... loading ...
یہ دلخراش داستان ایک ایسی یونیورسٹی کی ہے جسے اردو عربی اور فارسی زبانوں کے فروغ اوران کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے جوش وخروش کے ساتھ قایم کیا گیا تھا، لیکن تعصب اور تنگ نظری نے آج اس یونیورسٹی کو قابل رحم حالت میں پہنچادیا ہے۔آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہاں اقلیتوں کی زبان،تہذیب اور معاشرت سبھی کچھ نشانے پر ہے۔اردو عربی فارسی یونیورسٹی بھی اسی سازش کا شکار ہوئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کی بنیادیں کھودنے کاکام ان ہی لوگوں سے لیا گیاہے جن کے نام ان کے والدین نے اردو عربی یا فارسی میں رکھے تھے، لیکن وہ اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لیے ان لوگوں کے ایجنڈے پر گامزن ہیں جو اس ملک سے اردو عربی فارسی زبانوں کا نام ونشان مٹانا چاہتے ہیں۔
یہ قصہ یو پی کی راجدھانی لکھنؤ کا ہے،جہاں گزشتہ ہفتے راقم نے کچھ وقت گزارا۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ حالانکہ لکھنوی تہذیب وثقافت تو کب کی رخصت ہوچکی ہے۔ اب وہاں اس کے کھنڈرات ہی باقی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا بھر میں لکھنؤ ی تہذیب وثقافت کے بڑے چرچے تھے۔ لوگ اسے دور دور سے دیکھنے آتے تھے، لیکن اب یہاں نہ صبح بنارس کے قصے ہیں اور نہ شام اودھ کی رنگینیاں۔ اگر سچ کہوں تو اس شہر کو سب سے زیادہ سیاست نے خراب کیا ہے اور یہی اب اس کی اکلوتی شناخت بن گئی ہے۔ حالانکہ شہر میں ایسے لوگوں کی اب بھی کمی نہیں ہے جو اپنے شاندار ماضی کی روایات کو گلے لگاکریہاں کی ادبی، تہذیبی اورثقافتی زندگی کو تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اجڑے دیار میں چراغ جلانے کا فائدہ ہی کیا؟
اس بار کا سفر ’سنگم فاؤنڈیشن‘کی دعوت پر تھا، جس نے اس خاکسار سمیت ادبی وسماجی زندگی کے چنندہ افراد کو ’اودھ رتن ایوارڈ‘ سے سرفراز کیا۔لکھنؤ میں ہمارا پہلا پڑاؤ خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی تھا جو شہر سے دور ہردوئی،سیتاپور روڈ کے ایک غیرآباد علاقہ میں واقع ہے۔نہ جانے کب سے اس یونیورسٹی کو دیکھنے اور سمجھنے کا اشتیاق تھا، کیونکہ اردو عربی اورفارسی سے ہمیں بچپن ہی سے لگاؤ ہے۔ ہم اس شوق کو لے کر خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں داخل تو ہوگئے، لیکن ہمیں اس میں عربی اور فارسی تو کجا اردو کابھی کوئی سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ وہاں موجود لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اب اس یونیورسٹی کا نام اورکرداردونوں بدل دئیے گئے ہیں۔جس مقصد سے یہ یونیورسٹی وجود میں آئی تھی، وہ کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ سیاسی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں اب یہ یونیورسٹی طالع آزماؤں کا اکھاڑہ بن گئی ہے۔اس کے نام کے ساتھ اردو عربی فارسی کا لاحقہ ختم کردیا گیا ہے۔اب یہ خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی ہوگئی ہے۔ موجودہ حکمراں چاہتے ہیں کہ یہاں اردو عربی فارسی ہی کیوں دنیا کی تمام زبانوں کی تعلیم دی جائے۔اگر ایسا ہوا تو واقعی یہ معجزہ ہی ہوگا، کیونکہ دنیا میں ایسی کوئی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں تمام زبانوں کی تعلیم دی جاسکے۔ اس وقت دنیا میں کم وبیش سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔اگراس یونیورسٹی کو تختہ مشق بنانا ہی مقصود ہو تو بات دوسری ہے۔ اس یونیورسٹی سے اردو عربی فارسی کو ختم کرنے کی کوششوں کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ حکمران وقت اقلیتی فرقہ کی زبان و تہذیب کو مٹانے اور ملک میں یک رنگی قایم کرنے کے لیے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔
خواجہ معین الدین چشتی لنگویج یونیورسٹی کی تاریخ کوئی بہت پرانی نہیں ہے۔ 2009 میں مایا وتی کے دور حکومت میں جب یہ یونیورسٹی قایم ہوئی تو اس کا نام’کاشی رام اردو عربی فارسی یونیورسٹی‘ رکھا گیا تھا اور اس میں ان تینوں زبانوں کے ساتھ13دیگر عصری علوم کی تعلیم کا بندوبست تھا۔ یعنی اردو عربی فارسی کی لازمیت کے ساتھ یہ یونیورسٹی عصری علوم کے ایک منفرد ادارے کے طورپر وجود میں آئی تھی۔ نام کی تبدیلی چونکہ اترپردیش کی سیاست کا لازمی جز ہے، اس لیے سماجوادی پارٹی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کا نام خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی کردیا۔ یہ ایک خوشگوار تبدیلی تھی کیونکہ اسے ایک سیاست داں کی بجائے سرزمین ہندکی سب سے برگزیدہ شخصیت خواجہ اجمیری کے نام سے موسوم کیا گیا، جن کا مزار بلا تفریق مذہب وملت سبھی کی عقیدت کا مرکز ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس یونیورسٹی کے قیام کے وقت جوخصوصی ایکٹ بنایا گیا تھا، اس میں اردوعربی فارسی زبان اور تہذیب کے فروغ کا واضح طورپر ذکر کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی اختیار دیا گیا تھا کہ اترپردیش میں جتنے بھی اقلیتی ادارے ہیں ان کو اس یونیورسٹی سے ملحق کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر انیس انصاری نے تدریسی عملہ کے لیے ہی اردو عربی فارسی جاننے کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ غیر تدریسی عملہ میں بھی ان ہی لوگوں کو ترجیح دی گئی جو ان زبانوں سے واقفیت رکھتے ہوں۔ عصری تعلیم کے دیگر مضامین میں داخلہ لینے والوں کے لیے ان تینوں میں سے کسی ایک زبان کو بطور مضمون لینا لازمی تھا۔ جس کی وجہ سے غیراردو گھرانوں کے طلبائ بھی اس میں دلچسپی لینے لگے تھے۔لیکن بعدکے وائس چانسلر مسعود خان کے دور میں یہ لازمیت ختم کردی گئی۔
انیس انصاری کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کا سب سے زیادہ نقصان تیسرے وائس چانسلر ماہ رخ مرزا کے دور میں ہوا۔انھوں نے ہی اردو عربی فارسی کی لازمیت کو ختم کرنے کے لیے ایکزیکٹیو کونسل سے ایک قرار داد منظورکروائی۔ اس کے بعد ہی یونیورسٹی کے نام سے اردو عربی فارسی کو ہٹادیا گیا اور اس کا ’لوگو‘بھی تبدیل کردیا گیا۔ ابتدائ میں اس ’لوگو‘میں مکافات عمل سے متعلق قرآن کی ایک آیت کو شامل کیا گیا تھا جسے تیسرے وائس چانسلر نے حضرت علی سے متعلق ایک حدیث میں تبدیل کردیا اور اب اس حدیث کو ہٹاکر اس میں سنسکرت کا ایک اشلوک شامل کردیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب تک اس یونیورسٹی کے نام میں اردوعربی فارسی شامل تھا تب تک یہی پیغام جاتا تھا کہ یہ یونیورسٹی ان زبانوں کے فروغ کے لیے مخصوص ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی میں اب بھی ان تینوں زبانوں کی تعلیم کا بندوبست ہے، لیکن اس کا بنیادی کردار یکسر تبدیل کردیا گیا ہے۔اس کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر این بی سنگھ ہیں۔
یونیورسٹی کو گزشتہ سال گورنر کی طرف سے ایک ہدایت نامہ موصول ہوا تھا کہ یہاں دنیا کی تمام زبانوں کی تعلیم دی جائے جس سے اس کا دائرہ مزید وسیع ہوگا اور طلبائ وطالبات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔سابق وائس چانسلر ماہ رخ مرزا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے نام سے اردو عربی فارسی ہٹاکر لینگویج یونیورسٹی کرنے سے قبل گورنر آنندی بین پٹیل نے طلبائ و اساتذہ کی رائے طلب کی تھی اور اسی رضا مندی کی روشنی میں ہم نے یونیورسٹی کانام لینگویج یونیورسٹی کیا ہے، جس کے بعد داخلوں میں اضافہ ہوا ہے ورنہ پہلے اردو عربی فارسی نام کی وجہ سے لوگ اسے مدرسہ تصور کرتے تھے، لیکن نام بدل جانے کی وجہ سے اس تصور میں تبدیلی آئی ہے۔
2017 میں اپنی تقرری کے وقت ماہ رخ مرزا نے کہا تھا کہ اس یونیورسٹی کا قیام جس مقصد کے تحت عمل میں آیا ہے ہم اس کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے۔لیکن بعد کو انھوں نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔دلیل کے طورپر ماہ رخ مرزا نے یہ بھی کہا کہ بنارس میں موجود سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی کانام تبدیل کرنے پر بھی حکومت غور کرے گی، کیونکہ اس کے نام کی وجہ سے وہاں اس پیمانے پرداخلہ نہیں ہوپاتا جیسا کہ ہونا چاہئے۔ بہرحال یونیورسٹی کو قریب سے جاننے والے لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ ماہ رخ مرزا کو جس مقصد سے یہاں لایا گیا تھا،وہ اپنا کام ’خوش اسلوبی‘ کے ساتھ انجام دے کر جاچکے ہیں اور باقی کام مخصوص ذہنیت رکھنے والے سرکاری کارندے خاموشی سے پورا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔