... loading ...
ٹیکنوکریٹس حکومت کا تصور انتخابات سے قبل موسمی بخار کی طرح پھیلتا ہے۔مگر طاقت ور حلقوں کی خواہشات سے جنمتی بحث کی یہ بیل کم ہی منڈھے چڑھتی ہے۔ موجودہ حالات میں ٹیکنوکریٹس حکومت کی بحث کوئی خطرہ نہیں بلکہ خطرے کی نشاندہی کرنے والی گھنٹی ہے۔ یہ طاقت ور حلقوں اور سیاسی اشرافیہ میں پائے جانے والی شدید بے چینی کی مظہر بھی ہے۔
ٹیکنوکریٹس حکومت کی بحث حکومت اور طاقت ور حلقوں میں زیر غور چار فارمولوں سے برآمد ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے دو اسمبلیوں کو توڑنے کی کوششوں کا مقصد انتخابات مارچ یا اپریل میں کرانے کی تند وتیز تدبیر ہے۔ یہ مستقبل کے سیاسی راستوں کے لیے پہلا فارمولا ہے۔ مگر حکومت اور طاقت ور حلقوں کو یہ گوارا نہیں۔ کیونکہ خطرہ ہے کہ فوری انتخابات کے نتیجے میں عمران خان مقبولیت کی تمام حدوں کو پھلانگ کر دو تہائی اکثریت لینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ طاقت ور حلقے جن میں سے اکثر جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے حلقۂ اثر میں سمجھے جاتے ہیں، مارچ یا اپریل میں انتخابات کو ہی ناممکن نہیں بنا رہے، بلکہ عمران خان کی طرف سے دو اسمبلیوں کو توڑنے کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسمبلیاں توڑنے سے عملاً نئے انتخابات کا دروازہ کھلنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ پاکستان میں حالیہ بحران سے نکلنے کے لیے دوسرا فارمولا وقت پر انتخابات کا ہے۔ ظاہر ہے کہ وقت پر انتخابات کرائے جائیں تو پھر یہ بھی رواں برس ستمبر، اکتوبر میں ہی کرانے ہوں گے۔ شنید ہے کہ شہباز شریف کی حکومت اور طاقت ور حلقوں میں سے کچھ با اثر لوگ 2023ء میں بھی انتخابات کو اپنے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی گزشتہ ہفتے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کے مسائل بہت زیادہ ہیں اور یہ چند ماہ میں حل نہیں ہو سکتے، اُنہیں مزید وقت درکار ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے اہم ترین رہنما اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تو ایک طویل عرصے سے انتخابات کو مزید ایک سال آگے لے جانے کا بتکرار اظہار کرتے آ رہے ہیں۔ اب کم وبیش ایسے ہی اشارے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی دینے لگے ہیں۔ لہذا عمران خان کے مطالبات کے برعکس انتخابات اپنے وقت پر یعنی رواں برس ستمبر اکتوبر میں بھی ہو جائیں تو غنیمت ہی ہوگا۔ یہ کوئی اندیشہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے۔ موجودہ حکومت اور اس میں شامل جماعتیں بلدیاتی انتخابات سے جس طرح راہِ فرار اختیار کر رہی ہیں، اس سے اندازا ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی انتخابی عمل میں شکست کو نوشتۂ دیوار سمجھ رہی ہیں ۔
موجودہ حالات میں ایک تیسرا حل یہ سوچا جارہا ہے کہ کیوں نہ معاشی ایمرجنسی لگا کر انتخابات ایک سال کے لیے التواء میں ڈال دیں۔ یہ عمران خان کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے اچھا خاصا وقت ہو گا۔ مگر اس حل کی ناکامی کے امکانات کافی زیادہ ہیں اور یہ معاشی حالات کو تصوراتی طور پر بھی ٹھیک کرنے کا اعتماد عوام کی سطح پر نہیں دے سکے گا۔ چنانچہ طاقت ور حلقے ایک چوتھے حل کی جانب زیادہ مائل دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حل معاشی صورتِ حال کو ہی بنیاد بنا کر ایک ایسے عبوری سیٹ اپ کی جانب پیش قدمی ہے، جس میں ماہرین کی ایک ٹیم کو دو ڈھائی برس کے لیے عوام پر مسلط کردیا جائے، اور اس پر عدالتی مہر لگوا دی جائے۔ اسی حل کو ٹیکنوکریٹس حکومت کا نام دیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں یہ شوشا عوامی ردِ عمل جاننے کے لیے دانستہ چھوڑا گیا ہے۔ ٹیکنوکریٹس حکومت کی غوغا آرائی کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں۔ یہ ہر چند برس بعد سنائی دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ٹیکنوکریٹس حکومت ملک کو معاشی بحرانوں سے نکالنے کے لیے لائی جارہی ہے؟ یا پھر اس کا مقصد کوئی اور ہے؟ پہلے ہی مرحلے میں اس حل سے وابستہ اعتماد اس لیے ختم ہو جاتا ہے کہ پورے نظام کی سرگرمیاں عمران خان کی مقبولیت کا راستا روکنے کے لیے واضح دکھائی دیتی ہے۔ حکومت اور مختلف شخصیات کا واحد مقصد عمران خان کا راستا روکنا ہی رہ جائے تو پھر وہ مسائل کے حل کے بجائے نئے مسئلے کو گلے لگا لیتے ہیں۔ یوں وہ جو حل بھی دیتے ہیں، اس کا پہلا مقصد عمران خان کا خاتمہ بن جاتا ہے، مسائل کا خاتمہ نہیں۔ اس طرح سیاسی ومعاشی بحرانوں سے نکالنے کے تمام فارمولے اپنی افادیت کھو دیتے ہیں اور موجودہ ابتر معاشی حالات کے لیے کوئی امید جگانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اس تناظر میں ٹیکنوکریٹس حکومت کا معاملہ بھی سمجھنا دشوار نہیں رہ جاتا۔
پاکستان میں ٹیکنوکریٹس کے حوالے سے سب سے شاندار اور جاندار بحث نگراں وزیراعظم ملک معراج خالد کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ معراج خالد بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد 5 نومبر 1996ء سے17 فروری 1997ء تک تین ماہ اور بارہ دنوں کے لیے اس منصب پر فائز رہے۔ اُن کے دور میں ٹیکنوکریٹس حکومت کا غلغلہ بہت شدت سے بلند ہوا۔ تب فوجی سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے اُس وقت کے صدر فاروق لغاری سے ایک ملاقات میں کہا کہ دو ڈھائی برس کے لیے ایک ٹیکنوکریٹس حکومت قائم کر دیتے ہیں جس پر عدالتی مہر وہ لگوا دیں گے۔ صدر فاروق لغاری نے جنرل جہانگیر کرامت کو اس حل کے نقصانات سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے صدر کو کہا کہ میرے ادارے میں تمام افسران کا اس پر اتفاق ہو چکا ہے، مگر آپ کی رائے بالکل برخلاف ہے۔ چنانچہ فاروق لغاری کو جی ایچ کیو مدعو کرکے ٹیکنوکریٹس حکومت کے خلاف ان کے اعتراضات پر افسران کو اعتماد میں لینے کا کہا گیا۔ صدر لغاری نے جی ایچ کیو میں افسران کے سامنے ٹیکنوکریٹس حکومت کے حوالے سے دشواریاں سامنے رکھیں۔ آج بھی ٹیکنو کریٹس حکومت کے قیام میں یہ دشواریاں جوں کی توں حائل ہیں۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ آئین میں اس کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ایسے کسی بھی حل کے بعد اس کو دستوری چادر دینے پڑے گی اور عدالتوں سے اس پر مہر لگوانا ہو گی۔ یہ کام عدالتوں سے کرانے کے لیے جو بھی منصفین میسر آئیں گے، اُن کے چہرے کوئی بھی ہوں، مگر اُن میں روح جسٹس منیر کی ہونا ضروری ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر دو ڈھائی برس کی ایک ٹیکنوکریٹس حکومت آئین کو روند کر قائم بھی کر لی جائے تو پھر ڈھائی برس بعد کیا ہوگا؟ کیا پاکستان کا سیاسی اُفق تبدیل ہو جائے گا؟ ڈھائی برس بعد بھی یہ ملک پھر سیاست دانوں کے اسی انگڑ کھنگڑ کو دینا پڑے گا۔ تب درست تو اب کیوں نہیں؟ کسی بھی ٹیکنوکریٹس حکومت کے ساتھ ایک تیسرا مسئلہ عالمی پزیرائی کا بھی ہے۔ ہمارے معاشی مسائل عالمی سطح کے بہت سے سیاسی و معاشی معاملات سے جڑے ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر ان معاملات میں پاکستان سے کوئی ایسی قیادت چاہئے ہوتی ہے جو عوامی مقبولیت رکھتی ہو۔ مگر ٹیکنوکریٹس حکومت اس معاملے میں مکمل تہی دامن ہوتی ہے، لہذا ٹیکنو کریٹس حکومت عالمی سطح پر کیسے پزیرائی پاسکے گی؟ ٹیکنوکریٹس حکومت کے ساتھ چوتھا اور سب سے بڑا مسئلہ عوامی ناپسندیدگی کا ہوگا۔ کیونکہ ایسی حکومت کی عوام میں کوئی جڑیں نہیں ہوتیں۔ لہذا وہ فیصلوں کی طاقت کہاں سے لے گی جب کہ ایسی حکومت مشکل فیصلوں کے نام پر ہی قائم کی جاتی ہے۔ اس طرح ٹیکنوکریٹس حکومت چند ہفتوں میں ہی ایک بہت بڑا بوجھ بن جائے گی۔ ایک ایسی حکومت جو معاشی گرداب سے نکالنے کے نام پر قائم کی جائے اور وہ معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے بڑے فیصلے لینے کی طاقت رکھتی ہو نہ ہمت، عالمی سطح پر پزیرائی سے محروم ہو، عوامی مقبولیت بھی نہ رکھتی ہو ، وہ صرف چند ہفتوں میں نفرت وحقارت کا ہدف بن جائے گی۔ بد قسمتی سے تب نفرت کا یہ طوفان خود ٹیکنوکریٹس حکومت کی جانب نہیں ہوگا، بلکہ اُسے لانے والوں کی طرف ہو گا۔ یہ طاقت ور حلقوں کے لیے پہلے سے زیادہ دھچکے کا باعث ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کے تنقیدی سیلاب اور عوامی سطح پر اپنی اچھی چھوی کے مسئلے سے دوچار طاقت ور حلقے ایک نئے بحران کا سامنا کریں گے۔ یہ عمران خان کو تباہ کرنے کے بجائے خود اپنی ہی تباہی کا سامان ثابت ہو گا۔
٭٭٭٭