں اور بڑھکوں کے بعداب شرمندگی اور مایوسی کاسامنا کرنے پر مجبورہے۔
تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنے کے فوری بعد گورنر سے وزیرِ اعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہلوانے سے ہی سیاسی نبض شناس سمجھ گئے تھے کہ ن لیگ اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہے پھر بھی دائو پر دائو لگائے جاتے رہے گورنر کی طرف سے وزیرِ اعلٰی کو نوٹس کے ایک دن بعد اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دینا اور پھر ایسا نہ کرنے کی پاداش میں کابینہ سمیت برخواست کردیناایسا دائو ہے جس کاکوئی آئینی یا قانونی جواز نہیں تھا اسی لیے عدالتِ عالیہ نے پہلی پیشی پر ہی ایک مہمل سی یقین دہانی پر گورنرکاغیر آئینی اور غیر قانونی حکم معطل کر دیا ۔ پھر اعتماد کا ووٹ لینے کے اگلے دن ہی وزیرِ اعلٰی کی طرف سے اسمبلی توڑنے کی تجویز پیش کردینا ثابت کرتا ہے پنجاب کا حکمران اتحاد تو سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرارہا مگر ن لیگ کی چالوں سے کچھ واضح نہیںبلکہ کئی سقم نظر آئے اسی بناپر پی ٹی آئی نے چالیں چلتے ہوئے حریفوں کو چاروں شانے چت کردیا یہاں تک کہ بارہ سے پندرہ ممبران توڑنے کے دعویدار توبہاولپور سے دونوں پی ٹی آئی ممبران کو بھی نہ توڑ سکے حالانکہ اِن کے ایم این اے طارق بشیر چیمہ اِس وقت وفاقی وزیر ہیں اور دونوں سے قریبی تعلقات ہیں مگر باوجودقریبی تعلقات کے دونوں ممبران کا جماعت سے ثابت قدم رہنا ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کے پیشِ نظر اب کوئی بھی اُن کی جماعت کا ٹکٹ کھونانہیں چاہتا چاہے ایم این اے سے قریبی تعلقات ہی کیوں نہ قربان کرنے کی نوبت آجائے ۔
پنجاب میں تبدیلی کے دعویداروں نے دعوے تو بہت کیے لیکن اہداف حاصل کرنے کے لیے کون سی سمت اختیار کرنی ہے؟ ایک تو یہ طے کرنے میں ناکام رہے دوسرا یہ کہ جس ممبر اسمبلی نے وزیرِ اعلٰی منتخب ہونا ہے وہ صوبائی اسمبلی میں قائد حزت اختلاف ہونے کے باوجود ملک انتہائی اہم موقعہ پر بھی نہ آسکے بلکہ بیرونِ ملک ہی مقیم رہے جس کے بارے ن لیگ یہ تاویل پیش کرتی ہے کہ حمزہ شہباز اپنی والدہ کے علاج کی غرض سے ملک سے باہررہنے پر مجبور ہیں حالانکہ اگر غیر سیاسی سلیمان شہباز وطن واپس آکر سیاسی سرگرمیاں شروع کر سکتے ہیں تو حمزہ شہباز بھلا ایسا کیوں نہیں کر سکے سمجھ سے بالاترہے اسی طرح والد اور چچا کے بعد جماعت کی سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کے عہدے پرحال ہی میں فائز ہونے والی مریم نواز بھی گلے کے ایک معمولی سے آپریشن کی وجہ سے جنیوا میں مقیم رہیں جب رہنما ہی قیادت کرنے کے لیے ملک میں نہ ہوں بلکہ دیارِ غیر قیام بڑھادیں تو نتیجہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا یہی کچھ پنجاب میں ہوا ہے اب ن لیگ والے لاکھ بہتان لگائیں کہ ناراض اراکین نے وزیرِ اعلیٰ سے اسمبلی نہ توڑنے کا حلف لے کر ووٹ دیے ہیں فضول بہان کے سواکچھ نہیں اسی لیے ایسی باتوں کی کوئی اہمیت یا حثیت نہیں بلکہ پی ٹی آئی نے پھیلائی ایسی تمام افواہوں کو غلط ثابت کردیا ہے کہ اُس کے ممبران جماعت سے بدظن اورن لیگ میں جانے کو بے قرار ہیں۔
رانا ثنااللہ اور عطاتارڑ کی مایوسی اور بے دلی سے کی جانے والی بھاگ دوڑ اور کوششوں سے فائدہ کی بجائے اُلٹا نقصان ہوا بلال وڑائچ کو بھی اپنا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈالنے کی راہ مایوسی اور بے دلی سے کی جانے والی بھاگ دوڑ سے ہمت ہوئی یہ جواز پیش کرنا کہ اُن کے بھائی خالد وڑائچ ن لیگ کے ایم این اے ہیں اور وہ بھائی سے ناراضگی کی وجہ سے مخالف جماعت کی طرف گئے ہیں درست نہیں کیونکہ ماضی میں وہ اپنے بھائی کے کہنے پرجب اپنا ووٹ حمزہ شہباز کو دے چکے تو اب بھی ایسا ہونازیادہ ناممکن نہ تھا مگر امیدوار کی عدم موجودگی سے مخالف روش کی طرف چلے گئے مایوسی و بے دلی سے کام کرنے کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف پی ٹی آئی کوایک بارپھر نہ صرف مقبول ترین جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے کا حوصلہ ہوا ہے بلکہ مزیدیہ کہ یہ جماعت سیاسی چالیں چلنے میں بھی تاک نظر آئی اب تو پنجاب اسمبلی توڑنے کی تجویز بھی گورنرکو بھجوائی جا چکی جسے گورنر دفتر نے وصول بھی کر لیاہے اگر کسی کو یہ توقع ہے کہ گورنر تجویز پر عملدرآمد نہیں کریں گے ایسی توقع رکھنادانشمندی نہیں کیونکہ اڑتالیس گھنٹے گزرنے کے بعد بھی اگر گورنر موصول سمری کے بارے کوئی فیصلہ نہیں کرتے تو اسمبلی خود بخود ٹوٹ جائے گی کیونکہ ایسی کسی تجویز کو زیادہ دیر التوا میں رکھنا ممکن ہی نہیں بلکہ اِس حوالے سے گورنر کے پاس نہ ہونے کے برابر اختیارات ہیں ممکن ہے اِن سطور کی اشاعت تک عبوری بندوبست کے لیے چوہدری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز میں سلسلہ جنبانی بھی شروع ہو چکا ہوانہونی تو ہوگئی اب اسمبلی توڑنے سے روکنے میں کوئی تدبیرکارگر نہیں ہو سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر