... loading ...
دوستو،جس قسم کی اردو ان دنوں ٹی وی چینلز ، اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھنے ،سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہے، کانوںکو ہاتھ لگالینے کو دل چاہتا ہے۔۔اردو لکھتے اور بولتے وقت ہم یکساں آواز،مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا تک بھول جاتے ہیںجیسے۔۔۔ کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں۔اسی طرح انگریزی الفاظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ جو الفاظ یا اصطلاحات (ٹرمز) رائج ہوچکی ہیں یا جن کا کوئی ترجمہ نہیں ہے یا ترجمہ ہے تو وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا، اس لیے انہیں ترجمہ نہ کیا جائے، بلکہ انگریزی میں ہی لکھ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن انگریزی الفاظ کو اردومیں لکھا جائے گا، ان کی جمع اردو کی طرز پر بنائی جائے گی، نہ کہ انگریزی کی طرز پر، جیسے اسکول کی اسکولوں، کلاس کی کلاسوں، یونیورسٹی کی یونیورسٹیوں، اسٹاپ کی اسٹاپوں وغیرہ (انہیں اسکولز، کلاسز، یونیورسٹیز لکھنا درست نہیں)۔ تیسری بات یہ ہے کہ انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ جو ایس سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز ہوتی ہے، انہیں اردو میں لازمی طور پر الف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے اسکول، اسٹاپ، اسٹاف، اسٹیشن، اسمال، اسٹائل، اسٹار وغیرہ۔ لیکن ایسے الفاظ جو شروع تو ایس سے ہوتے ہیں لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز نہیں ہے انہیں الف سے نہیں لکھا جائے گا، جیسے سچیویشن، سورس، سینڈیکیٹ،سائن اوپسس وغیرہ۔ہندوستانی فلموں نے اردو پر جو بھدا اثر ڈالا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں لفظ ’اپنا‘ کی جگہ میرا بولا جاتا ہے۔ ہمیں اردو لکھتے ہوئے اسے ٹھیک کرنا چاہیے، اس لیے ’میں میرے نہیں‘ بلکہ ’میں اپنے لکھا جائے‘ جیسا کہ میں میرے گھر میں میرے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بالکل غلط ہوگا، درست جملہ یوں ہوگا کہ میں اپنے گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
اسی طرح یہاں ہم چند الفاظ ایسے بتارہے ہیں جنہیں جنھیں عموماً زبر سے پڑھا اورلکھا جاتا ہے۔کِرایہ، نِچوڑ، نِڈر، صِحاح، عِطر، وِزارت، ذِہانت، رِفعت، زِراعت، اِمارت، دِلاسا، فرِار، نِقاب، مِٹی (مَٹی)، سِفارش، اِکسیر، عِرق النسائ، نِوالہ، عِظام (جمع، عظیم و عظم)، نِنانوے، رِٹ، عِجلت، اِذن (اجازت و حکم)، ذِمہ داری، شِفا، جِہاد، تِجارت، قِیام، خِزانہ، سردمِہری، مِثل، نِکات وغیرہ۔۔ اسی طرح چند الفاظ ایسے جنہیں ہمیشہ بڑی تعداد میں لوگ غلط لکھتے بھی ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔۔غَلَط، وَراثت، ہَذیان، مَذمت، مَحبت، سَحری، غَلط فہمی، سَمت، مَحلہ، مَرمت، حَجتہ الوداع، مَبلغ، نَشاط، نَشاۃ ثانیہ،۔ نَشَاستہ، شَکل، نَظارہ، سَرقہ، حَجم، مَشہور، اَذان، سَفید، سَپید، سَمندر، تَجربہ، تَرجمہ، شَکویٰ، ہَونہار، باَہَر، لَذَت، نَجات، اَمانت، نَفل۔۔اردولکھتے وقت چند غلطیاں جو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھی نظر آتی ہیں۔۔خط کتابت (خط و کتابت غلط ہے) معرکہ آرا (معرکتہ الآراء صحیح نہیں) وتیرہ(وطیرہ، غلط ہے) روداد(روئیداد غلط ہے) خاصا مشکل (کافی مشکل، غلط ہے) چاق چوبند(چاق و چوبند غلط ہے) بلند بانگ (بلند وبانگ، صحیح نہیں) خوردنوش(خوردونوش غلط ہے) بے نیل مرام (بے نیل و مرام، غلط ہے) ان شاء اللہ (انشاء اللہ، صحیح نہیں، یہ ایک شاعر کا نام تھا اور انشا مضمون نویسی کو کہتے ہیں) استفادہ کرنا (استفادہ حاصل کرنا غلط ہے) دوران کے ساتھ میں بھی لکھنا چاہے۔۔ درمیان کے ساتھ میں نہیں۔تابعدار نہیں صرف تابع۔بمعہ، غلط ہے صرف مع (مع اہل و عیال) قسم کھانا، حلف اٹھانا، صحیح ہے۔ (قسم اٹھانا غلط ہے) درستی (درستگی غلط ہے) ناراضی (ناراضگی، غلطی ہے) علانیہ (اعلانیہ، صحیح نہیں) قرآت (قرات لکھنا ٹھیک نہیں) دھوکا(دھوکہ نہیں) ٹھکانا (ٹھکانہ نہیں) دکان (دوکان نہیں، دوکان تو انسانی اعضا میں سے ہیں) اور دکان دار(دکاندار نہیں) اذان (آذان، نہیں) ائمہ (آئمہ نہیں) عجز و انکسارِ(عجز و انکساری نہیں، ہاں عاجزی اور انکسار ٹھیک ہے) غیظ و غضب (غیض و غضب نہیں) اسی طرح لکھتے وقت دو الگ الگ لفظوں کو اکٹھے نہیں لکھنا چاہے۔مثلا۔۔اہل حدیث صحیح ہے، اہلحدیث صحیح نہیں۔اسی طرح اہل حدیث میں جمع بھی ہے۔ اہل حدیثوں اہل سنتوں وغیرہ لکھنا اور بولنا صحیح نہیں۔ایسے ہی کے لیے الگ الگ لکھیں (کیلئے، غلط ہے) اہلِ لاہور (اہلیانِ لاہور، صحیح نہیں) بد (برا)، بدتر (بہت برا)، بدترین (بہت ہی برا) بہہ (اچھا)، بہتر(بہت اچھا)، بہترین (بہت ہی اچھا) جب ترین لگ جائے تو ساتھ سب سے لگانا عبث ہے دیہہ(واحد)، دیہات (جمع) (دیہاتوں، صحیح نہیں)۔خوب، کا معنی اچھا ہے، خوب تر(بہت اچھا)، خوب ترین (بہت ہی اچھا)، خوب صورت، خوب سیرت وغیرہ (خوب صورت مزرا، خوب صورت تقریر وغیرہ صحیح نہیں)
اردوکے ایک استاد نے گزشتہ سوشل میڈیا پر لکھا کہ۔۔۔اُردو کا اُستاد ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پیپر چیک کرتے ہوئے بندے کو اُکتاہٹ نہیں ہوتی اور بندہ مسلسل مسکراتا ہی رہتا ہے۔مضمون نگاری کے حوالے سے موضوع تھا کہ۔۔ جدید دور میں اولاد اور والدین کے درمیان فاصلے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ، تبصرہ کیجیے ۔۔ایک بچے نے اپنے مضمون میں بہت ہی شاندار دلائل کے ہمراہ لکھا کہ۔۔ جدید نسل اور والدین کے درمیان بڑھتے فاصلے ایک زندہ حقیقت ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اپنے والدین کی شادیاں سولہ، سترہ یا بیس سال کی عمر میں ہو گئی تھیں جبکہ جدید نسل کو چوبیس سال کی عمر تک تعلیم کے بہانے اکیلا رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد اچھی نوکری حاصل کرنے میں تین چار سال مزید لگ جاتے ہیں۔ جدید نسل اپنے بزرگوں کی چالاکیاں خوب سمجھتی ہے۔ خود تو اپنے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی دیکھ رہے ہیں اور دوسری طرف جدید نسل دیر سے شادی ہونے کی وجہ سے شاید ہی اپنی اولاد کو بھی جوان ہو کر برسرِ روزگار ہوتا دیکھ سکے۔والدین اگر چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد خوش رہے تو والدین کو اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اپنے بچوں کی دوران تعلیم ہی شادی کر دینی چاہیے تا کہ جدید نسل اور والدین کے درمیان خوشگوار ماحول قائم ہو سکے۔ جہاں تک بات رزق کی ہے، اس کی گارنٹی تو ڈگری کے بعد بھی نہیں اور ڈگری کے بغیر بھی لوگ یہاں گورنر بن کر یونیورسٹیوں کے چانسلر لگ رہے ہیں اور ڈگریاں بانٹ رہے ہیں۔۔اسی طرح ایک اور استاد نے اپنی ایک ڈائری میں لکھا کہ مجھے اپنے ہونہار شاگرد بہت یاد آتے ہیں۔۔اردو میں تلفظ اور املا کی ایسی غلطیاں جن کو چیک کرتے ہوئے غصہ بھی مسکراہٹ میں بدل جاتا ہے۔ایک دفعہ کلاس میں بچیوں سے کہا پہلے درخواست پڑھ کر سنائیں پھر لکھیں۔۔ایک بچی نے بخدمت جناب کو ’’بدبخت جناب‘‘ پڑھا، میں نے تصحیح کر دی۔پھر اس نے کہا۔فوزیہ کو دو دن کی چھٹی عنایت کی جاوے۔میں نے پوچھا۔ آپکا نام فوزیہ ہے؟ جواب آیا نہیں تو لیکن درخواست میں یہی لکھا ہے۔۔ وہاں ’’فدویہ‘‘ لکھا تھا۔۔پرچے میں چچا کے نام خط لکھنے کو کہا گیا توکسی کے چچا شاید وفات پاچکے تھے،خط کے آغاز میں لکھا۔۔السلام علیکم یا اہل القبور۔۔ایک طالب علم خط نویسی میں امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ کو’’امید ہے آپ بیغیرت ہوں گے‘‘ لکھ ڈالتے ہیں۔۔پھپھوندی کو ’’پھپھو…ندی‘‘ پڑھتے ہیں۔ درختوں پر انجیر لٹکے ہوئے تھے، کو۔۔درختوں پر انجینئر لٹکے ہوئے تھے۔۔ پڑھتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہمارے ایک استاد محترم فرمایاکرتے تھے۔۔ سب کچھ پہلے’’وغیرہ’’ میں ہی آجاتا ہے دوسرا ’’وغیرہ‘‘ کس کام کا؟خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔