وجود

... loading ...

وجود

پاک افغان سرحدی جھڑپیں

هفته 17 دسمبر 2022 پاک افغان سرحدی جھڑپیں

طالبان کے اقتدار میں آنے کے باوجود پاک افغان سرحد پر امن قائم نہیں ہو سکا بلکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ایک سے زائد مقامات پر دونوں ملکوں کے حفاظتی دستوں میں خونریز تصادم ہو چکا ہے مستقبل میں مزیدبھی ایسے کسی امکان کورَد نہیں کیا جا سکتا اور مشرقی سرحد کی طرح اب پاکستان کو مغربی سرحد پر بھی حفاظتی دستے تعینات رکھنا پڑیں گے نیزطالبان کاطرفدارہونے کے باجود مستقل سرحدی لکیر کو تسلیم نہ کرنے جیسے مسائل کا سامنا رہے گا حالانکہ یہ مسائل ماضی میں حل کیے جا چکے پھربھی ڈیورنڈلائن اور آمدرفت جیسے معاملات کوجان بوجھ کرمسائل بنا کر پیش کیاجاتا ہے حقیقت میں یہ مسائل ہیں ہی نہیں بلکہ محض سوچ کا فرق ہے اوریہ سوچ کاہی فرق دوبرادر ممالک کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے کا باعث ہے حالانکہ یہ سوچ کا فرق دشمن کا بچھایا جال ہے جس کا مقصد دوہمسایہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے دور کرنا اور مدمقابل لاناہے اگر طالبان جلد دشمن کے بچھائے جال سے نہ نکلے تونہ صرف دونوں ملک ایک دوسرے سے دورہوں گے بلکہ دونوں طرف مزیدجانی و مالی نقصان ہوتا رہے گا جس انھیں تسلیم کرنے کے امکانات کم ہوتے جائیں گے اِس لیے ضروری ہے کہ پہلی ترجیح سرحدوں پر امن کو بنائیں تاکہ پاکستان یکسوئی سے اُن کی وکالت کر سکے طالبان قیادت کو جھڑپوں جیسے واقعات روک کر کسی ایسے قابلِ قبول حل کی طرف آنا پڑے گا جو دونوں طرف کی عوام کے مفاد میں ہو اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر دونوں ملک مل کر شرپسندوں کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کریں کیونکہ آئے روزکی سرحدی جھڑپیں نہ صرف آمدو رفت میں رکاوٹ کا باعث ہیں بلکہ تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں ایسے حالات میں جب افغانستان کی زیادہ تر تجارت براستہ پاکستان ہوتی ہے یہ سرحدی مسائل ایک دوسرے کو دور کرنے کے ساتھ تجارتی اور معاشی ترقی کی راہ بھی دشوار کردیں گے ۔
گیارہ دسمبر اتوارکے دن فغانستان کے اندر سے پاکستانی علاقے پر وقفے وقفے سے بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری ہوئی جس نے آٹھ پاکستانی شہریوں کی جان لے لی جبکہ سترہ افراد زخمی ہوئے جس پر پاکستان نے احتجاج کیا اس واقعہ پر بحث کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا مگروزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پالیسی بیان دینے کی بجائے ایوان کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ طالبان نے واقعہ پرمعافی طلب کرتے ہوئے آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے مگرکرائی گئی یقین دہانی کے اثرات ایک ہفتہ بھی نہ رہے پندرہ دسمبر جمعرات کو پھر ویسی ہی جارحیت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیاایسے واقعات سے مزید یقین دہانیوں پر اعتماد کرنے کی بجائے یہ پیغام ملتاہے کہ افغان حکام پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنے کی بجائے سرحد ی حفاظتی نظام کو سخت کیا جائے کیونکہ اِس میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ افغان عبوری حکومت کی امن پالیسی سوالیہ نشان بن گئی ہے اور وہ سرحدی واقعات کو سنجیدہ نہیں لیتی بلکہ ایسے واقعات پر زیادہ تر پاکستان کو نظرانداز کرنے یاپھر اپنے موقف پر قائل کرتی محسوس ہوتی ہے طالبان گزشتہ برس سے ایسے واقعات کے تدارک کی یقین دہانیاں کراتے چلے آرہے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کررہے اور نہ صر ف پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اب تو شہری آبادی کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا ہے جس میں زیادہ تر افغان بارڈر فورس ملوث ہوتی ہے اِس کا مطلب ہے کہ سرحدی جھڑپیں افغان عبوری انتظامیہ کی مرضی کے مطابق ہیں لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ نہ صرف افغان سیکورٹی فورسز کو داندن شکن جواب دیا جائے بلکہ طالبان کو بھی یہ باور کرایا جائے کہ اُن کی بقا پاکستان سے مشروط ہے اور اگر ایسے واقعات کا سلسلہ ختم نہیں کرتے تو پاکستان نہ صرف افغان حکام کی عالمی سطح پر وکالت کا سلسلہ روک سکتاہے بلکہ تعلقات پربھی نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگا۔
بلوچستان کا سرحدی علاقہ چمن اِس حوالے سے نہایت اہم ہے کہ یہ ا فغانستان آنے جانے کا ایسا اہم راستہ ہے جس کے ذریعے سبزیاں ،ادویات سمیت دیگر کھانے پینے کے سامان کی روزانہ کی بنیاد پرقندھار سمیت سات قبائلی اضلاح کو ہوتی ہے سامان کی یہ ترسیل آئے روز ہونے والی جھڑپوں سے رُک جاتی ہے طالبان مت بھولیں کہ افغانستان کے نصف حصے کو بھوک و افلاس کا سامنا ہے تو سرحدی جھڑپوں کی اجازت دیکر وہ اپنے ہی عوام کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں ایسا طرزِ عمل کو ہر گز دانشمندانہ نہیں بلکہ مسائل کا شکاراپنی عوام کو مزید مسائل کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے ۔
پاک افغان سرحدی جھڑپیں طالبان کی طاقت اورخلوص کا بھانڈہ پھوڑ رہی ہیں اور یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ یا توطالبان میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ شرپسند عناصر پر قابو پا سکیں یا پھر ظاہری خلوص کے باوجود اُن کی آرزو بھی پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے اسی لیے ہر سرحدی جھڑپ پر وقتی یقین دہانی کراکر معاملادبانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسا رویہ زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جا سکتا جلدہی پُرتشدد واقعات کا سلسلہ روکا نہ گیا تو دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کا متاثر ہونا خارج ازامکان نہیں جب دنیا طالبان کوپوری طرح قبول کرنے پرتیار نہیں اِن حالات میں پاکستان سے دوری اُن کے لیے مزید مسائل کا موجب بنے گی ساری دنیا میں بین الاقوامی سفر کے لیے پاسپورٹ کا استعمال ہوتا ہے پرویز مشرف دور میں اِس پربھی افغان حکام سے کشیدگی پیداہو گئی بعدازں طویل بات چیت کے بعدپاسپورٹ پر مخصوص راستوں سے آنے جانے پر قائل کیا گیا حالانکہ ملا عمر کا موقف تھا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں برادر ہمسائے ہیں جن کے درمیان کسی سرحدی لکیر کاکوئی جوازہی نہیں۔
پاکستان نے کبھی افغانوں کی مدد میں کنجوسی نہیں کی سوویت یونین نے جارحیت کی تو نہ صرف آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا ساتھ دیا بلکہ لاکھوں افغان مہاجرین کوآنے کی عام اجازت دی جن کی اکثریت آج بھی پاکستان میں ہے یہ احسان فراموش مہاجرین کھیل کے میدانوں میں پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے اور اگست میں پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرنے اور خلاف نعرے بازی سے دل آزاری کرتے ہیں نائن الیون کے بعد بھی پاکستان دنیاکا واحد ملک ہے جس نے افغانوں کی ہر ممکن مدد کی اگر ایسا نہ ہوتا تو آج افغان طالبان کے حالات مختلف ہوتے اور وہ آج اقتدار میں نہ ہوتے مگر تعاون ،مدد اور خلوص کاجواب سرحدی جھڑپوں کی صورت میں دے کر اپنے بڑے بھائی کو بددل کیاجارہا ہے اُن کے لیے بہترہے کہ جتنا جلد ہو سکے پُرتشدد سرحدی کاروائیاں روکیں تاکہ دونوں طرف کے عوام میں نہ صرف روابط برقرار رہیںبلکہ معاشی و تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں۔
ٹی ٹی پی کو آج بھی افغان حکام کی تائید حاصل ہے جس میں کوئی ابہام نہیں اِس دہشت گرد گروہ نے غیر مشروط مزاکرات کا آغاز اور غیر معینہ عرصے کے لیے جنگ بندی کا اعلان بھی محض وقت حاصل کرنے کے لیے ہی کیا تھا اس عرصے میں انھوں نے فاٹا سے لیکر مالاکنڈ،سوات و دیگر علاقوں میں خود کومنظم اور مضبوط بنا یا اب وہ فاٹا کی موجود حثیت ختم کرنے سمیت اسلحہ لیکر چلنے کی اجازت دینے جیسے مطالبات کرنے لگے ہیںجوکوئی آزاد و خود مختار ملک تسلیم نہیں کر سکتا مگر افغان حکام ٹی ٹی پی پر دبائو ڈالنے سے گریزاں ہیں یہ عمل اُن کے خلوص کے دعوئوں کی نفی کرتاہے ایک طرف افغان حکام سرحدی باڑ کو اُکھاڑنے میں ملوث ہیں تو دوسری طرف اسمگلربھی سرحدی باڑ کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش ہیں جس سے ملی بھگت کی طرف اشارہ ہوتاہے جرائم پیشہ افرادکی سرگرمیوںاور سرحدی جھڑپوں کاجلد تدارک نہ کیا گیا توخطے میں بدامنی جیسی خطرناک صورتحال بن سکتی ہے لہذا جتنا جلد ممکن ہو سکے افغان حکام امن قائم کرنے میں تعاون کریں وگرنہ دنیا کی طرح پاکستان سے بھی کٹ کر رہ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر