... loading ...
دوستو،ان دنوں لاہور مرکز نگاہ بناہوا ہے۔ ایک تو لاہور دا پاوا نے سوشل میڈیا پر دھوم مچائی ہوئی ہے، دوسرا تخت لاہور کا آج فیصلہ ہونا ہے ،کپتان کی خواہش ہے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل کردی جائے جب کہ مخالفین نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔۔ آج جمعہ ہے۔۔ فیصلہ ہوجانا ہے کہ لہور دا پاوا کون ہے؟دو نشئی دوپہر کے وقت ایک گھر کے پاس سے گزر رہے تھے۔ ایک نشئی دوسرے سے بولا۔۔یار گھر دھوپ میں جل رہا ہے اس کو چھاؤں میں لے چلیں۔۔دوسرا بولا، ٹھیک ہے۔۔وہ دونوں جوتے اتار کر گھر کو دھکا لگانے لگے۔۔اتنے میں ایک چور اس صورتحال کو دیکھ کر ان کے جوتے اٹھا کر لے گیا۔۔وہ دونوں پسینے میں شرابور دھکا لگانے میں مصروف رہے جب شام ہونے لگی تو پیچھے مڑ کر بولے،یار! اسی کافی دور آ گئے آں، ہن تے ساڈیاں جتیاں وی نظر نئیں آ رئیاں۔۔۔واقعہ کی دُم:مشکل وقت سے گزر چکے ہیں، اب اچھا وقت آرہا ہے۔۔۔
میڈیسن کا پروفیسر یونیورسٹی کے طلبہ کو لیکچر دے رہا تھا۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طریقہ علاج ایلوپیتھی ہو، ہومیو پیتھی ہو یا طب یونانی۔۔ کیونکہ سارے راستے ’’قبر‘‘ کی طرف ہی جاتے ہیں۔۔اس مثال کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سیاست میں حکومت کوئی بھی کرے، عوام کو پسنا پڑتا ہے، تمام مشکل فیصلے عوام کے لیے ہی ہوتے ہیں۔۔ مہنگائی کی چکی میں عوام کو رگڑا لگایاجاتا ہے۔ بے روزگاری عوام کے نصیب میں لکھی ہوتی ہے۔ اسٹریٹ کرائم، لاقانونیت، پولیس گردی ان سب کا نشانہ عام عوام ہی بنتے ہیں۔۔گزشتہ کالم ہم نے اردو کے حوالے سے لکھا تھا کہ۔۔ ہمارے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اردو کی ایسی کی تیسی ہورہی ہے۔ احباب کی اکثریت نے اچھا فیڈبیک دیا ہے، ساتھ ہی مشورہ بھی دیاہے کہ مہینے میں ایک آدھ بار اسی طرح اردو سے متعلق تحریر کیا کیجئے تاکہ ہم اپنی اردو اچھی کرسکیں۔۔ اردو کے حوالے سے ایک ٹیچر کی یادداشت کا مزید کچھ حصہ بھی سن لیجئے۔۔ٹیچر فرماتے ہیں کہ۔۔اکثر اسٹوڈنٹس تو گھر جاکر بتاتے ہیں مس کہہ رہی تھیں آپ خود کشی پر دھیان دیں حالانکہ مس نے خوش خطی کی بات کی تھی۔۔ایک بچے سے پوچھا گیا آپ کی مما ڈائجسٹ رائیٹر بھی ہیں، ڈائجسٹ رائٹر کا کیا مطلب ہے؟ بچے نے برجستہ کہا۔۔ ہاضمے والی رائٹر۔۔پچھلے ہفتے ایک شاگرد نے لکھا۔۔ شاعر’’ مشرک‘‘ فرماتے ہیں ۔۔محبت مجھے ان جوانوں سے ہے،ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں’’ گند‘‘۔۔۔ایک طالبہ نے اپنی ٹیچر سے پوچھا۔۔میم کیا ہم لعنت کا استعمال کر سکتے ہیں؟ٹیچر نے کہا۔۔ ہر گز نہیں،یہ کیسا سوال ہے؟ طالبہ کہنے لگی۔۔میم آپ نے ہی نوٹ میں لکھا تھا کہ جہاں مشکل پیش آئے وہاں لعنت کا استعمال کریں۔۔ٹیچر نے دانت بھینچتے ہوئے کہا۔۔ میں نے لعنت نہیں ’’لغت‘‘ لکھا تھا۔۔مس نے خوش خطی کے لیے ایک مضمون بلیک بورڈ پر لکھا۔۔ اس میں ایک جملہ تحریر تھا۔۔اور توپخانے سے مسلسل گولہ باری ہورہی تھی۔۔ایک بچے نے وقفہ دے کر پڑھا۔۔اور تو۔۔ پاخانے سے مسلسل گولہ باری ہورہی تھی۔۔
کراچی کے سٹی پولیس چیف فرماتے ہیں کہ۔۔ دوران ڈکیتی شہری مزاحمت نہ کریں بلکہ ڈاکو جو کہتے ہیں خاموشی سے مان لیں۔۔قانون کے محافظوں کی طرف سے جب ایسی اپیلیں سننے میں آئیں تو سمجھ لیں کہ ٹائی ٹینک ڈوب چکا ہے، اب اس شہر کا کچھ نہیں ہوسکتا۔۔کہیں بھی کوئی واردات ہوتی ہے تو پولیس فوری حرکت میں آجاتی ہے، جس بے چارے کے ساتھ واردات ہوتی ہے پولیس کا پہلا شک اسی پر جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی میں نوے فیصد شہری موبائل فون چھینے جانے کے باوجود پولیس میں رپورٹ درج کرانے سے کتراتے ہیں۔پولیس سندھ کی ہو یا پنجاب کی، عادت و اطوار اور طریق کار سب کا یکساں ہی ہوتا ہے، پولیس کی جانب سے کوئی بھی حکم نامہ جاری ہوتا ہے تو خاص طور سے لکھا جاتا ہے کہ ’’بحکم آئی جی صاحب‘‘۔۔اس طرح کے کچھ نرالے حکم نامے یعنی اطلاع برائے عوام الناس ہمیں بھی ملے ہیں۔۔ اگر کوئی پولیس والا رشوت لیتا تھا پھر لینا چھوڑ دے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔اگر کوئی پینٹ پہنتا تھا پھر کرتا شلوار شروع کر دے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔اگر کسی کا پائنچہ ٹخنوں سے نیچے تھا پھر اوپر ہو جائے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔آپ کسی کو کال کریں اور کال بیک ٹون میں گانے کی جگہ نعت سنائی دے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔اگر کوئی فون پر ہیلو کہتا تھا پھر السلام علیکم کہنا شروع کر دے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔اگر کوئی اسٹار پلس کی جگہ ’’پیس ٹی وی‘‘ لگا دے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔اگر کوئی چاول چمچ سے کھاتا تھا پھر ہاتھ سے کھانا شروع کر دے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔اگر کوئی ماما پاپا اور موم ڈیڈ کی جگہ ابا اماں کہنا شروع کر دے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔۔اگر بچہ “ڈوریمون” کی جگہ “عبدالباری” دیکھنے کی ضد کرے تو آئی جی کو اطلاع کریں۔
کسی تھانے کے ایس ایچ او کو اچانک حکمت سیکھنے کا شوق ہوا، اپنے علاقے کے سب سے قابل حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اپنا مدعا بیان کیا۔۔ حکیم صاحب چونکہ کافی بوڑھے ہوچکے تھے اور جڑی بوٹیوں، نباتات کو کوٹ کر دوائیاں بنانے میں دشواری کا سامنا تھا چنانچہ انہوں نے سوچا کہ مفت میں ایک معاون و مددگار مل رہا ہے تو کیا حرج ہے۔۔پانچ سال تک ایس ایچ او حکیم صاحب کی خدمت کرتا رہا۔۔ مطب میں ٹائم دیتا،اکثر تو حکیم صاحب کے ساتھ مریضوں کے گھروں کا بھی وزٹ کرتا۔۔ حکیم صاحب ایک مریض کو اس کے گھر میں چیک کرنے گئے۔۔ ساتھ میں حکیم صاحب کا شاگردبھی تھا جو کہ پانچ سال لگا کر تقریبا حکمت سیکھ چکا تھا۔۔نبض چیک کرنے کے بعد حکیم صاحب نے مریض سے کہا۔۔تم نے کیلے کھائے تھے؟ مریض نے کہا۔۔ جی بالکل۔۔ایس ایچ او شاگرد جو کہ حکمت سیکھ چکا تھا بڑا حیران ہوا اورحکیم صاحب سے کہا کہ یہ بات کیسے معلوم ہوتی ہے کہ مریض نے کیلے کھائے ہیں؟حکیم نے شاگرد سے کہا کہ اس کے لیے تمہیں مزیدایک سال شاگردی اختیار کرنی پڑے گی۔۔شاگرد تو بس اپنی حکمت کی دکان کھولنے کے چکرمیں تھا۔۔اب ایک سال پورا اپنے استاد کی خدمت کی، دوائیاں کُوٹیں اور جب سال پورا ہوا تو کہا کہ اب تو بتادیں،گُر کی بات کہ کیلے کھائے ہوں تو کیسے علم ہو گا؟ حکیم صاحب نے کہا۔۔او کملیا مریض دی منجی تھلے کیلے دے چھلکے پئے سن۔۔(اونالائق، مریض کے بیڈ کے نیچے کیلے کے چھلکے پڑے تھے)۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دنیا بھر میں قانون ’’اندھا ‘‘ ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں قانون ’’دھندا‘‘ ہوتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔