وجود

... loading ...

وجود

سیاست کے ابلتے ہوئے گٹر

منگل 27 دسمبر 2022 سیاست کے ابلتے ہوئے گٹر

 

قائد نے یہ پاکستان اس لیے نہیں بنایا تھا کہ یہاں جمہوریت کے نام پر باری لگتی رہیں، یہ ملک اسلام کے نام پر بناتھا، لوگ اسلام کی سربلندی کے لیے کٹ مرے تھے، ایک خطہ زمین اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں اسلام کے زرین اصولوں پر اسلامی ریاست قائم ہوگی۔مسلمانوں نے اسلام کے نفاد کے لیے قربانیاں دی تھی۔ لیکن ہم یہاں کلچر ڈے منارہے ہیں، صوبائی ثقافت کے گل بوٹے ٹانک رہے ہیں،ملک کے ایک حصے کو کاٹ کر پھینک دیا، لیکن اب بھی زراعت کے محکمے کے ذریعے جھاڑ جھنکار کی شجر کاری کر رہے ہیں۔ اور یہ بھان متی کا کنبہ اقتدار سے چمٹ کر اپنے حلوے مانڈے میں مصرف ہے۔ ان حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ آٹاایک سو تیس روپے کلو ہوگیا ہے، پیاز 200 روپے ہے، اور روٹی 20 روپے کی ہوگئی ہے،یہ سارے حکمران لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ملک کی معیشت تبا ہ ہورہی ہے۔ لیکن ان کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے۔وفاقی حکومت کی کابینہ میں توسیع پر توسیع ہورہی ہے، کابینہ کے ارکان کی تعداد 76 ہوگئی ہے جس میں 31 معاونین خصوصی، 34 وفاقی وزرائ، 7 وزیر مملکت اور 4 مشیر شامل ہیں۔یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ ھے۔ ان کے غیرملکی دورے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ملک میں زرمبادلہ کی کمی ہے، ڈالر مارکیٹ سے غائب ہے،لیکن یہ ٹولہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے۔ جی بھر کر اس قوم کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ہم پھر ان ہی کو منتخب کرتے ہیں۔انتخاب سے اس طرح بھاگ رہے ہیں جیسے ہیروین کا نشہ کرنے والا پانی سے بھاگتا ہے۔
امریکاکا دم بھرنے والے ذرا وہاں کی جمہوری روایات ہی کا پاس کرلیں، وہاں جو بھی صدر بنتا ہے، عوام کا مفاد سب سے پہلے دیکھتا ہے، اقتدار سے باہر آنے کے بعد بھی وہ عوام کی خدمت کرتے ہیں، صدر بل کلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ “میری خواہش تھی کہ میں وائٹ ہاؤس سے نکلنے کے بعد بھی لوگوں کی خدمت کروں۔ انہیں ایسے موقعے فراہم کروں جن کے ذریعے وہ خوشیوں تک پہنچ سکیں۔ میں نے یہ سب کچھ اس لئے ضروری سمجھا کہ میرے ہم وطنوں نے مجھے زندگی میں ایک تاریخی مقام تک پہنچنے میں مدد دی تھی۔ ایک ایسا مقام جو ہر شخص کو نہیں ملتا۔ امریکہ کا صدر اور وہ بھی دو بار‘‘۔ بل کلنٹن نے یہ باتیں اپنی کتاب ’’دینا ‘‘ یا Giving۔ میں لکھی ہیں۔ کلنٹن کا کہنا ہے کہ ’’سیاست ایک ایساکا م ہے جس کا انحصار عام طور پر صرف لینے پر ہے۔ سیاست دان لوگوں سے مدد لیتے ہیں، عطیا ت لیتے ہیں یا پھر ووٹ لیتے ہیں اور یہ عمل ایک بار نہیں بار بار دہرایا جا تا ہے۔ آپ خواہ کسی بھی منصب پر پہنچ جائیں آپ لوگوں کو اتنا واپس نہیں کر تے جس قدر آپ ان سے وصول کر چکے ہو تے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ مجھے پرانا سارا حساب بے باق کرنا ہے۔ اس محبت کا قرض اتارنا ہے جو امریکی عوام نے مجھ سے کی۔ میں اپنے اہل خانہ کے علاوہ بہت سے لوگوں کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں یہ سب کچھ کروں تاکہ میرے ہم وطن اور دنیا بھر کے لوگ ایک خوشگوار زندگی سے ہمکنار ہوں۔‘‘ یہ ساری باتیں کلنٹن نے اس کتاب کے تعارف میں کہی ہیں۔
دوسری جانب یہ غریب ملک ہے، جو سیلاب کی تباہ کاری سے لڑ رہا ہے،سندھ کا سب سے برا حال ہے، بہت سی زمینوں پر پانی اب تک کھڑا ہے، فصلیں ڈوبی ہوئی ہیں، راستے تباہ حال ہیں۔ عوام بے حال ہیں۔ سیلاب نے پورے ملک کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد کو بے گھری، اموات اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذراان تباہ کن اثرات کا ایک جائزہ تو لیں۔1500 سے زیادہ اموات،تقریباً 13,000 زخمی، 10 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا،تقریباً 800,000 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے،ایک ملین سے زائد مویشی ضائع ہو گئے،9 ملین ایکڑ سے زائد فصلیں متاثر ہوئیں،اس آفت زدہ قدرتی واقعے کی جانی اور مالی نقصان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے صرف امداد کی آس میں رہے۔ سردیاں آگئی، خیمے بھی جو امداد میں آئے وہ اب تک متاثرین کو نہیں پہنچ سکے۔ ان کی خوراک ، روزگار، مکان کی چھت کی فراہمی کو کسی کو خیال نہیں، لیکن اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے ارکان کی خرید و فروخت جاری ہے، عدالتیں بھی اس کھیل کا حصہ بن گئی ہیں، عام آدم انصاف کے لیے ترس رہا ہے، اس کا مقدمہ کوئی سننے والا نہیں ہے۔ لیکن حکمرانوں کے لیے رات دن کسی بھی وقت عدالتیں کھلی ہوئی ہیں، ان کے مقدمات سننے جار ہے ہیں،ایک فیصلہ حمایت میں ہوتا ہے، اور دوسرے سے اس کی نفی ہوجاتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پاکستانی عوام کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں ؟
اسمبلیاں توڑنا، ارکان اسمبلی کو خریدنا بس یہی ایک کام رہ گیا ہے، یا دوسرا کام وہی ویڈیو ز کا ہے، سیاست کے گٹر ابل رہے ہیں، ہر طرف تعفن پھیلا ہوا ہے، گندگی کا ڈھیر ہے، اور اس گندگی کر پھیلانے کے لیے رات دن شوشل میڈیا پر کام جاری ہے۔ صحافت کے نام پر جو کچھ رات دن پھیلایا جارہا ہے، وہ کسی طور پر صحافت نہیں کہی جاسکتی، اور نہ ہی ان لوگوں کو صحافی کہا جاسکتا ہے، یہ تاجر ، لٹیرے، گندے کام کو پھیلانے والے، اپنی قیمت وصول کررہے ہیں، کوئی بورڈ کا چیئرمین ، اور کوئی سفیر و وزیر یا ٹھیکے داری میں مصروف ہے۔پاکستان ہرگز اس مقصد کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، یہ تو مسجد کی جگہ تھی، جیسے میخانہ بنادیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر