... loading ...
جس طرح شیشہ میں بال برابر بھی فرق آجائے تو اُس نقص کو درست نہیں کیا جاسکتا، بالکل اِسی مصداق ایک سیاسی جماعت کے حصہ بخرے ہونے کے بعد کسی بھی صورت اُس کے تمام حصوں کو جوڑکر واپس ایک سیاسی جماعت نہیں بنایا جاسکتا۔واضح رہے کہ پاکستانی سیاست میں متحدہ قومی موومنٹ ، پہلی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو ٹوٹ پھوٹ کر چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوئی ہو۔ قیام ِ پاکستان سے لے اَب تک کم و بیش ملک کی ہر بڑی سیاسی جماعت ٹوٹ پھوٹ کے سیاسی عمل سے گزر چکی ہے ۔ لہٰذا،ملکی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا حصہ بخروںمیں تقسیم ہونا ایک معمول کا واقعہ ہے ، جس پر آج تک کسی فرد بشر نے کبھی حیرت کا اظہار بھی نہیں کیا۔ لیکن اگر تقسیم شدہ سیاسی جماعت کے قائدین میں سے اچانک کوئی یہ اعلان کرے کہ اُن کی جماعت کے سب دھڑے مل کر واپس ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کرنے والے ہیں تو یقینا اِس دعویٰ پر حیرانگی تو بنتی ہے۔
آج کل گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو متحدہ قومی موومنٹ بنانے کے مشن پر ہیں اور خبر یہ گرم ہے کہ اُنہیں اِس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوچکی ہے اور آئندہ ایک یا دوہفتے میں ٹوٹی پھوٹی ایم کیو ایم کے جڑنے کا باضابطہ طور پر اعلان بھی متوقع ہے۔اگر تو گورنر سندھ کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوجاتی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ واپس اپنی پرانی سیاسی حالت اور کیفیت میں بحال ہوجاتی ہے ،تو بلاشبہ اِس حیرت انگیز سیاسی واقعے کے کراچی کی سیاست پر انتہائی غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ جہاں یہ سیاسی اثرات کسی کی سیاست کے لیے بہت اچھے تو وہیں کسی کے سیاسی مستقبل کے لیئے بہت بُرے بھی ثابت ہوسکتے ہیں ۔ بظاہر لگتا یہ ہی ہے کہ پرانی ایم کیو ایم کی بحالی سے سب سے زیادہ خسارہ کراچی کی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں آئے گا اور2018 میں جن انتخابی نشستوں پر پی ٹی آئی کے اُمیدوار جیت چکے ہیں ۔اُن میں سے زیادہ نہیں تو کم ازکم آدھی نشستیں تو ضرور واپس ایم کیو ایم لے اُڑی گی ۔ یاد رہے کہ کراچی کی سیاست میں آج کل ایم کیو ایم کی سیاسی حالت جتنی خراب اور دگرگوں ہے، اُسے پیش نظر رکھیں تو یہ ایک اچھا’’سیاسی سودا ‘‘ہوگا۔
ایک بات تو صاف دکھائی دے رہی ہے کہ پرانی ایم کیو ایم کے بحال ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان اگلے قومی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو پہنچے گا مگریہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کی سیاست میں اچانک سے رونما ہونے والی اِس سیاسی کایا کلپ کا سب سے زیادہ فائدہ کس کی سیاست کو ہوگا؟۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا جواب ایم کیو ایم ہو ۔مگر ہماری دانست میں متحدہ قومی موومنٹ کی پرانی سیاسی حالت میں واپسی سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہوگا۔جی ہاں! اگر ایم کیوایم کے تمام دھڑے متحد ہوکر اگلے قومی انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد کی بیشتر شہری نشستیں جیت لیتے ہیں تو بلاول بھٹو زرداری کے لیئے وطن عزیز پاکستان کا اگلا وزیراعظم بننے کی مشکل ’’ سیاسی راہ‘‘ بہت حد تک آسان ہوجائے گی ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہی ہے کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی پور ی کوشش ہے کہ پاکستان کا اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہواور اپنے اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے آصف علی زرداری گزشتہ دو برس سے ملکی سیاست کی بساط پر انتہائی چابک دستی کے ساتھ اپنی سیاسی چالیں چل رہے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اَب تک اُن کی تمام سیاسی چالیں تیر بہدف ثابت ہوئی ہیں اور ملکی سیاست کی بساط پر بلاول بھٹو زرداری اپنے مخالفین کے مہروں کو پیٹتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہونا،پی ڈی ایم کی طرف سے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانا، صوبہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کا جیتنا ، صوبہ بلوچستان میں باپ پارٹی کے اکثر رہنماؤں کا پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنا اور اَب ایم کیوا یم کے تمام ناراض رہنماؤں کا ایک مذاکراتی میز پر سیاسی اتحاد کے لیے اکھٹا ہونے کے پیچھے بھی آصف علی زرداری کا ہی ماسٹر مائنڈ ہے۔ چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنا وزیراعظم بنوانے کے لیے کراچی و حیدرآباد کی قومی اسمبلی کی نشستیں بھی درکار ہوں گی ۔ لہٰذا، اگلے قومی انتخابات سے قبل آصف علی زرداری ایم کیوایم کے تمام ناراض دھڑوں کو ایک ایسی انتخابی اتحاد کی لڑی میں پرونے میںضرور کامیاب ہوجائیں گے ۔جو انہیں شہری سندھ کی زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر اُن کی جھولی میں ڈال سکے۔ تاکہ آصف علی زرداری اگلی قومی اسمبلی میں نمبر گیم کو بلاول بھٹو زرداری کے حق میں پلٹ سکیں ۔
یقینا ایم کیوا یم پاکستان کے بلدیاتی انتخابات ، حلقہ بندیوں اور بلدیہ عظمی کراچی کی میئر شپ کو لے کر پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے ساتھ بے تحاشہ سیاسی و انتظامی نوعیت کے سنگین اختلافات و تحفظات ہیں ۔مگر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطہ کر کے اُنہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ ’’ایم کیوایم ہماری اتحادی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اُن کے ساتھ دوسے تین دن میں تمام تصفیہ طلب سیاسی معاملات کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرلیا جائے گا‘‘۔واضح رہے کہ ایم کیوایم کے تمام ناراض رہنماؤں کو اپنے حلقے کی عوام کے لیئے جو کچھ بھی چاہیئے ،اُس سیاسی و انتظامی خزانے کی چابی آصف علی زرداری کے پاس ہے ۔ اس لیئے فارمولا یہ طے پایا ہے کہ پہلے ایم کیو ایم کے تمام دھڑے مل جل کر اگلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کا بوریا بستر کراچی و حیدرآباد سے گول کریں گے ۔بعدازاں آصف علی زرداری اُنہیں وہ سب کچھ دیں گے ، جن کا انہوں نے ایم کیو ایم کے جملہ رہنماؤں سے وعدہ کیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭