وجود

... loading ...

وجود

لاہور کا مقدمہ اور بٹ پر میرا "مقدمہ"

هفته 17 دسمبر 2022 لاہور کا مقدمہ اور بٹ پر میرا

 

 

محمد سرفراز بٹ المعروف میم سین بٹ کے کالموں اور مضامین کا مجموعہ “لاہور کا مقدمہ ” کتابی “صورت” میں سامنے اجقٓ اور سچ پوچھیں تو چھا چکا ہے۔ میم سین بٹ سے میری پہلی ملاقات کب اور کہاں ہوئی یہ تو یاد نہیں البتہ ان کے ساتھ روزنامہ جناح میں گزرا وقت یادگار رہا وہ سٹی پیج کے نیوز ایڈیٹر تھے اور میں ایڈیٹر رپورٹنگ کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ بٹ صاحب اور مجھ میں ایک قدر مشترک تھی کہ دونوں ہی سگریٹ نوشی کو زندگی کے لیے خطرہ سمجھ کر اس سے نفرت کرتے تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے میں ہم “سیم پیج” پر تھے بلکہ بٹ صاحب نے تو زندگی میں کبھی سگریٹ کو “منہ” اور “نوشی” کو “ہاتھ” بھی نہیں لگایا۔ میم سین بٹ نے بڑی اپنائیت اور محبت سے پریس کلب کیفے ٹیریا میں اپنے دستخط ثبت کر کے یہ کتاب “تحفتاً” دی اپنی محتاط و حساس طبیعت کے عین مطابق وہ کتاب دیتے وقت اسے ردی اخبار میں لپیٹنا نہ بھولے ہو سکتا ہے وہ محدود تعداد کے باعث ایسا کر رہے ہوں مگر مجھے لگا جیسے بچپن میں دوست ایک دوسرے کو “کوک شاستر” دیا کرتے تھے کہ بڑوں کی نظر اور “چھتروں” سے محفوظ رہیں اور اپنے بستر میں چھپ کر کتاب کے “مزے” لیں۔ وہ کتاب بھی ایک “رات” کی مہمان ہوا کرتی تھی میں نے اس کے ساتھ بھی وہی “سلوک” کیا کہ ایک رات میں ہی پڑھ ڈالی۔
لاہور کا مقدمہ لڑتے ہوئے میم سین بٹ نے لاہور کی تاریخ ازبر کر لی اور ہمیں بھی یاد کروا دی۔ میم سین بٹ نے کراچی کو شہر قائد۔ سیالکوٹ کو شہر اقبال۔ فیصل آباد کو پاکستان کا مانچسٹر کہنے کی بجائے آٹھ بازاروں کا شہر۔۔سرگودھا کو شاہینوں کا شہر کہا جس سے ان کی اس دھرتی سے محبت کا اظہار ہوتا ہے البتہ اس خاکسار کا مصنف سے یہ شکوہ رہے گا کہ آپ کو لائیلپور۔ سرگودھا۔ سیالکوٹ کے القابات تو یاد رہے۔ آپ نے جہاں کتابوں۔ کھابوں اور بابوں کو یاد رکھا وہیں نوابوں کو بھی یاد رکھتے کہ ان کی شہر نواباں بہاول پور اور پاکستان کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ بٹ صاحب نے فرخ سہیل گوئیندی صاحب کی خوب کلاس وہ غازی علم دین شہید اور مولانا ظفر علی خان کو ان کے کالم “مستقبل” میں نظر انداز کرنے پر بجا طور پر سیخ پا ہیں۔ بٹ کا انداز تحریر سفر نامے جیسا ہے وہ دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں سے شہر کی گلیاں ناپتے ہیں۔ ان کے کالم کو سفر نامے کی بجائے قدم نامہ کہا جائے تو قرین انصاف ہوگا۔ وہ مستنصر حسین تارڑ کی طرح ہر پتے۔ بوٹے اور پتھر میں سے حسین و جمیل عورت نہیں نکالتے بلکہ ہر قدم پر ہر منظر کو “محبوب” کی نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ وہ ابھی تک عورت جیسی جنس کی آشنائی سے محروم ہیں۔ انہوں نے شہر لاہور کی سیاسی۔ سماجی۔ ثقافتی و صحافتی محافل کا خوب تذکرہ کیا ہے۔ کتاب کا پہلا نصف بہت کمال کا ہے۔ ان کا انداز تحریر عام فہم اور سادہ ہے وہ شہباز شریف کی طرح “گاڑھی” اردو اور بے محل مثالوں و کہاوتوں کی بجائے سیدھی سادی بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
کہیں کہیں وہ خواجہ پرویز کی طرح علم کی کمی یا علم کی زیادتی کی “وجہ” سے بعض اوقات کالم میں ادھر ادھر بھٹک جاتے ہیں لیکن لاہور گردی میں ادھر ادھر بھٹکنے کا اس کے قارئین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کو پڑھنے کے لیے مزید مواد مل جاتا ہے۔ ان کے کنوارے ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آوارہ گردی کی اجازت لینے کے لیے بیگم کے “ترلے” نہیں کرنے پڑتے۔ ان کی آوارہ گردی یوں ہی جاری رہی تو بہت جلد ان پر “کتاب گردی” کا “مقدمہ” بھی بن سکتا ہے۔ اس کتاب میں میری دلچسپی کی وجہ میم سین بٹ کے علاوہ میری پہلی محبت لاہور اور پریس کلب بھی ہے۔ میں کتاب کو پڑھتا اور خود اس میں “تلاش” بھی کرتا رہا کہ کہیں کسی کونے کھدرے میں خود کو ڈھونڈ سکوں لیکن اس میں ناکام رہا۔ جب “قصہ” راجپوتاں شروع ہوا تو بات بھٹی راجپوتوں پہ آ کے اٹک گئی۔ میں نے اگلے صفحے پر اپنے سسرالی خاندان “آرائیں” پر نظر ڈالی تو دل میں خیال آیا ہو سکتا ہے کہیں بٹ صاحب پہ یہ “راز” کھل چکا ہو اور انہوں نے اس نسبت سے ذکر کر دیا ہو لیکن ندارد۔۔۔ بات اگر برادریوں اور اقوام تک پہنچ ہی چکی تھی تو پھر اس کو آگے بھی بڑھنا چاہیے تھا لیکن میرا خیال ہے مصنف نے سوچا ہوگا کہ بات اگر نکلے تو دور تلک جائے گی شاید اسی خدشے نے انہیں یہیں روک لیا۔ میم سین بٹ اور میرا شکوہ جواب شکوہ تو چلتا رہے گا آپ کے لیے یہی مشورہ ہے کہ آپ اس کتاب کو خرید کر پڑھیں بلکہ اپنے دوستوں اور لاہور سے محبت کرنے والے افراد میں بانٹیں آپ کا پیسہ اور وقت برباد نہیں ہوگا۔ بک ا سٹریٹ مزنگ روڈ لاہور پر کتابوں کے معروف پبلشر فکش ہائوس سے آپ کو یہ کتاب 600 روپے میں مل جائے گی۔ میری میم سین بٹ اور کتابوں کی باہم دوستی کی دائم سلامتی کے لیے دعائوں کی درخواست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر