... loading ...
گزرے برس کے بطن سے نئے سال 2023 کا جنم ہوچکا ہے ۔ ہماری دنیا کے لیئے یہ نیاسال اپنے دامن میں کتنی خوش خبریاں ،کتنے غم ،کس قدر سانحے اور کیسے کیسے حادثے چھپا کر لایا ہے۔ وہ تو تب ہی معلوم ہوگا جب یہ برس، بساط عالم کے 365 خانوں میں ایک ایک کر کے اپنی چالیں چلنا شروع کرے گا۔قطع نظر اس کے کہ نئے برس 2023کی یہ چالیں بگڑے ہوئے عالمی منظر نامے کی بے ترتیبی کو درست کرتی ہیں یا اِس پوری بساط کو ہی اُلٹا کر رکھ دیتی ہیں ۔ بہرحال اقوامِ عالم کو خوش اُمیدی یہ ہی ہے کہ نیاسال ، گزشتہ برس کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوگا۔کیونکہ 2022 دنیا کے لیئے عدم استحکام اور عدم تحفظ کے جتنے ہول ناک اور خوف ناک واقعات اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے ،اُس میں مزید اضافہ، ہماری دنیا شاید برداشت ہی نہ کرپائے۔
یاد رہے کہ روسی صدر، ولادی میر پیوٹن کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے 1945 کے بعد براعظم یورپ میں سب سے بڑا زمینی جنگ و جدل جاری ہے اورترقی یافتہ یورپی ممالک کو 1945 کے بعد پہلی بار جوہری جنگ کے سنگین خطرات لاحق ہیں ۔ نیز 1930 کی دہائی کے بعد یورپی ممالک سخت معاشی اور اقتصادی پابندیوں کی زد پر ہیں اور کھانے پینے اور توانائی کے اخراجات میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے اکثر یورپی ملک میں 1980 کی دہائی کے بعد افراط زر کی شرح بھی آسمان کو چھورہی ہے ۔جس کی وجہ سے اِن ممالک میں مرکزی بینکاری نظام کو سخت خسارہ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یورپی یونین کے ممالک امریکا کے ساتھ مل کر جتنی زیادہ اقتصادی پابندیاں روس پر عائد کرتے جارہے ہیں ، اُس کا زیادہ تر منفی اثر یورپی یونین میں شامل ممالک کی اقتصادی نظام پر پڑرہاہے اور یورپ میں جاری توانائی کے سنگین ترین بحران نے خطے کی سیاست کو مکمل طور پر تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے۔نیز امریکا ،روس اور چین کے درمیان جاری سیاسی و معاشی کشمکش سے یورپ کے اقتصادی نظام کی بنیادیں بھی ہل کر رہ گئی ہیں ۔ بظاہر امریکا اور یورپی ممالک نے یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد جس عزم و یگانگت کے ساتھ روسی افواج کی جارحیت کا مل کر جواب دینے کا اعلان کیا تھا ، اُس نے یورپ و مغرب اتحاد کے برسوں پرانے خیال کو ازسرِ نو زندگی عطا کردی تھی ۔
لیکن یورپ اور مغرب کا یہ رومانس اُس وقت ختم ہوگیا، جب یوکرین جنگ کے اثرات نے یورپی ممالک کی اقتصادیات کو تباہ و بربادی کے دہانے پر پہنچادیا ۔جبکہ امریکا یوکرین جنگ کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ و مامون رہا۔ اس صورت حال نے مغرب اور یورپ کے مابین ایک بار پھر سے سیاسی فاصلے بڑھانا شروع کردیئے اور یورپی ممالک کی قیادت بھی بالآخر یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر یوکرین جنگ کے سارے منفی اثرات اُنہیں ہی برداشت کرنے تھے اور امریکا نے فقط اپنی جیت کا جھنڈالہرانا تھا تو وہ ایسی لاحاصل جنگ کا حصہ کیوں بنیں ؟۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اَب یورپی عوام کی اکثریت مغربی آرڈر کو مسترد کر کے یورپ کے یوکرین جنگ میں فریق بننے کی کھلے عام مخالفت کررہی ہے۔ یورپی ممالک کے لیئے یوکرین جنگ سے نکل کر اپنے رہے سہے معاشی نظام کو بچا نا سال 2023 کا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
دوسری جانب معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر یورپی یونین میں شامل ممالک یک لخت فیصلہ کر کے یوکرین جنگ سے نکل بھی جائیں تب بھی سال 2023 میں یورپ کی سنگین اقتصادی صورت حال میں زیادہ بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ کیونکہ رواں موسم سرما میں روسی تیل اور گیس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یورپی ممالک کو انتہائی مہنگے داموں تیل اور گیس خرید کر اپنی عوام کو سستے نرخوں پر فراہم کرنا پڑی ہے۔ جس کی وجہ سے یورپی ممالک کی حکومتوں نے اربوں یورو سبسڈی کی مد میں خرچ کردیئے ہیں ۔ اگر اگلے موسم سرما میں یورپی ممالک متبادل ذرائع سے قدرتی گیس اور تیل حاصل کر بھی لیتے ہیں ،تب بھی غالب امکان یہ ہی ہے کہ یورپ کے لیئے اگلا موسم سرما ،رواں سرما سے بھی زیادہ بدتر ہوسکتاہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس سے تیل اور گیس نہ ملنے کے باعث یورپ میں گیس اور تیل کی قیمتیں 2023 میں انتہائی بلند سطح پر رہیں گی۔
عالمی برادری کے لیئے سال 2023 میں دوسرا سب سے بڑا چیلنج یوکرین جنگ کو ختم کرکے زیلنکسکی اور ولادی میر پیوٹن کے مابین جنگ بندی کے لیئے دوستانہ مصافحہ کروانا ہے۔ ویسے تو 10 ماہ کی سخت جنگ کے بعد یوکرین اور روس کے درمیان مذاکرات کی میز پر بات چیت جاری ہے اور دونوں طرف سے ہی اَمن کی بحالی پر بہت زور دیا جارہاہے ۔ لیکن یوکرینی قیادت کی طرف سے جنگی جرائم کی عدالت کے قیام کو کریملن کے ساتھ تعلقات بحالی کی شرط اوّل قرار دیے جانے کے بعد کم ہی امکان ہے کہ دونوں ممالک کی مذاکراتی ٹیمیں جنگ بندی کے حتمی نتیجہ پر پہنچ سکتی ہیں ۔ تاہم جیسا کہ ہم جانتے ہیں روسی افواج کی کارروائیوں سے یوکرینی افواج کی دفاعی و جارحانہ عسکری صلاحیت مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے ۔اس لیئے عین ممکن ہے رواں برس آنے والے موسم گرما اور موسم خزاں تک یوکرین کو اپنی شکست ِ فاش کا ازحد خود ہی اعلان کرنے پر مجبور ہونا پڑے ۔
گزشتہ برس ایرانی حکومت اور عوام کے لیئے بھی ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ، اور ایرانی پولیس گشت ارشاد کی تحویل میں مہسا امینہ کی مبینہ ہلاکت کے واقعہ کے بعد ایران میں حکومت مخالف ملک گیر احتجاج کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ابتداء میں تو ایرانی حکومت نے عوامی احتجاج کو انتظامی طاقت سے کچلنے کی بھرپور کوشش کی لیکن جب ایرانی عوام کی مزاحمت کم ہونے کی بجائے،مزید بڑھنے لگی تو بالآخر ایرانی صدر ایراہیم رئیسی کو ایرانی پولیس گشت ارشاد کو ختم کرنے کا سرکاری حکم نامہ جاری کرنا پڑا ۔ گشت ارشاد پولیس کے خاتمہ سے ایران میں حکومت مخالف جذبات مکمل طور پر ختم ہوئے ہیں یا نہیں ۔ شاید اس بارے میں کچھ کہنا تو انتہائی مشکل ہوگا لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ایران میں حکومت مخالف احتجاج اور مظاہروں میں خاطر خواہ کمی آچکی ہے اور ملک بھرمیں کاروبارِ زندگی آہستہ آہستہ معمول پر آنا شروع ہوگیا ہے۔
اگرچہ ایرانی حکومت کی جانب سے مہساامینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کا الزام مغربی طاقتوں بالخصوص امریکا پر لگایا گیا تھا ،لیکن جس غیر معمولی تعداد میں عوام نے اِن احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اُس سے اِس بات کی تصدیق تو ہوتی ہے انقلابِ ایران کے بعد اقتدار کی راہ داریوں میںآنے والے مذہبی طبقہ کی گرفت ملکی سیاست پر تیزی کے ساتھ کمزور ہوتی جارہی ہے۔ شاید اِس کی وجہ یکے بعد دیگرے اقتدار میں آنے والے مختلف مذہبی رہنماؤں کا اپنی عوام کی اقتصادی حالت میں بہتری لانے کی کوئی سنجیدہ انتظامی کاوش نہ کرنا ہے۔سال 2023 میں ایرانی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی یہ ہوگا کہ وہ اپنی تیزی کے ساتھ گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو عوام میں دوبارہ سے بحال کرے اور اِ س ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو اپنی عوام کو کچھ نہ کچھ معاشی ثمرات ضرور پہنچانے ہوں گے ۔چونکہ عالمی معاشی پابندیوں سے چھٹکارا پانا اَب ایران کی بھی ایک بہت بڑی مجبوری بن چکی ہے ۔لہٰذا، امکان یہ ہی ہے کہ رواں برس ایران امریکا کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
سالِ گزشتہ سپر پاور امریکا کے لیئے بھی بہت بُرا رہا۔جہاں2022 میں امریکا کو مختلف سیاسی و سفارتی محاذپر چین کے مقابل سخت سیاسی و سفارتی ہزیمت برداشت کرنا پڑی وہیں یوکرین جنگ سے روس کو باز نہ رکھنے پر بھی اُس کی عالمی ساکھ کو بھی سخت نقصان پہنچا۔ جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن کے لیئے گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایک بڑا سیاسی خطرہ بنے رہے ۔چونکہ 2024 امریکا میں انتخابات کا سال ہے ،اس لیئے رواں برس 2023کا زیادہ تر حصہ امریکی صد ر جو بائیڈن کے لیئے اندرونی و داخلی سیاست کی نذر ہی رہے گا ۔ 2023 کو آپ امریکی کی سیاسی جماعتوں کے لیئے انتخابی مہم جوئی کا سال بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ کیا امریکی صدر بائیڈن کی سیاسی و سفارتی ناکامیاں ڈونلڈ ٹرمپ کو واپس وائٹ ہاؤس کا راستہ دکھا سکتی ہیں ؟۔یہ ایک ایسا سوال جس کا جواب امریکی عوام کو 2023 کے اختتام سے پہلے بہر صورت مل جائے گا۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ 2023 کا بیشتر حصہ 2024 میں وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے لیئے شروع ہونے والی دوڑ سے متعلق ہوگا۔ یاد رہے کہ جوبائیڈن 80 سال کی عمر میں تاریخ کے سب سے معمر ترین امریکی صدر ہیں ۔ کیا اِن سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ 2023 میں حکومت اور انتخابی مہم کو بیک وقت سنبھال سکیں گے؟۔ وہ بھی اُس وقت جب چینی صدر شی جن پنگ اُنہیں دنیا بھر میں قدم قدم پر چیلنج دے رہے ہوں گے ۔
سال 2023 میں چین کا آغاز اس لیئے اچھا نہیں کہا جاسکتاہے کہ اِس وقت چین کو کورونا وائرس کی مہلک لہر کا سامنا ہے اور چینی قیادت کی ساری توجہ کووڈ 19 بیماری کو شکست دینے پر مرکوز ہے۔ بہرحال ابھی تو سال کا آغاز ہی ہوا ہے اور جس طرح ماضی میں چین کورونا وائرس کی وبا سے بخوبی نمٹ چکا ہے ۔اس تناظر میں یقین کے ساتھ کہا جاسکتاہے کہ کورونا وائرس کی وبا، بہت زیادہ دیر تک چینی قیادت کا راستہ کھوٹا نہیں کرپائے گا اور بیجنگ آنے والے چند ماہ میں امریکا کو نئے سیاسی چیلنج دیتا ہوا پھر سے دکھائی دے رہا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭