... loading ...
2009میں اسلام آباد میں نائیک کی پراسرار حالات میں موت ہوئی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ہلاکت سے قبل ان کا ٹارچر کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں اور جبڑا فریکچر ہو گیا تھا۔روایتی طور پر پاکستان میں دیگر ہائی پروفائل ہلاکتوں کی طرح اس پر بھی تفتیش آگے بڑھ نہیں پائی۔ سابق بھارتی خفیہ افسر کے مطابق اپریل 1993میں بھارت کی شدید لابنگ کے وجہ سے امریکی محکمہ خارجہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ پاکستان کو لیبیا، شمالی کوریا جیسے ممالک کی صف میں رکھا جائے۔ بھارت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو دہشت گرد ملک ڈیکلیر کیا جائے۔ بھارت کے سفارت کاروں جن میں ڈاکٹر عابد حسین اور سدھارتھ شنکر رے قابل ذکر ہیں، نے وزیرا عظم نرسمہا راکی ایما پر اس پر خاصا کام کیا تھا۔ پاکستان میں اسوقت نواز شریف بر سر اقتدار تھے۔ انہوں نے نثار علی خان ، جو بعد میں وزیر داخلہ بنے، کو خصوصی نمائندے کے طور پر واشنگٹن میں معاملات کو سلجھانے کیلئے بھیجا۔ ا ن کا دوسرا بریف تھا کہ نواز شریف اس وقت صدر غلام اسحاق خان سے دوبدو کرنا چاہتے تھے، اور اس کیلئے ان کو امریکی انتظامیہ کی مدد درکار تھی۔ 7اپریل 1993کو خان کی ملاقات امریکی وزیر خارجہ وارن کرسٹوفر کے ساتھ ہوئی اور انہوں نے کرسٹوفر کو ایک ریشمی قالین تحفہ میں دے دیا۔ گو کہ عوامی طور پر خان نے اس ملاقات کو مفید بتایا ، مگر بالا چندر کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے خان کو ایسا جھڑک دیا، جس کی مثال نہیں ملتی ہے اور خبردار کیا کہ عنقریب ہی پاکستان کو کیوبا، لیبیا، عراق، شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ نتھی کرکے اس کے خلاف اقدامات کئے جائینگے۔ بالا چندرن کے مطابق خان کے مشن کی ناکامی کے بعد بھارتی سفارت کاری کو پر لگ گئے تھے۔ مگر ان ہی دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ ایک پرائیویٹ دورہ پر واشنگٹن آگئی تھیں اور ان کو اس کی سن گن لگ چکی تھی۔ اس نے مختلف سطحوں پر کلنٹن انتظامیہ کے کلیدی افسران کے ساتھ میٹنگیں کی اور ان کو خبردار کیا کہ پاکستان کو دشمن ممالک کی صف میں کھڑا کرنا امریکی مفاد میں نہیں ہے۔ اس طرح امریکا پاکستان میں اپناگڈول اور رہی سہی سا کھ اور اثر و نفوذ کھو دیگا۔ خان جس مشن میں ناکام ہوکر واپس اسلام آباد جا رہے تھے، بے نظیرنے اپنے پرائیویٹ دورہ میں ہی وہ کام کر دکھایا۔
1998ء میں بھارت کی ایما پر ایک بار پھر امریکی محکمہ خارجہ کے انسداد دہشت گردی کے کوآرڈینیٹر نے آئی ایس آئی کی طرف سے بین الاقوامی دہشت گردی کی مبینہ پست پناہی کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی کو مدد دینے والے ممالک کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی، مگر اس کو اسوقت کی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے مسترد کردیا۔ بالا چندرن کا تعلق جنوبی صوبہ کیرالا سے ہے اور وہ بھارت اور پاکستان کے بٹوارہ کے وقت کلیدی کردار ادار کرنے والے سول سروس افسر وی پی مینین کے پوتے ہیں۔ انہوں نے پولیس سروس میں اپنا کیریر مغربی صوبہ مہاراشٹرا سے 1960 میں شروع کیا، مگر 1967میں ان کو نئی دہلی میں کابینہ سیکرٹریٹ کے تحت خفیہ ایجنسی را میں بھرتی کیا گیا، جہاں انہوں نے 1995 تک خدمات انجام دیں۔ ان کی کہنا ہے کہ پاکستان، دو سپر طاقتوں چین اور امریکا کے درمیان پیغام رسانی کا اہم اور کامیاب ذریعہ بن گیا تھا۔ اسکی ایک مثال پیش کرتے ہوئے کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جب اکتوبر 1970ء کو پاکستان کے صدر یحی خان واشنٹگٹن کے دورے پر تھے، تو امریکی ہم منصب رچرڈ نکسن نے ان کو بتایا کہ ان کا ملک چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے سفیروں کی تعیناتی کا خواہشمند ہے۔ اس نے پاکستانی صدر سے گذارش کی کہ وہ یہ پیغام چینی لیڈروں تک پہنچاکر ان کا جواب بھی حاصل کریں۔
اسی دوران نکسن نے اسی طرح کی خواہش کا اظہار واشنگٹن کے دورہ پر آئے رومانیہ کے صدر نکولائی چاو سسکو کے بھی کیا تھا۔ سفارتی دنیا میں یہ مشہور تھا کہ چاوسسکو کے چینی لیڈر چیرمین مائو کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں اور وہ ان کو براہ راست پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ مگر وہ کوئی مثبت جواب چین سے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے چند روز بعد ہی یعنی دسمبر 1970 کو پاکستان کے سفیر آغا ہلالی نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے ملاقات کرکے ان کو بتایا کہ چینی رہنما چو این لائی سفیروں کی تعیناتی اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر رضامند ہیں اور خود چیرمین مائو نے اس کی منظوری دی ہے اور پاکستان کو بتایا ہے کہ وہ یہ پیغام واشنگٹن تک پہنچادیں۔ یہ پاکستان کے ذریعے ا مریکا کے لیے ایک اہم حصول یابی تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے اس سابق افسر کا مزید کہنا ہے کہ امریکی شہر نیویارک کے ٹریڈ ٹاور اور دیگر نو گیارہ حملوں میں بھارتی لنک پر زیادہ بحث نہیں ہوئی ہے۔ ان کی کہنا ہے کہ دوبئی میں مقیم ایک بھارتی گینگسٹر آفتاب انصاری نے کولکتہ میں ایک امریکی صنعت کار پارتھا برمن کا اغوا کیا تھا اور بطور تاوان چھ لاکھ ڈالر وصول کیے تھے۔ اس رقم کا بیشتر حصہ بعد میں حیدر آباد اور دوبئی میں حوالہ چینل کے ذریعے عمر سعید شیخ اور عطا محمد کو دئیے تھے، جو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث مانے جاتے ہیں۔ شیخ پاکستانی شہر کراچی میں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل میں بھی ملوث ہیں۔ را کے اس افسر کا کہنا ہے کہ 80کی دہائی بھارت کے لیے جاسوسی کا پیریڈ تھا، اس دوران کئی جاسوسی کے نیٹ ورک طشت از بام ہوگئی۔ ان کی کہنا ہے کہ ایک سابق فوجی اہلکار اور بزنس مین کمر نارائین کے نیٹ ورک نے ان کو حیران و ششدر کرکے رکھ دیا تھا۔ پکڑے جانے پر نارائین کے اعتراف کیا کہ وہ 52 سال تک بھارت کے وزیر اعظم کے دفتر سے خفیہ دستاویزات فرانس اور دیگر مغربی ممالک کو بیچ رہے تھے اور اس کے عوض ایک ملین ڈالر وصول کئے تھے۔ ہیلی روڑ پر ان کا دفتر اعلیٰ افسران کے لیے شراب و شباب فراہم کرتا تھا اور جب تک افسران لذت سے ہم کنار ہوتے تھے، ان کا اسٹاف دستاویزات کی فوٹو کاپی کرتا تھا۔ ان کا کہنا ہے جب یہ اسکینڈل نوٹس میں آیا تو کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی، کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری پی سی الیگزنڈر کو مطلع کرتا۔ بعد میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے براہ راست وزیر اعظم راجیو گاندھی کو ہی مطلع کیا اور اس کے ان کو خفیہ طور پر اپنے دفتر کی تلاشی لینے کی اجازت دی۔ وزیرا عظم کے لیے تشویش کی بات یہ تھی، فرانس جیسے ممالک جو بھارت کی دوستی کا دعوی کرتے تھے، اس نیٹ ورک میں شامل تھے اور اس کو فنڈ کرتے تھے۔ اس پر طرہ وہ یہ خفیہ معلومات پھر آگے دیگر دشمن ممالک کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔