... loading ...
محمد سرفراز بٹ المعروف میم سین بٹ کے کالموں اور مضامین کا مجموعہ “لاہور کا مقدمہ ” کتابی “صورت” میں سامنے اجقٓ اور سچ پوچھیں تو چھا چکا ہے۔ میم سین بٹ سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ تو یاد نہیں البتہ ان کے ساتھ روزنامہ جناح میں گزرا وقت یادگار رہا وہ سٹی پیج کے نیوز ایڈیٹر تھے اور میں ایڈیٹر رپورٹنگ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ بٹ صاحب اور مجھ میں ایک قدر مشترک تھی کہ دونوں ہی سگریٹ نوشی کو زندگی کے لیے خطرہ سمجھ کر اس سے نفرت کرتے تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں ہم “سیم پیج” پر تھے بلکہ بٹ صاحب نے تو زندگی میں کبھی سگریٹ کو “منہ” اور “نوشی” کو “ہاتھ” بھی نہیں لگایا۔ میم سین بٹ نے بڑی اپنائیت اور محبت سے پریس کلب کیفے ٹیریا میں اپنے دستخط ثبت کر کے یہ کتاب “تحفتاً” دی اپنی محتاط و حساس طبیعت کے عین مطابق وہ کتاب دیتے وقت اسے ردی اخبار میں لپیٹنا نہ بھولے ہو سکتا ہے وہ محدود تعداد کے باعث ایسا کر رہے ہوں مگر مجھے لگا جیسے بچپن میں دوست ایک دوسرے کو “کوک شاستر” دیا کرتے تھے کہ بڑوں کی نظر اور “چھتروں” سے محفوظ رہیں اور اپنے بستر میں چھپ کر کتاب کے “مزے” لیں۔ وہ کتاب بھی ایک “رات” کی مہمان ہوا کرتی تھی میں نے اس کے ساتھ بھی وہی “سلوک” کیا کہ ایک رات میں ہی پڑھ ڈالی۔
لاہور کا مقدمہ لڑتے ہوئے میم سین بٹ نے لاہور کی تاریخ ازبر کر لی اور ہمیں بھی یاد کروا دی۔ میم سین بٹ نے کراچی کو شہر قائد۔ سیالکوٹ کو شہر اقبال۔ فیصل آباد کو پاکستان کا مانچسٹر کہنے کی بجائے آٹھ بازاروں کا شہر۔۔سرگودھا کو شاہینوں کا شہر کہا جس سے ان کی اس دھرتی سے محبت کا اظہار ہوتا ہے البتہ اس خاکسار کا مصنف سے یہ شکوہ رہے گا کہ آپ کو لائیلپور۔ سرگودھا۔ سیالکوٹ کے القابات تو یاد رہے۔ آپ نے جہاں کتابوں۔ کھابوں اور بابوں کو یاد رکھا وہیں نوابوں کو بھی یاد رکھتے کہ ان کی شہر نواباں بہاول پور اور پاکستان کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ بٹ صاحب نے فرخ سہیل گوئیندی صاحب کی خوب کلاس وہ غازی علم دین شہید اور مولانا ظفر علی خان کو ان کے کالم “مستقبل” میں نظر انداز کرنے پر بجا طور پر سیخ پا ہیں۔ بٹ کا انداز تحریر سفر نامے جیسا ہے وہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے شہر کی گلیاں ناپتے ہیں۔ ان کے کالم کو سفر نامے کی بجائے قدم نامہ کہا جائے تو قرین انصاف ہوگا۔ وہ مستنصر حسین تارڑ کی طرح ہر پتے۔ بوٹے اور پتھر میں سے حسین و جمیل عورت نہیں نکالتے بلکہ ہر قدم پر ہر منظر کو “محبوب” کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ وہ ابھی تک عورت جیسی جنس کی آشنائی سے محروم ہیں۔ انہوں نے شہر لاہور کی سیاسی۔ سماجی۔ ثقافتی و صحافتی محافل کا خوب تذکرہ کیا ہے۔ کتاب کا پہلا نصف بہت کمال کا ہے۔ ان کا انداز تحریر عام فہم اور سادہ ہے وہ شہباز شریف کی طرح “گاڑھی” اردو اور بے محل مثالوں و کہاوتوں کی بجائے سیدھی سادی بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
کہیں کہیں وہ خواجہ پرویز کی طرح علم کی کمی یا علم کی زیادتی کی “وجہ” سے بعض اوقات کالم میں ادھر ادھر بھٹک جاتے ہیں لیکن لاہور گردی میں ادھر ادھر بھٹکنے کا اس کے قارئین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کو پڑھنے کے لیے مزید مواد مل جاتا ہے۔ ان کے کنوارے ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آوارہ گردی کی اجازت لینے کے لیے بیگم کے “ترلے” نہیں کرنے پڑتے۔ ان کی آوارہ گردی یوں ہی جاری رہی تو بہت جلد ان پر “کتاب گردی” کا “مقدمہ” بھی بن سکتا ہے۔ اس کتاب میں میری دلچسپی کی وجہ میم سین بٹ کے علاوہ میری پہلی محبت لاہور اور پریس کلب بھی ہے۔ میں کتاب کو پڑھتا اور خود اس میں “تلاش” بھی کرتا رہا کہ کہیں کسی کونے کھدرے میں خود کو ڈھونڈ سکوں لیکن اس میں ناکام رہا۔ جب “قصہ” راجپوتاں شروع ہوا تو بات بھٹی راجپوتوں پہ آ کے اٹک گئی۔ میں نے اگلے صفحے پر اپنے سسرالی خاندان “آرائیں” پر نظر ڈالی تو دل میں خیال آیا ہو سکتا ہے کہیں بٹ صاحب پہ یہ “راز” کھل چکا ہو اور انہوں نے اس نسبت سے ذکر کر دیا ہو لیکن ندارد۔۔۔ بات اگر برادریوں اور اقوام تک پہنچ ہی چکی تھی تو پھر اس کو آگے بھی بڑھنا چاہیے تھا لیکن میرا خیال ہے مصنف نے سوچا ہوگا کہ بات اگر نکلے تو دور تلک جائے گی شاید اسی خدشے نے انہیں یہیں روک لیا۔ میم سین بٹ اور میرا شکوہ جواب شکوہ تو چلتا رہے گا آپ کے لیے یہی مشورہ ہے کہ آپ اس کتاب کو خرید کر پڑھیں بلکہ اپنے دوستوں اور لاہور سے محبت کرنے والے افراد میں بانٹیں آپ کا پیسہ اور وقت برباد نہیں ہوگا۔ بک ا سٹریٹ مزنگ روڈ لاہور پر کتابوں کے معروف پبلشر فکش ہائوس سے آپ کو یہ کتاب 600 روپے میں مل جائے گی۔ میری میم سین بٹ اور کتابوں کی باہم دوستی کی دائم سلامتی کے لیے دعائوں کی درخواست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔