وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں اردو عربی فارسی یونیورسٹی کا زوال

پیر 02 جنوری 2023 بھارت میں اردو عربی فارسی یونیورسٹی کا زوال

 

یہ دلخراش داستان ایک ایسی یونیورسٹی کی ہے جسے اردو عربی اور فارسی زبانوں کے فروغ اوران کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑے جوش وخروش کے ساتھ قایم کیا گیا تھا، لیکن تعصب اور تنگ نظری نے آج اس یونیورسٹی کو قابل رحم حالت میں پہنچادیا ہے۔آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہاں اقلیتوں کی زبان،تہذیب اور معاشرت سبھی کچھ نشانے پر ہے۔اردو عربی فارسی یونیورسٹی بھی اسی سازش کا شکار ہوئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کی بنیادیں کھودنے کاکام ان ہی لوگوں سے لیا گیاہے جن کے نام ان کے والدین نے اردو عربی یا فارسی میں رکھے تھے، لیکن وہ اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لیے ان لوگوں کے ایجنڈے پر گامزن ہیں جو اس ملک سے اردو عربی فارسی زبانوں کا نام ونشان مٹانا چاہتے ہیں۔
یہ قصہ یو پی کی راجدھانی لکھنؤ کا ہے،جہاں گزشتہ ہفتے راقم نے کچھ وقت گزارا۔ یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ حالانکہ لکھنوی تہذیب وثقافت تو کب کی رخصت ہوچکی ہے۔ اب وہاں اس کے کھنڈرات ہی باقی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ دنیا بھر میں لکھنؤ ی تہذیب وثقافت کے بڑے چرچے تھے۔ لوگ اسے دور دور سے دیکھنے آتے تھے، لیکن اب یہاں نہ صبح بنارس کے قصے ہیں اور نہ شام اودھ کی رنگینیاں۔ اگر سچ کہوں تو اس شہر کو سب سے زیادہ سیاست نے خراب کیا ہے اور یہی اب اس کی اکلوتی شناخت بن گئی ہے۔ حالانکہ شہر میں ایسے لوگوں کی اب بھی کمی نہیں ہے جو اپنے شاندار ماضی کی روایات کو گلے لگاکریہاں کی ادبی، تہذیبی اورثقافتی زندگی کو تازہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اجڑے دیار میں چراغ جلانے کا فائدہ ہی کیا؟
اس بار کا سفر ’سنگم فاؤنڈیشن‘کی دعوت پر تھا، جس نے اس خاکسار سمیت ادبی وسماجی زندگی کے چنندہ افراد کو ’اودھ رتن ایوارڈ‘ سے سرفراز کیا۔لکھنؤ میں ہمارا پہلا پڑاؤ خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی تھا جو شہر سے دور ہردوئی،سیتاپور روڈ کے ایک غیرآباد علاقہ میں واقع ہے۔نہ جانے کب سے اس یونیورسٹی کو دیکھنے اور سمجھنے کا اشتیاق تھا، کیونکہ اردو عربی اورفارسی سے ہمیں بچپن ہی سے لگاؤ ہے۔ ہم اس شوق کو لے کر خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی میں داخل تو ہوگئے، لیکن ہمیں اس میں عربی اور فارسی تو کجا اردو کابھی کوئی سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ وہاں موجود لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اب اس یونیورسٹی کا نام اورکرداردونوں بدل دئیے گئے ہیں۔جس مقصد سے یہ یونیورسٹی وجود میں آئی تھی، وہ کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ سیاسی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں اب یہ یونیورسٹی طالع آزماؤں کا اکھاڑہ بن گئی ہے۔اس کے نام کے ساتھ اردو عربی فارسی کا لاحقہ ختم کردیا گیا ہے۔اب یہ خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی ہوگئی ہے۔ موجودہ حکمراں چاہتے ہیں کہ یہاں اردو عربی فارسی ہی کیوں دنیا کی تمام زبانوں کی تعلیم دی جائے۔اگر ایسا ہوا تو واقعی یہ معجزہ ہی ہوگا، کیونکہ دنیا میں ایسی کوئی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں تمام زبانوں کی تعلیم دی جاسکے۔ اس وقت دنیا میں کم وبیش سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔اگراس یونیورسٹی کو تختہ مشق بنانا ہی مقصود ہو تو بات دوسری ہے۔ اس یونیورسٹی سے اردو عربی فارسی کو ختم کرنے کی کوششوں کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ حکمران وقت اقلیتی فرقہ کی زبان و تہذیب کو مٹانے اور ملک میں یک رنگی قایم کرنے کے لیے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔
خواجہ معین الدین چشتی لنگویج یونیورسٹی کی تاریخ کوئی بہت پرانی نہیں ہے۔ 2009 میں مایا وتی کے دور حکومت میں جب یہ یونیورسٹی قایم ہوئی تو اس کا نام’کاشی رام اردو عربی فارسی یونیورسٹی‘ رکھا گیا تھا اور اس میں ان تینوں زبانوں کے ساتھ13دیگر عصری علوم کی تعلیم کا بندوبست تھا۔ یعنی اردو عربی فارسی کی لازمیت کے ساتھ یہ یونیورسٹی عصری علوم کے ایک منفرد ادارے کے طورپر وجود میں آئی تھی۔ نام کی تبدیلی چونکہ اترپردیش کی سیاست کا لازمی جز ہے، اس لیے سماجوادی پارٹی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس کا نام خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی کردیا۔ یہ ایک خوشگوار تبدیلی تھی کیونکہ اسے ایک سیاست داں کی بجائے سرزمین ہندکی سب سے برگزیدہ شخصیت خواجہ اجمیری کے نام سے موسوم کیا گیا، جن کا مزار بلا تفریق مذہب وملت سبھی کی عقیدت کا مرکز ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اس یونیورسٹی کے قیام کے وقت جوخصوصی ایکٹ بنایا گیا تھا، اس میں اردوعربی فارسی زبان اور تہذیب کے فروغ کا واضح طورپر ذکر کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی اختیار دیا گیا تھا کہ اترپردیش میں جتنے بھی اقلیتی ادارے ہیں ان کو اس یونیورسٹی سے ملحق کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ اس یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر انیس انصاری نے تدریسی عملہ کے لیے ہی اردو عربی فارسی جاننے کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ غیر تدریسی عملہ میں بھی ان ہی لوگوں کو ترجیح دی گئی جو ان زبانوں سے واقفیت رکھتے ہوں۔ عصری تعلیم کے دیگر مضامین میں داخلہ لینے والوں کے لیے ان تینوں میں سے کسی ایک زبان کو بطور مضمون لینا لازمی تھا۔ جس کی وجہ سے غیراردو گھرانوں کے طلبائ￿ بھی اس میں دلچسپی لینے لگے تھے۔لیکن بعدکے وائس چانسلر مسعود خان کے دور میں یہ لازمیت ختم کردی گئی۔
انیس انصاری کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کا سب سے زیادہ نقصان تیسرے وائس چانسلر ماہ رخ مرزا کے دور میں ہوا۔انھوں نے ہی اردو عربی فارسی کی لازمیت کو ختم کرنے کے لیے ایکزیکٹیو کونسل سے ایک قرار داد منظورکروائی۔ اس کے بعد ہی یونیورسٹی کے نام سے اردو عربی فارسی کو ہٹادیا گیا اور اس کا ’لوگو‘بھی تبدیل کردیا گیا۔ ابتدائ￿ میں اس ’لوگو‘میں مکافات عمل سے متعلق قرآن کی ایک آیت کو شامل کیا گیا تھا جسے تیسرے وائس چانسلر نے حضرت علی سے متعلق ایک حدیث میں تبدیل کردیا اور اب اس حدیث کو ہٹاکر اس میں سنسکرت کا ایک اشلوک شامل کردیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب تک اس یونیورسٹی کے نام میں اردوعربی فارسی شامل تھا تب تک یہی پیغام جاتا تھا کہ یہ یونیورسٹی ان زبانوں کے فروغ کے لیے مخصوص ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ حالانکہ یونیورسٹی میں اب بھی ان تینوں زبانوں کی تعلیم کا بندوبست ہے، لیکن اس کا بنیادی کردار یکسر تبدیل کردیا گیا ہے۔اس کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر این بی سنگھ ہیں۔
یونیورسٹی کو گزشتہ سال گورنر کی طرف سے ایک ہدایت نامہ موصول ہوا تھا کہ یہاں دنیا کی تمام زبانوں کی تعلیم دی جائے جس سے اس کا دائرہ مزید وسیع ہوگا اور طلبائ￿ وطالبات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔سابق وائس چانسلر ماہ رخ مرزا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے نام سے اردو عربی فارسی ہٹاکر لینگویج یونیورسٹی کرنے سے قبل گورنر آنندی بین پٹیل نے طلبائ￿ و اساتذہ کی رائے طلب کی تھی اور اسی رضا مندی کی روشنی میں ہم نے یونیورسٹی کانام لینگویج یونیورسٹی کیا ہے، جس کے بعد داخلوں میں اضافہ ہوا ہے ورنہ پہلے اردو عربی فارسی نام کی وجہ سے لوگ اسے مدرسہ تصور کرتے تھے، لیکن نام بدل جانے کی وجہ سے اس تصور میں تبدیلی آئی ہے۔
2017 میں اپنی تقرری کے وقت ماہ رخ مرزا نے کہا تھا کہ اس یونیورسٹی کا قیام جس مقصد کے تحت عمل میں آیا ہے ہم اس کے لیے ہرممکن کوشش کریں گے۔لیکن بعد کو انھوں نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔دلیل کے طورپر ماہ رخ مرزا نے یہ بھی کہا کہ بنارس میں موجود سمپورنانند سنسکرت یونیورسٹی کانام تبدیل کرنے پر بھی حکومت غور کرے گی، کیونکہ اس کے نام کی وجہ سے وہاں اس پیمانے پرداخلہ نہیں ہوپاتا جیسا کہ ہونا چاہئے۔ بہرحال یونیورسٹی کو قریب سے جاننے والے لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ ماہ رخ مرزا کو جس مقصد سے یہاں لایا گیا تھا،وہ اپنا کام ’خوش اسلوبی‘ کے ساتھ انجام دے کر جاچکے ہیں اور باقی کام مخصوص ذہنیت رکھنے والے سرکاری کارندے خاموشی سے پورا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر